سیانے کہتے ہیں کہ معاف کردینا چاہیے کیونکہ حسد‘ جلن‘ انتقام پہلے خود انسان کو تباہ کرتے ہیں پھر اس کے بعد دشمن کا نمبرآتا ہے۔ حسد‘ جلن‘ انتقام انسان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتا ہے‘ اس کی اپنی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔وہ بدلے کی آگ میں اچھے برے کی تمیز بھول جاتا ہے اور ہر چیز میں انتہاپسندی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لئے لوگوں کو معاف کرکے معاملہ اللہ کے سپرد کردینا چاہیے۔ اگر پھر بھی دل کو قرار نہ آئے تو معاملہ عدالت میں لے جائیں‘ لیکن قانون کو کسی طور خود ہاتھ میں مت لیں۔ انصاف کرنا عدالتوں کا کام ہے ‘عوام کو کسی بھی طرح ان معاملات پر دخل نہیں دینا چاہیے۔
پاکستان کی جمہوریت ابھی بالغ نہیں ہوئی‘ اپنے گھٹنوں پر ہے۔ سیاست اور سیاست دانوں کو اپنے اندر تحمل اور بردباری لانے میں ابھی بہت سال لگیں گے‘ تاہم کوشش تو کرنی چاہیے کہ خود میں تحمل پیدا کیا جائے‘مگر یہاںکوئی انڈے ٹماٹر مارنے کی بات کررہا ہے تو کوئی وِگ کھینچ کر لانے پر پچاس ہزار دینے کا اعلان کررہا ہے۔اس ملک کی سیاست کو اب بچگانہ پن سے باہر آنا ہوگا۔ خود میں صبر تحمل اور بردباری پیدا کرنا ہوگی۔ حالیہ برسوں میں ہم نے بہت سے سیاست دان کھوئے ہیں‘ کسی کو دہشت گردی نگل گئی اور کوئی کورونا کا نشانہ بن گیا۔ اس لئے جو نئی نسل سیاست میں قدم رکھ رہی ہے اس کو بہت زیادہ ٹھہراؤ کی ضرورت ہے۔مگر ان کی سیاسی تربیت کرنے والے جب خود ہی ہر چیز کو اَنا کامسئلہ بنا لیتے ہیں تو جانشین کیسے تحمل یا برداشت پیدا کریں گے؟
اس کی وجہ سے معاشرے میں غم و غصہ بڑھ جاتا ہے ‘کیونکہ جب لیڈر لڑتے ہیں تو کارکنان بھی دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ چند سال پہلے جب رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے منشیات نکلنے کی خبریں آئیں تو میں نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ پاکستان میں یا تو بھینس چوری گلے پڑجاتی ہے یا ڈرگز کا کیس بنایا دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ غلط کہہ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے یہ انتقامی کارروائی لگ رہی ہے‘ خیرآج وہی رانا ثنا اللہ وزیر داخلہ ہیں۔مجھے لگا تھا کہ( ن) لیگ اقتدار میںآ کر وہ سب نہیں کرے گی جو پہلے ہوتا تھا لیکن یہاں تو پہلے ہفتے میں ہی وہ کچھ ہوگیا کہ سب حیران رہ گئے۔ صحافیوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا گیا‘ اس کے ساتھ مخالفین کوآڑے ہاتھوں لیا گیا‘ پھر رہی سہی کسر سعودی دورے اور اس دورے کے وفد نے پوری کر دی۔ جب بھی کسی ملک کے دورے پر جائیں‘ جہاں سے امداد ملنے کی امید ہو تو وہاں بڑے وفد کو نہیں لے کرجانا چاہیے۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ ہمیں امداد چاہیے ہی کیوں ہوتی ہے؟ ہمارے اکثرسیاست دان اتنے امیر ہیں کہ ارب سے نیچے تو کرپشن کا الزام بھی ان پر نہیں لگتا تو عالمی دنیا سے امداد لینے کیوں جاتے ہیں؟ پھر اس ملاقات میں حسین نواز اورسلمان شہباز کیوں موجود تھے؟ اپنے بچوں کو سرکاری وفود اور ملاقاتوں میں کون شامل کرتا ہے؟وہ دونوں نہ ہی سیاست کا حصہ ہیں نہ ہی سرکاری عہدوں پر ہیں تو ایک سرکاری ملاقات میں ان کا کیاکام تھا؟ پھر جب پاکستانی حکومت کا وفد مسجد نبوی گیا تو وہاں لوگوں نے نعرہ بازی کی۔مسجد کا تقدس ہر شخص پر لازم ہے۔ سب لوگوں کے جذبات نعرے بازی سے مجروح ہوئے۔ مریم اورنگ زیب نے بہت بہادری اور خندہ پیشانی سے اس موقع پر لوگوں کو ڈیل کیا لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا مجھے برا لگا‘ ان کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ شاہ زین بگٹی کے بال نوچے گئے‘ یہ بھی ایک افسوسناک حرکت تھی۔
دوسرے ملک میں اپنے ملک کی سیاست کو زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔ سعودی حکومت نے اس پرتین چار لوگوں کے خلاف کارروائی کی مگر پاکستان میں حکومت نے اپنے مخالفین پر توہینِ مذہب کے پرچے کا ٹنا شروع کردیے۔ ایک واقعہ جو سعودی عرب میں ہوا اس کا پرچہ فیصل آباد میں کیسے ہوسکتا ہے؟ توہین مہذب کا قانون اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس کو اپنے مخالفین کے لیے استعمال کیا جائے۔ان معاملات کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنا سنگین جرم ہے۔ توہین مذہب کو اپنی سیاست کے لیے استعمال مت کریں۔ جو کچھ کوہسارمارکیٹ میں ہوا اورجو میریٹ میں ہوا وہ بھی افسوس ناک تھا۔ اس ملک کے کرتا دھرتا افراد کو کچھ سوچنا چاہیے کہ اگر ایک وزیراعظم کا مینڈیٹ لے کر دوسرے کو دیا جائے گا تو عوام اس پر احتجاج کریں گے‘ بولیں گے بھی۔ اب ہم جدید دنیا میں رہ رہے ہیں یہاں تو شایدآواز دبا بھی لی جائے لیکن جو پاکستانی باہر کے ممالک میں ہیں وہ تو بولیں گے۔ ان کے پاس بولنے کی آزادی ہے۔ تاہم شخصیات کی توہین ‘ مقدس مقامات پر سیاست اور ملک کے خلاف بات نہیں ہونی چاہیے۔ ہر پاکستانی کو قانون کا خیال رکھنا چاہیے۔
ملک میں عجیب سے ماحول ہوگیا ہے ہرکوئی ایک دوسرے سے لڑرہا ہے۔ رمضان میں لوگ ایک دوسرے سے الجھتے رہے یہاں تک کہ عید پر بھی خفگی برقرار رہی۔ جس سوسائٹی میں پہلے ہی عدم برداشت‘ تشدد اور گالی گلوچ کا چلن عام ہو وہاں دو سیاسی دھڑوں میں بٹ جانا بہت خطرناک عمل ہے۔ اس تقسیم اور اختلاف کو نفرت میں تبدیل ہونے سے روکنا ہوگا کیونکہ یہ لڑائی سے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرسکتی ہے اس لئے تمام اداروں اور قیادت کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ ہمیں اس وقت اخوت کی ضرورت ہے‘ بھائی چارے کی ضرورت ہے۔
اب پھر سیاسی جلسے شروع ہوگئے ہیں۔جب بھی ایسا ہوتا ہے تو میڈیا کی ساری توجہ بھی اس طرف ہوجاتی ہے۔ عمران خان کا تو سمجھ آتا ہے کہ وہ کیوں جلسے کررہے ہیں لیکن مریم نواز تو اب اقتدار میں ہیں‘ ان کو جلسوں کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟وہ اقتدار میں ہیں‘ عوام کی خدمت کریں‘ ان کے کام آئیں۔ اس وقت ان کے چچا وزیراعظم ہیں‘چچا زاد بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں‘ ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔انتقام کی طرف توجہ مرکوز رہی اور عوامی خدمت کی طرف توجہ نہ دی تو اس کا براہ راست اثراگلے الیکشن پر پڑے گا۔ عوام کو فوری طور پر ادویات میں ریلیف ملنا چاہیے اس کے ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی آنی چاہیے۔ عملی طور پر رمضان میں کوئی حکومت موجود نہیں تھی‘ تاجروں نے عوام کو دل کھول کر لوٹا۔ہر چیزکی قیمت آسمان سے باتیں کررہی تھیں۔ عوام تکلیف میں رہے‘ کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔اس مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ ایک بہت بڑا طبقہ جوکہ متوسط تھا وہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا۔ ان کے بارے میں سوچیں‘ انتقام کی سیاست کو ایک طرف کریں اور عوام کے بارے میں سوچیں۔ کوئی بیماری سے تڑپ رہا ہے تو کوئی غربت کی وجہ سے سسک رہا ہے مگر اشرافیہ اور ان کے بچوں کو طنز‘ تنقید اور انتقام سے فرصت نہیں۔ عوام ان چیزوں سے عاجزآگئے ہیں ۔ان کو کرپشن فری قیادت چاہیے‘ ان کو پینے کے لیے صاف پانی‘ اچھی تعلیم‘ علاج کی سہولیات اور سرچھپانے کے لیے چھت چاہیے۔ان کو اقتدار کی غلام گردشوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ان کو محلاتی سازشوں میں بھی کوئی دلچسپی نہیں۔
سیاست دان ہر وقت ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور اب ویڈیوز تک بات پہنچ گئی ہے۔ کراماً کاتبین یہ سب دیکھ کر لکھ رہے ہیں اور اپنے کئے پر اللہ کی عدالت میں کوئی بچ نہیں پائے گا ‘اس لئے سیاست کریں لیکن اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ایک دوسرے کی کردارکشی نہ کریں۔انتقام مت لیں اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ کر عوام کی خدمت کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved