تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     07-05-2022

اسلام آباد مارچ اور اس کا بیانیہ

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے مئی کے آخر میں اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے اپنے حامیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ مارچ کے لیے شہر شہر‘ گاؤں گاؤں محلوں اور گلیوں میں تیاری کریں اور انتظار کریں کہ کب کال دیتا ہوں۔ عام خیال تھا کہ یہ کال جلد دی جائے گی مگر کپتان نے اسے تقریباً ایک ماہ تک مؤخر کر دیا ہے۔ تاخیر کی کئی ممکنہ وجوہ ہو سکتی ہیں؛ تاہم سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ اس مارچ کی تیاری کیلئے مزید وقت چاہتے ہیں کیونکہ اس میں کم از کم 20 لاکھ افراد شامل کر کے اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ بنانا چاہتے ہیں۔ مارچ کا ایک دفعہ پھر اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری حکومت کو ایک بیرونی سازش کے ذریعے ختم کیا گیا ہے کیونکہ میں ملک کی خارجہ پالیسی آزادانہ خطوط پر چلانا چاہتا تھا‘ اس سازش میں ملک کی سابقہ اپوزیشن پارٹیاں شامل ہیں‘ جنہیں زبردستی پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔ مارچ کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس کے ذریعے دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کسی کا غلام یا کسی کے تابع نہیں بلکہ ایک آزاد ملک ہے۔ اسی لئے انہوں نے اس مارچ کا نام ''آزادی مارچ‘‘ رکھا ہے۔ جیسا کہ سابق وزیر اعظم نے خود کئی بار کہا ہے کہ اسلام آباد مارچ کے بیانیے کی بنیاد امریکہ میں پاکستان کے ایک سابق سفیر کی طرف سے اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کو بھیجی جانے والی ایک رپورٹ ہے جس میں پاکستانی سفارت خانہ میں الوداعی لنچ پر امریکہ کے محکمہ خارجہ کے تیسرے درجے (اسسٹنٹ سیکرٹری) کی طرح کے ایک افسر کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کا خلاصہ اور سفیرِ پاکستان کی اپنی رائے اور سفارش شامل ہے۔ اس گفتگو میں امریکی اہلکار نے پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات خصوصاً اُس وقت (عمران خان) کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی پر بقول نیشنل سکیورٹی کونسل غیر سفارتی زبان میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔
سابق وزیر اعظم نے اس گفتگو کو ان کی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے کیونکہ اس میں اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بھی ذکر ہے۔ عام طور پر لنچ اور ڈنر پر سفارت کاروں کے مابین گفتگو کا نوٹس نہیں لیا جاتا اور اسے آف دی ریکارڈ ہی رہنے دیا جاتا ہے لیکن گفتگو میں استعمال کیے گئے الفاظ سخت اور خارجہ تعلقات کیلئے اہم مضمرات کے حامل ہوں تو نہ صرف نوٹس لیا جاتا ہے بلکہ فارن آفس کو مطلع بھی کیا جاتا ہے۔ مزید کارروائی کی ضرورت محسوس ہو تو سرکاری سطح پر باقاعدہ رابطہ کرکے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ مذکورہ اہل کار کی رائے کیا اس ملک کی سرکاری پالیسی ہے یا محض اہل کار کی ذاتی رائے۔ امریکہ میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر نے یہی کیا۔ نہ صرف وزارتِ خارجہ کو امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کے ساتھ گفتگو کی سمری بھیجی بلکہ وزارت خارجہ کو مشورہ دیا کہ کوئی ایکشن لینے سے پہلے اس بات کی تصدیق کر لی جائے کہ اہل کار نے جو کچھ کہا کیا وہ اس کی اپنی ذاتی رائے تھی یا امریکہ کی سرکاری پالیسی؟
لیکن جیسا کہ اب سب کو معلوم ہے ‘ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ البتہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے جلسۂ عام میں اس رپورٹ کو لہرا کر اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا اور ایک موقع پر امریکہ کا نام بھی لے لیا تو امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے سازش کے الزام کو بے بنیاد اور غلط کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے دو اجلاس کے اختتام پر جاری کئے گئے اعلامیہ میں سازش کا لفظ شامل نہیں کیا گیابلکہ غیر سفارتی زبان پر سخت احتجاج کا فیصلہ کیا گیا اور حکومت پاکستان نے اس پر عمل کیا۔ تجزیہ کار اور فارن سروس کے ریٹائرڈ اہلکاروں کی بھی یہی رائے ہے کہ امریکی اہلکار کی زبان قابلِ اعتراض اور غیر سفارتی ہے مگر اس میں سازش کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس مسئلے پر جو سرکاری بیان جاری کیا ہے‘ اس میں سازش کے عنصر کو مسترد کیا گیا ہے اور یہی موقف ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کی صورت میں مسلح افواج کا ہے‘ لیکن سابق وزیر اعظم نے اپنی آئندہ سیاست خصوصاً اسلام آباد مارچ کو سازش کے بیانیے کی بنیاد پر متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے خیال میں انہوں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں‘ کیونکہ پاکستانی عوام میں امریکہ مخالف جذبات کی جڑیں کافی گہری ہیں اور قیام پاکستان سے ہی اس کا گاہے گاہے اظہار ہوتا رہا ہے‘ مثلاً 1948ء میں فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کی یہودی ریاست کے قیام میں امریکی ہاتھ‘ پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکانے کیلئے کافی تھا۔ 1950ء کی دہائی میں امریکی دفاعی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف عوامی سطح پر سخت مخالفت اسی اینٹی امریکنزم کا تسلسل تھا۔ 1962ء میں اتحادی پاکستان کو بائی پاس کر کے غیر جانبدار بھارت کو امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر چین کے خلاف جس طرح بھاری فوجی امداد فراہم کی‘ اس سے پاک امریکہ تعلقات میں بدگمانی میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اس کے بعد 1965 اور 1971ء کی پاک بھارت جنگیں ہوئی۔ دونوں مواقع پر امریکہ نے پاکستان کیلئے ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی عائد کر دی۔ ایٹمی ہتھیاروں کے مسئلے پر امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو جو دھمکی دی اس سے پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات اور بھی بڑھ گئے۔ افغانستان پر سوویت قبضہ (1980-89ء) اور نائن الیون کے بعد مشرف دور میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک تعاون نظر کا دھوکہ تھا۔ حقیقت میں دونوں ملک شک اور بد گمانی کی گہری فضا میں اپنے اپنے مفادات کیلئے برائے نام تعاون کر رہے تھے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ پر پاکستان کا انحصار بڑھتا گیا۔ یہ انحصار معاشی اور دفاع دونوں شعبوں میں ہے۔ امریکہ پاکستان کیلئے سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی مالی امداد کا انحصار امریکہ کی رضا مندی پر ہے۔ یہی نہیںبلکہ دیگر دوست ملکوں کی طرف سے پاکستان کیلئے خیر سگالی‘ تجارتی رعایتیں اور سرمایہ داری بھی پاک‘ امریکہ تعلقات سے جڑی ہوئی ہے۔ صحت‘ تعلیم‘ ثقافت‘ تجارت‘ صنعت‘ زراعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں امریکہ کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے نہایت اہم ہیں۔ پاکستان کے تمام حلقے خصوصاً کاروباری اور سول سوسائٹی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔
اینٹی امریکنزم پر مبنی عمران خان کے بیانیے کو کسی جانب سے بھی سپورٹ ملنے کا امکان نہیں بلکہ اس بیانیے کی بنیاد پر پاکستان کے طول و عرض میں احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کے انعقاد سے نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے اتحادی مغربی یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے سخت رد عمل آ سکتا ہے۔ ان ممالک کے ساتھ برسوں کی محنت سے قائم کیے گئے مالی‘ اقتصادی اور تجارتی تعلقات خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو جن حالات سے دوچار ہونا پڑے گا‘ ان سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی اور ملک آگے نہیں آئے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved