مقتدرہ کا عَلانیہ دعویٰ ہے کہ وہ غیرسیاسی یعنی Depoliticise ہوگئی ہے، Neutral(یعنی غیر جانبدار)ہونے پر جنابِ عمران خان نے پھبتی کسی تھی: ''غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے‘‘۔ غیر سیاسی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اُسے اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ کون سی جماعت یا اتحاد برسرِ اقتدار آتا ہے اور کون سی جماعت اقتدار سے باہر ہوتی ہے۔ وہ ہردور کی منتخب حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ 2011ء سے پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار بنانے اور2018 کے انتخابات میں اُسے برسرِ اقتدار لانے میں مقتدرہ کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی ہر مشکل مرحلے پر اُسے بچانے کے لیے مقتدرہ پسِ پردہ رہ کر کام کرتی رہی، لیکن اتنا بھی پسِ پردہ نہیں تھی، یہ ایک کھلا راز تھا اور ہرصاحب نظر اس سے باخبر تھا۔ پھر اچانک ایسے حالات نمودار ہوئے کہ پی ٹی آئی حکومت اور مقتدرہ کے درمیان باہمی اعتماد کا وہ رشتہ قائم نہ رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہوئی اور تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر کے کامیاب ہوگئی، اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اپنا آئینی کردار ادا کیا۔
جنابِ عمران خان اور پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے پیچھے بیرونی سازش ہے، کبھی اس سازش کے ڈانڈے بلاول ہائوس سے ملائے جاتے ہیں، کبھی واشنگٹن سے اور حال ہی میں نواز شریف کو اس کا کریڈٹ دیا گیا ہے، بہرحال انہیں کوئی بھی مؤقف اختیار کرنے کا حق ہے۔ تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کسی کے نزدیک خیر ہے یا شر، لیکن ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ ہر صورت میں اس کا سارا کریڈٹ جنابِ عمران خان کو جاتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کے لیے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ نیب، ایف آئی اے اور دیگر ریاستی اداروں کو بے دردی سے استعمال کر رہے تھے، احتساب انتقام میں بدل چکا تھا، مخالفین کی روزوشب تذلیل ہورہی تھی اوریہ تاثر قائم ہورہا تھا کہ آئندہ انتخاب سے پہلے ایسے قوانین بنادیے جائیں گے اورایسا الیکشن کمیشن تشکیل پائے گا کہ پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ اس بات کے بھی خدشات تھے کہ عام انتخابات سے پہلے سب یا اکثر مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا جائے گا، اس کے نتیجے میں یہ انتخابات یکطرفہ ثابت ہوں گے اور دوتہائی اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں آئین میں ترمیم کر کے نظامِ حکومت کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی بنادیا جائے گا اور ایک طرح سے بادشاہت کا تصور قائم ہوگا، اگرچہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی بھی جنابِ عمران خان کی شخصیت پر قائم ہے اور اُن کے بعدیقینا یہ بکھر جائے گی۔
پس اپوزیشن سیاستدانوں کواپنی ذاتی اور سیاسی بقا کا مسئلہ درپیش تھا، کیونکہ انہیں اس طرح بند گلی میں دھکیلا جارہا تھا کہ اُنہیں ''نہ جائے رفتن ونہ پائے ماندن‘‘والی صورتِ حال سامنے نظر آرہی تھی، اس لیے انہیںہرصورت میں عدمِ اعتماد کی طرف جانے کے سوا کوئی راہِ نجات نظر نہیں آرہی تھی۔ جنابِ آصف علی زرداری شاید ایک عرصے سے زیرِ زمیں کام کر رہے تھے اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب مقتدرہ واقعی حکومت کی پشت پر کھڑی نہیں ہے، تو انہوں نے عملی پیش قدمی کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے حکومت کے منحرفین کو ''داشتہ آید بکار‘‘کے مصداق سائڈ لائن پر ریزرو کے طور پر رکھا اور حکومت کے اتحادیوں کو رام کر کے اپنے ساتھ ملایا اور انہیں اُن کے حق اور اُن کے حجم سے زیادہ دے کر راضی کرلیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بڑی جماعتوں کو زیادہ قربانی دینا پڑی اور اتحادوں کی سیاست میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، حجم یا تعداد کم ہونے کے باوجود بعض اوقات ترازو کا پلڑا کسی ایک کے حق میں جھکانے کے لیے فیصلہ کن قوت (Leverage) چھوٹی جماعتوں کے پاس آجاتا ہے۔ جنابِ عمران خان نے اَنا، خود پرستی، برخود راستی اور تکبر کے باعث بادلِ ناخواستہ چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملائے تورکھا، لیکن انہیں دل سے قبول کرنے اور عزت دینے کے لیے وہ کبھی آمادہ نہیں ہوئے، لہٰذا وہ مستقل پیچ وخم کھاتے رہے، کرب میں مبتلا رہے، ٹیسیںاٹھتی رہیں، لیکن فریاد نہ کرپاتے، کیونکہ مقتدرہ کی غیر مشروط حمایت حکومت کی پشت پر تھی، لہٰذا اُن کے پاس اپنی سیاسی بقا کے لیے کوئی اور آپشن یا متبادل تھا ہی نہیں۔ پس حالات نے جوں ہی انہیں موقع فراہم کیا، انہیں فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی۔ اگر جنابِ عمران خان حکومت متوازن انداز میں چلاتے، دوسروں کی تذلیل نہ کرتے، اداروں کو اتنے کھلے پن کے ساتھ مخالفین کے خلاف استعمال نہ کرتے، احتساب کا عمل اپنی معمول کی رفتار سے جاری رہتا تو شاید اس عدمِ اعتماد کی نوبت نہ آتی، کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے اپنے مفادات اوراپنے تضادات ہوتے ہیں، مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے اور ان کا زیادہ عرصے تک مل جل کر چلنا آسان بھی نہیں ہوتا، پی ڈی ایم کا انجام سب کے سامنے ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت بھی جتنا زیادہ عرصہ چلے گی، اس کا کریڈٹ بھی جنابِ عمران خان کو جائے گا، وہ جتنا دبائو بڑھائیں گے، اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر چلتے رہنے پر مجبور ہوں گے۔ اُن کے لیے دانش مندانہ طرزِ عمل یہ ہوتا کہ اقتدار سے اترنے کے بعد کچھ عرصہ خالی الذہن ہوکر اپنے دورِ حکومت کا جائزہ لیتے، کامیابیوں اور ناکامیوں کے اسباب کا تعین کرتے، آئندہ کے لیے غلطیوں کو نہ دہرانے کا اہتمام کرتے اور پھر مناسب وقفے کے بعد میدانِ عمل میں آتے، لیکن یہ اُن کی فطرت اور افتادِ طبع کے یکسر خلاف تھا، چنانچہ فوراً میدان میں کود پڑے۔
ہمارے ہاں پارلیمانی جمہوریت اپنی روح کے مطابق تو کبھی بھی فعال نہیں رہی، لیکن جنابِ عمران خان کے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ بالکل مفلوج رہی، اس سے ربرسٹمپ کا کام لیا جاتا رہا، قانون سازی معمول کے طریقۂ کار کے مطابق نہیں ہوئی، ایک دن میں کم وبیش تینتیس قوانین سمجھے اور پڑھے بغیر پارلیمنٹ سے منظور ہوکر ایکٹ بن گئے، ریکارڈ حد تک آرڈیننس جاری ہوتے رہے اور ایوانِ صدر کوآرڈیننس فیکٹری کا نام دیا جاتا رہا۔ اگر پارلیمانی نظام کو اس کی روح کے مطابق چلنے دیا جائے، ایک دوسرے کی تذلیل وتحقیر کے بجائے قوانین کے بارے میں پارلیمنٹ میں بامعنیٰ بحث وتمحیص ہو تی، دلائل پر مبنی خطابات ہوتے، تو تنائو کی فضا کافی حد تک کم ہوجاتی۔ پارلیمانی جمہوریت قوانین جبراًمسلّط کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ اجتماعی دانش سے بہتر قانون سازی کا نام ہے۔ ہماری نظر میں تو پارلیمنٹ کی مجالسِ قائمہ کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ پیچیدہ اور فنی قوانین کے بارے میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو بلاکر اُن کی آرا سے بھی استفادہ کر سکیں۔ امریکا میں کیپٹل ہل کے دورے میں ہم نے دیکھا کہ کانگریس کے ارکان کے اپنے اپنے دفاتر ہوتے ہیں اور وہ جن جن کمیٹیوں کے رکن بنتے ہیں، اُن سے متعلق ماہرین اُن کے لیے تحقیقی مواد تیار کرتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرکے وہ قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کرتے ہیں، مثلاً: اگر کوئی کمیٹی جنوبی ایشیا سے متعلق ہے، تو اُن کا تحقیقی عملہ اس خطے کے بارے میں پوری معلومات اور آگہی رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ قانون بناتے وقت بال کی کھال اتارتے ہیں اور گہرائی تک جاتے ہیں۔ وزیر کو وہاں سیکرٹری کہاجاتا ہے اور وزرا کی کلیرنس بھی سینیٹ کی کمیٹیاں کرتی ہیں، امریکی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی سکریننگ بھی متعلقہ کمیٹیاں کرتی ہیں اور وہ اُن کی پوری زندگی کو کھنگال کر رکھ دیتے ہیں۔
جنابِ عمران خان نہ تواپوزیشن کو منہ لگانے کو تیار تھے اورنہ اُن سے مصافحہ کرنے کیلئے آمادہ تھے، حتیٰ کہ اُنکی طرف دیکھنے کے رواداربھی نہیں تھے، اُن سے مل کر قومی امور کو طے کرنا مثلاًا لیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرریا نگراں حکومت کا تقرر تو بہت دور کی بات ہے۔
پاکستانی سیاست کے عناصرِ ترکیبی دوسروں سے نفرت، تحقیر وتذلیل اور اپنے مَن پسند قائدین کی عصبیتِ جاہلیہ کے طرزپر پرستش کی حد تک متعصبانہ وابستگی بن گئے ہیں، اس عصبیتِ جاہلیہ نے حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط کی تمیز کو مٹادیا ہے، نوجوان نسل کو اخلاقی پستی میں گرادیا ہے۔ مروّت اور باہمی احترام کی دینی، سیاسی اورمعاشرتی اقدار معدوم ہوتی جارہی ہیںاور نوجوان اپنے سیاسی قائد ین کو(معا ذ اللہ !) دیوتا کا درجہ دینے لگ گئے ہیں، یہ دینی اور اخلاقی اعتبار سے زوال کی انتہا ہے۔
اندیشہ ہے کہ یہ افتراق وانتشارقوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گا، قریہ قریہ، گلی گلی عام لوگوں اور خاندانوں میں نفرتیں پیدا ہوں گی اور پھر ان منتشر ٹکڑوں کو یکجاکرکے ایک قومی وملّی وجودکی تشکیل انتہائی دشوار ہوجائے گی۔ دستورِ پاکستان کو بھی متنازع بنایاجارہا ہے اور ہر گروہ اس کی دفعات کی من پسند تعبیر وتشریح کر رہا ہے، ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ پارلیمنٹ کا چلنا بھی دشوار ہوجائے گا۔ جب قومی لیڈر یہ بیان دینے لگیں: ''تمہارے بچے سکولوں میں کیسے جائیں گے، رشتے ناتے کیسے کرو گے، تمہارے گھروں کا گھیرائو کیا جائے گا،‘‘ یہ قوم کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اگر اس روش پر چلتے ہوئے بہت دور تک نکل گئے تو منزل کی طرف واپسی دشوار ہوجائے گی، اس لیے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے سلوگن دینے والے وقتی طور پر اسے اپنی کامیابی کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن آخرِ کار یہ بیک فائر ہوجاتا ہے۔
مقامِ افسوس یہ بھی ہے کہ سیاست وصحافت کے میدان میں سب نے ایک پوزیشن اختیار کر لی ہے، ایسے میں متوازن اور تعمیری فکر کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی۔ دلیل واستدلال کا اندازمعروضی نہیں، بلکہ موضوعی بن جاتا ہے، ایسے میں تخریب آسان اور تعمیر دشوار ہوجاتی ہے۔
وسائل کے زور پر دوردراز سے لوگوں کو لاکر بڑا مجمع جمع کرنے سے وقتی طور پرسطحی مقبولیت کا تاثّر تو پیدا ہوجاتا ہے، لیکن یہ الیکشن جیتنے کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ پارلیمانی جمہوریت حلقہ ہائے انتخاب پر مشتمل ہوتی ہے، اس میں کامیابی کے لیے ہر حلقۂ انتخاب (Constituency) میں ووٹروں کی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے، چنانچہ جب ان مظاہر سے قیادت اپنے آپ کو مقبول ترین سمجھنے لگتی ہے اور الیکشن کے دن نتائج اس کے برعکس آتے ہیں، تو وہ حقیقت پسندی سے انہیں قبول کرنے کے بجائے دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved