ہربات ماننے کو تیار ہیں لیکن ایک چیز سمجھ نہیں آئی۔ جب ایک ادارے کے سربراہ کی مدت پوری ہو رہی تھی‘ جانے دیجئے وہ کون سا ادارہ تھا‘ ہم جیسے بیوقوف سمجھ رہے تھے کہ مدت ِ ملازمت میں توسیع ہو ہی نہیں سکتی۔عمران خان ایسی توسیع کی اجازت کبھی نہ دیں گے۔ لیکن ہم جو سادہ ٹھہرے ہماری حیرانی کی انتہا نہ تھی جب توسیع دینے کی تیاریاں شروع ہونے لگیں۔مسئلہ سپریم کورٹ تک بھی گیا‘ وہاں بھی کچھ کہا گیا کہ اس مسئلے پہ تو باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کی نشست بلائی گئی‘ ایک باقاعدہ قانون تیارکیا گیا اور پھر صرف پی ٹی آئی نے اُس قانون کی حمایت کیا کرنی تھی‘ نون لیگ اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنے کاندھے اُس قانون کے پیچھے لگائے اور قومی اتفاقِ رائے سے قانون پاس ہوا اور توسیع ہو گئی۔
سمجھ میں جو بات نہیں آ رہی یہ ہے کہ سارے ناٹک کی ضرورت کیا تھی ؟ ہم جیسے جو ہمیشہ سے ہی سادہ لوح رہے ہیں سمجھ رہے تھے کہ عمران خان تو میرٹ کے بادشاہ ہیں۔ کئی بار توسیع کی روایت کے خلاف بول چکے ہیں‘وہ ایسا نہ کریں گے۔لیکن انہوں نے ایسا کیا اور ہمارے ذہنوں میں سوال چھوڑ گئے کہ کون سی مجبوری تھی جس کے تحت توسیع کو ضروری سمجھا گیا۔دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آپ سے فیصلہ کروایا گیا‘ اگر ایسا تھا تو پھر آپ کی جوانمردی پہ سوال اُٹھتا ہے۔یا یہ فیصلہ آپ کا اپنا تھا اور ایسی صورت میں آپ کی عقل پہ سوالیہ نشان بنتے ہیں۔ بہرحال آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی۔
تحریک عدم ِ اعتماد سے دو تین روز پہلے صحافیوں کے ایک ٹولے کو وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا۔اس ٹولے میں میں بھی تھا اور جب وزیراعظم سے ملاقات ہوئی تو اور چیزوں کے علاوہ ایک بار پھر اُنہوں نے عثمان بزدار کا بھرپور دفاع کیا۔ بزدار کے بارے میں اُن سے سوال ضرور کیا گیا تھا لیکن وہ ایسا موقع نہ تھا کہ بزدار کا اس گرم جوشی سے دفاع کیا جاتا لیکن خان صاحب نے کیا۔ بزدار کا معمہ آج تک ہمارے ذہنوں میں حل نہیں ہوسکا۔ اس شہسوار کو اتنی اہم ذمہ داری کیلئے کیونکر چنا گیا ؟محرکات کیا تھے‘ مجبوری کیا تھی؟چہ مگوئیاں تو تب بھی ہوتی تھیں‘ مفروضے گھڑے جاتے تھے لیکن آج تک اس سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں مل سکا۔ گوشۂ گمنامی سے ایک آدمی اُٹھا تھا‘ پی ٹی آئی سے اُس کا باقاعدہ تعلق بھی نہ تھا اور آپ نے اُسے چیف منسٹر پنجاب بنا دیا۔نہ صرف بنایا بلکہ جب ہرطرف سے آوازیں اُٹھنے لگیں کہ اس آدمی کو فارغ کریں اور کوئی ڈھنگ کا چیف منسٹر لگائیں تو آپ ڈٹے رہے اور ہر موقع پر آپ نے بزدار کی وہ تعریفیں کیں جن سے شاید اُس کے فرشتے بھی واقف نہ ہوں۔ اس کہانی سے پردہ اُٹھے تو نہایت ہی دلچسپ ہوگی کہ آپ کا ذہن بزدار کے بارے میں کیسے بنا اور پھر اس نکتے پر مضبوطی سے کیسے قائم رہا۔
عید پر بھگوال میں کچھ لوگ ملنے آئے اور ظاہر ہے جب ہمارے معاشرے میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں بات یا سیاست پہ ہوتی ہے یا پلاٹوں اور فائلوں کے بارے میں کہ کہاں پیسے لگانے چاہئیں۔سیاست پہ بات ہوئی توجناب ِ وزیراعظم(سابق) کے احتساب بارے معاون شہزاد اکبر کا ذکر چھڑ گیا۔ وہاں ایک صاحب ایسے بیٹھے تھے جو معاون برائے احتساب کو تقرری سے پہلے سے جانتے تھے۔ ہم نے جناب کی صلاحیتوں اور بیک گراؤنڈ کے حوالے سے کچھ جاننا چاہا۔ پتا چلا کہ تقرری سے پہلے کی بیک گراؤنڈ کچھ تھی ہی نہیں۔وکالت سے تعلق تو تھا لیکن بشمول وکالت کسی شعبے میں کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہ تھی۔اس میں کوئی عجوبہ نہیں‘ ایسا ہوتا ہے۔ لیکن پھر سوال اُٹھتا ہے کہ ایسے شخص کو جس کا نہ آگے نہ پیچھے‘ اتنی اہم پوسٹ پر کس بنا پر لگایا گیا ؟خان صاحب کے سارے دور میں یہ شخص مکے ہی لہراتے رہے‘ بڑے بڑے دعوے کرتے رہے لیکن آج پوچھا جائے کہ انہوں نے کیا کیا‘ان کی کارکردگی کیا تھی‘ تو کچھ جواب نہ ملے گا۔آخرکار جب وزیراعظم بھی ان جناب کی حقیقت جان گئے تو عہدے سے ہٹے یا انہیں ہٹایا گیااور پھر پتا چلا کہ چپکے سے باہر جاچکے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ کہ عمران خان جو معیار کی بات کرتے تھکتے نہیں‘ نے کون سا معیار دیکھ کر ایسے شخص کو اتنی اہم پوسٹ پہ لگا یا تھا۔
خان صاحب کی مصیبتیں شروع ہو ئی تھیں تو معیشت کے حوالے سے ہوئی تھیں۔جب ڈالر کی نسبت روپے کو غیرضروری طور پر بہت ہی سستا کر دیا گیا۔ان کے وزیرخزانہ تب اسد عمر تھے۔ نہایت شریف اور بھلے انسان ہوں گے لیکن جیسے حالات نے ثابت کیاکہ معیشت کی وہ الف ب نہیں جانتے تھے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا لیکن جا نہیں رہے تھے‘ بہت دیر اس میں کردی جس کی وجہ سے کاروباری حلقوں میں ایک بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ہمارے کان تھک چکے ہیں یہ سن سن کے کہ پی ٹی آئی کی جدوجہد کتنی لمبی تھی۔ اس لمبی جدوجہد میں حکمرانی کیلئے آپ کچھ تیاری کرپائے تھے؟2018ء سے پہلے تو صاف لگ رہا تھا کہ آپ کو اقتدار میں لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اپنی ٹیم تو آپ تیار کرلیتے۔بقول آپ کے دنیا بھر کے نامور پاکستانی آپ کو صلاح کا مشورہ دیتے تھے اور آپ کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار تھے۔ایسے میں ڈھنگ کا وزیرخزانہ تو چن لیتے۔ لیکن کس کو کہاں لگانا ہے یہ فیصلہ آپ سے ہو ہی نہ سکا۔اور اب اگر قسمت نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ پھر سے اقتدار میں آتے ہیں تو کیا ضمانت ہے کہ نکموں کا ایک نیا ٹولا اہم پوسٹوں پر نہیں آجاتا؟
اب جو کہانی آپ سنا رہے ہیں وہ قومی آزادی اور خودمختاری کی ہے۔آپ کا پیغام اتنا مؤثر ہے کہ نوجوان اور خواتین‘ مڈل کلاسیئے اور مختلف اداروں کے سروس مین دیوانہ وارآپ کی بات سن رہے ہیں۔لیکن اتنا تو پوچھنا بنتا ہے کہ کس درس ِ خودمختاری کے تحت اہم عہدوں کیلئے ان اشخاص کو چنا گیا جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے؟ اَن بن جو آپ کی بنی اداروں سے یا مخصوص اشخاص سے وہ بعد کی بات ہے جب آپ اقتدار میں کافی عرصہ رہ چکے تھے۔اُس سے پہلے تو آپ کی مکمل حمایت کی جا رہی تھی۔ جو سیاسی معاملات آپ کو خود نمٹانے چاہئیں تھے وہ ذمہ داریاں اداروں کے لوگ آ کے پوری کر رہے تھے۔تب آپ کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا جاتا تھا۔ اب آپ بجا کہہ رہے ہیں کہ جن کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات لگے ہوئے ہیں اُن کو اقتدار میں لایا گیا ہے۔ہم جیسے تو آپ کو داد دیتے تھے کہ آپ نے اس ملک میں دو جماعتی غاصبانہ اجارہ داری کو توڑا ہے۔ یہ کام آپ ہی کرسکتے تھے کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔لیکن پھر یہ کرشمہ بھی ہوا ہے کہ جن کو پھر سے کبھی اقتدار میں نہ آنا چاہئے تھا وہ آج براجمان ِ اقتدار ہیں۔ آپ تو نہ مانیں گے لیکن اس المیے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے۔کارکردگی کچھ بہتر ہوتی تو یہ دن نہ آپ کو نہ قوم کو دیکھنا پڑتا۔
آپ کے آنے سے ہم سمجھے تھے کہ قوم آگے کو جا رہی ہے لیکن جو کچھ ہوا ہے اُس سے تو صاف ظاہر ہے کہ ہم کہیں پیچھے کو جا چکے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved