تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-05-2022

معاشی رویے بھی توجہ کے منتظر

قوم غیر متعلقات میں گم ہے‘ بلکہ ڈوبی ہوئی ہے۔ ہمیں زمانے بھر کے تفکرات لاحق ہیں۔ اگر نہیں ہے تو اپنی بقا اور استحکام ہی کی فکر لاحق نہیں۔ سوچ لیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی چل رہا ہے اُسے یوں ہی چلتا رہنے دیا جائے‘ ایک نہ ایک دن سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسا کبھی ہوسکتا ہے نہ ہوا ہے۔
کسی بھی قوم کا حقیقی تحرک معاشی معاملات کی نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے۔ جو اقوام کچھ کرنا چاہتی ہیں وہ سب سے پہلے معیشت پر متوجہ ہوتی ہیں۔ معاشی استحکام اور خوش حالی کی منزل پر پہنچنے کی صورت میں بہت سے معاملات خود بخود درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیب بھری ہوئی ہو تو ہر بات اچھی لگتی ہے‘ ہر معاملے کو درست کرنے کا جی چاہتا ہے۔ معاشی استحکام ہی کسی بھی قوم کو بھرپور اعتماد بخشتا ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ پستی کا شکار محض اس لیے نہیں ہے کہ سیاسی بے یقینی و بے چینی پائی جاتی ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی ہم بہت کچھ الٹ‘ پلٹ رہے ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اہلِ پاکستان بہت سے معاملات میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں نہ انہماک ہی کی طرف آتے ہیں۔ بات گھریلو زندگی کی ہو یا سماجی زندگی کی‘ ہم بے ذہنی کا شکار ہیں۔ یہ بے ذہنی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جن معاملات کو فوری توجہ کی ضرورت ہے ہمیں اُن کی بھی پروا نہیں۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ ہمیں معاشی معاملات میں جس نوعیت کی سنجیدگی اور انہماک کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔
کسی بھی قوم کو پروان چڑھانے میں معاشی رویے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ کوئی بھی قوم عالمی برادری میں اپنے لیے کس نوعیت کا مقام چاہتی ہے اس کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ وہ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ جاپان کی مثال لیجیے۔ وہاں ہر شخص زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ جاپان میں جب ملازمین اپنے آجر سے ناراض ہوتے ہیں تو زیادہ کام کرتے ہیں! فاضل مال رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے میں آجر کے پاس اپنے ہر اجیر کا مسئلہ سُننے اور اُسے حل کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ یورپ میں بالکل ایسا پیراڈائم تو اپنایا نہیں گیا مگر وہاں کام پر بروقت پہنچنے اور اوقاتِ کار کے دوران پوری توجہ اور جاں فشانی کے ساتھ کام کرنے کی روایت اب تک تابندہ و توانا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُن معاشروں میں واضح استحکام دکھائی دیتا ہے۔ امریکا‘ کینیڈا‘ جنوبی کوریا‘ چین‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ ترکی اور ملائیشیا وغیرہ کا بھی یہی حال ہے۔ ان معاشروں میں صرف وقت پر دفتر‘ فیکٹری‘ دکان یا کسی اور مقامِ کار پر پہنچنا کافی نہیں سمجھا جاتا بلکہ کارکردگی بھی دکھانا ہوتی ہے۔ اُجرت محض حاضری کی بنیاد پر نہیں ملتی بلکہ کام کا جائزہ لینے کے بعد طے کیا جاتا ہے کہ کسی بھی شخص کی خدمات کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا جائے یا نہیں۔
ہمارے ہاں کام کا کلچر پروان تو تب چڑھے گا جب پیدا ہوگا۔ کام سبھی کر رہے ہیں مگر یہ عمل محض بوجھ سمجھ کر کیا جارہا ہے۔ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہر انسان کو کرنا ہی ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ ناگزیر عمل ہم سے جتنی توجہ چاہتا ہے اُس کا ہم عشرِ عشیر بھی اسے نہیں دے رہے۔ لوگ کام پر با دلِ ناخواستہ جاتے ہیں۔ کام میں جی نہیں لگتا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہیں تو مطلوب پیداوار ممکن نہیں بنا پاتے۔ پیداواری ہدف حاصل کربھی لیا جائے تو معیار کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ لوگ ایک ہی غلطی بار بار کرتے ہیں‘ اصلاحِ احوال پر توجہ نہیں دیتے اور یوں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا کام بھی بگاڑ کر دم لیتے ہیں۔
یہ سب کیا ہے؟ یہ بے ذہنی کی انتہا کیوں؟ کیا سنجیدہ ہونے کا وقت اب بھی نہیں آیا؟ ؎
کوئی سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا؟
زندگی کیا تماش بینی ہے؟
اس وقت پاکستانی معاشرہ کام کے معاملے میں بیزاری سے عبارت ہے۔ ہر طرف کام سے بیزاری ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ قوم کے لوگوں کو دیکھیے‘ وہ کام میں بھرپور دلچسپی لیتے دکھائی دیں گے۔ کام سے محبت ہی کی صورت میں بہتر نتائج بھی ملتے ہیں اور دل کو سکون بھی میسر ہو پاتا ہے۔ ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اپنے کام میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لے اور مطلوب نتائج حاصل ہوجائیں۔ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی محض اتفاق سے تھوڑی بہت کامیابی حاصل کر بھی لے تو زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ حقیقی تبدیلی اُسی وقت واقع ہوتی ہے جب ہم اپنی معاشی جدوجہد میں تقدس شامل کرتے ہیں۔ معاشی عمل کو پورے احترام اور خلوص کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچانے والوں ہی کے مقدر میں کامیابی لکھی ہوتی ہے۔ اس کائنات کا اصول تو یہی ہے۔ اگر کسی کو کچھ کیے بغیر بہت کچھ پانا ہے تو کسی اور کائنات کا رخ کرے۔
ایک خاص حد تک دوسروں کی کمائی پر پلنے کے بعد سبھی کو جینے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ عمل فطری ہے اور یہ سوچنا بالکل بے بنیاد ہے کہ اس میں قدرت نے کسی سے کسی زیادتی کا ارتکاب کیا ہے۔ جو جتنی محنت کرتا ہے اُتنا پاتا ہے۔ اگر معاملات میں خرابی دکھائی دیتی ہے تو ہمارے آپ کے اپنے قول و فعل کے تضاد اور بے نظمی سے۔ قدرت کا نظام اپنی جگہ جامع ترین ہے۔ محنت کرنے والوں کے لیے دونوں دنیاؤں میں بھلائی ہے۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہماری بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ عالمی برادری میں اپنے لیے کوئی قابلِ رشک مقام یقینی بنانے کی خاطر دن رات ایک کردیں‘ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی ہر وہ کوشش کی جائے جو کی جاسکتی ہے۔ عمل کے لیے تحریک و ترغیب کس طور مل سکتی ہے؟ یہ تحریک ہمیں اپنے ماحول سے بھی مل سکتی ہے اور باقی دنیا میں بھی اس کے لیے نمونے بکھرے پڑے ہیں۔ کام سے محبت ایک ایسا ہنر ہے جسے سیکھے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے۔ جو دانا ہے وہ کام کو نظر انداز کرکے ڈھنگ سے جینے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ جب ہم اپنے اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لینے لگیں گے تب معاشرے میں اُس تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی جس کا ہم اب تک خواب ہی دیکھتے آئے ہیں۔
ہمیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور کن مراحل سے گزر رہی ہے۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ ہماری فکری ساخت میں یہ خوش فہمی بس گئی ہے کہ کسی بھی قوم نے فقید المثال ترقی یقینی بنانے کے لیے جو محنت کی اُس طرح کی محنت کے بغیر بھی ہم کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے۔ یہ خوش فہمی اب ہماری شناخت بن چکی ہے۔ یاد رکھنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ محض محنت سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ فطری صلاحیت کو پروان چڑھاکر مہارت میں تبدیل کرنے کا معرکہ سر کرنے کے بعد ہی وہ منزل آتی ہے جب ہماری محنت حقیقی مطلوب نتائج یقینی بنا پاتی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ دیگر تمام امور کو ایک طرف ہٹاکر سب سے زیادہ توجہ کام پر دی جائے۔ کام پر توجہ دینے ہی کی صورت میں ہم کچھ کر پائیں گے‘ دنیا کو بتا پائیں گے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا مگر ہاں‘ پوری توجہ دی جائے تو چند برس میں ہم ایک باعمل قوم بن کر ابھریں گے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ اہمیت نظم و ضبط کی ہے۔ حکومت کو چند مرحلہ وار اقدامات کے ذریعے سے قوم کو نظم و ضبط کا پابند بنانا ہوگا۔ معاشی معاملات کو سنجیدگی سے لینا اگرچہ ہماری بنیادی ضرورت ہے مگر ہم اس طرف آ نہیں رہے۔ اس حوالے سے سرکردہ شخصیات بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لوگ جن کی بات شوق اور توجہ سے سنتے ہیں اُن کی طرف سے پیغام جانا چاہیے۔ اس حوالے سے جامع منصوبہ سازی کے تحت ذہن سازی ناگزیر ہے۔ والدین‘ اساتذہ‘ علاقے کے بزرگوں اور احساسِ ذمہ داری کے حامل دیگر تمام افراد نئی نسل کو کام سے محبت کی طرف لانے کی بھرپور کوشش کریں تو چند برس میں یہ قوم انگڑائیاں لے کر بیدار ہوسکتی ہے اور کچھ کر دکھاسکتی ہے‘ وگرنہ پرنالے وہیں گرتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved