آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل نے فرمایا تھا ''دشمن ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے کاٹ رہا ہے‘ اس کے وار سے صرف اتحاد کی ڈھال سے ہی بچا جا سکتا ہے‘‘۔ بالکل درست فرمایا انہوں نے! آج وطنِ عزیز کے موجودہ پُر آشوب حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آخر ہمارے سیاسی رہنما اور لیڈران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ملک کو کس نہج پر لے کر جارہے ہیں۔ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہماری جری،بہادر و غیور افواج اور عوام کے مابین خلیج ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس طرح ترکی، ایران اور مصر میں لوگ اپنے ریاستی اداروں کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے تھے‘ بالکل ویسے ہی حالات یہاں پیدا کیے جا رہے ہیں۔ عساکرِ پاکستان کے خلاف منافر ت کی آگ سلگائی جارہی ہے اور یہ سب کس کے ایما پر ہو رہا ہے؟ واضح رہے کہ عالمی استعمار ہمیں ڈی نیوکلیئرائز کر نا چاہتا ہے‘ اس سے پہلے ملک کو ڈی ملٹرائز کرنے کی سازش تیار ہے۔ یوکرین کی تبا ہی ہمارے سامنے ہے،ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے بعد‘ اب اسے روس نے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاک فوج ملک کی سلامتی کی ضامن ہے۔ اس کا ایک واضح ثبوت ہمارے ازلی دشمن کی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر (گوروو) کی ایک وائرل ویڈیو سے بھی مل جا تا ہے جس میں اس نے پاک فوج کو گوند کی مانند قرار دیا کہ جس نے پاکستانی قوم کوآپس میں جوڑ رکھا ہے۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ مبینہ طور پر سابق حکمران جماعت صرف کرسی و اقتدار کی خاطرایک خط (کیبل) کی آڑ میں ملک میں انارکی و انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ٹویٹر، فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا فورمز پر قومی اداروں کے خلاف جاری مذموم مہم سے دشمن کو فائدہ پہنچا یا جارہا ہے۔ کیا قوم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح بھارتی حکومت و میڈیا میں سابق وزیراعظم کی تعریفوں کے پل باندھے گئے۔دوسری جانب جنرل (ر) حمید گل کے حوالے سے عمران خان سے منسوب بیانات دکھا کر ایک بیانیہ تشکیل دیا جا رہا ہے حالانکہ جنرل صاحب نے متعدد پروگراموں میں برملا کہا تھا کہ وہ عمران خان کے ساتھ نہیں۔ مبینہ خط کی آڑ میں وطن اورقومی سلامتی سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے، اپنے سیاسی مفادات کیلئے جو نفرتیں بوئی گئی ہیں‘ وہ نہایت خطرناک ہیں کیونکہ چاروں طرف سے دشمن ہمیںگھیرتے ہوئے بیرونی و اندرونی اطراف سے ہم پر حملہ آور ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں کارگل جنگ کا آغاز ہوا تو موصوف نے کہا کہ بھارت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔ میمو گیٹ سکینڈل بھی اسی سازش کا ایک حصہ تھا کہ جس کے ذریعے عوام کو اداروں کے خلاف اکسانا تھا۔ گزشتہ دنوں خان صاحب نے نیا 'انکشاف‘ کرتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ مجھے تو بہت پہلے پتا چل گیا تھا کہ میرے خلاف سازش ہو رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ تب تک تو ایسے کسی خط کا بھی وجود تک نہ تھا اور نہ ہی اس وقت دورۂ روس کا کوئی پروگرام تھا‘ پھر اس سب کو دورۂ روس اور خط سے کیوں جوڑا جا رہا ہے؟
جنرل (ر) حمید گل کا یہ بیان بھی وقت نے سچ کر دکھا یا ہے کہ امریکا کے خطے سے فرار کے بعد پاکستان کو باقاعدہ سازش کے تحت خلفشار کی جانب لے جایا جائے گا اورہماری اندورونی و بیرونی سرحدوں کی ضامن پاک فوج ہی عالمی استعمار کا اصل ہدف ہے۔یہ مذموم سلسلہ کئی ماہ پہلے شروع ہوا تھا جب پی ڈی ایم سے لے کر اب پی ٹی آئی کے جلسوں تک میں قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے۔محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے افرادنے سکیورٹی اداروں کے خلاف جو ہرزہ سرائی کی‘ وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ دنوں بھی قومی اسمبلی میں جو تقریر کی گئی‘ اب تک کسی نے اس کا جواب نہیں دیا‘ موجودہ حکومت کی اس حوالے سے خاموشی اس کے بھی اس میں شریک ہونے کی غمازی کر رہی ہے۔وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ محاذ پر مادرِ وطن پر جان قربان کرنے والے جانباز سپاہی تنخواہ کیلئے نہیں‘ اپنے ملک، اپنے وطن اور اسلام کے نام پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی سیاسی لیڈر نے کسی شہید کے گھر کی خبر گیر ی کی ہے؟کیا اس کے اہلِ خانہ کو کوئی امداد فراہم کی ہے؟ افسوس!شہدا کی لازوال قربانیوں کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
خط کی سازش کو سامنے لانے کے لیے نہ تو جوڈیشل کمیشن قائم ہوا اور نہ سفارتی عملہ ملک بدر ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ قوم کو معیشت پر، ریاست پر او ر نہ ہی نظام عدل پر کوئی اعتبار رہا ہے۔ صحافتی دھڑے بھی تقسیم ہیں۔اب اس سارے معاملے کے تانے بانے ڈاکٹر قدیر کی وفات کے ساتھ جوڑے جا رہے ہیں۔ ان کے جنازے میں مغربی دبائو کی بنا پر وزیر اعظم سمیت کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے شرکت نہیں کی تھی۔بیرونی دبائو کے باعث ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کو التوا کا شکار رکھا گیا بلکہ الٹا گیس کی قیمت میں تین سو فیصد تک اضافہ کر دیا گیا۔ گزشتہ دس سال سے زائد عرصے سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ التوا میں پڑا ہے مگر امریکا اور اس کے حواریوں کی خاطر یہ سستا منصوبہ مکمل نہ کر کے عوام کو ریلیف دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
اداروںکے خلاف بھرپور فضا تیار کی جا رہی ہے اور پُرتشدد سیاست کو ہوا دی جا رہی ہے۔ شنید ہے کہ اس کے لیے یومِ تکبیر کو چنا گیا ہے۔کوشش کی جائے گی کہ اس روز تھوڑ پھوڑ ہو اور مجبوراً قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو آگے بڑھنا پڑے جس کے بعد تباہ حال ملکی معیشت کا ملبہ ان پر ڈال کر سیاستدان خود بری الذمہ ہو جائیں۔ ملکی حالات گمبھیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔سقوطِ ڈھاکہ پر بھٹو، یحییٰ اور مجیب الر حمن کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کیا یحییٰ خان کی مراعات بند ہوئیں؟ بھٹو اور شیخ مجیب الر حمن‘ دونوں بعد میں اقتدار میں آ گئے۔ نقصان کس کا ہوا؟پاکستان کا اور پاکستانی قوم کو سب کچھ جھیلنا پڑا۔ ملک دو لخت ہو گیا‘ اس کا ایک بازو کٹ گیا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔قائد اعظم نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک لڑی میںپرو یا تھاجن کی نہ تہذیب ہم سے ملتی تھی نہ سرحد‘ اس کے باوجود ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود‘ ایک قوم بنا دیا۔ ایسے ہوتے ہیں قومی لیڈر‘ جن کی نظر ووٹوں پر اور نہ ہی کرسی پر ہوتی ہے بلکہ انہیں ملک کا مستقبل‘ اس کی سلامتی عزیز ہوتی ہے۔ آج کے ہمارے نام نہاد لیڈران کا مشن صرف الیکشنز ہیں‘ عوامی فلاح و بہبود‘ ملکی سالمیت اور امن و امان سے انہیں کوئی غرض نہیں۔
میں برملا کہتا ہوں کہ آج اسلامی نظام ناگزیر ہو چکا ہے۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ ''عالمی استعماری نظام نے ہمیں اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم اپنی ہی تھیوری سے اپنے گلے کاٹ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اندرونی نفاق اور بیرونی مداخلت کے خلاف سب مل کر سینہ سپر ہو جائیں۔ بیرونی مداخلت کی بہت سی جہتیں اور صورتیں ہیں‘ جن میں سب سے بدتر بیرونی مداخلت کے ذریعے ہم پر کٹھ پتلی حکمرانوں کا مسلط ہونا ہے۔ امریکا نے بہت پہلے واضح کر دیا تھا افغانستان اور پاکستان‘ دونوں ہی اس کے لیے میدانِ جنگ ہیں۔ ایک حصے میں اس نے براہِ راست جنگ کی جبکہ دوسرے میں خفیہ جنگ شروع کر رکھی ہے جوinvisible war کہلاتی ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ ریمنڈ ڈیوس کی شکل میں ہمارے سامنے آیا تھا۔ آپ دیکھیں گے کہ افغان سر زمین سے امریکا شکست کھا کر نکل جائے گا تو خدشہ ہے کہ وہ ہمیں خلفشار میں چھوڑ کر جائے گا‘‘۔ موجودہ صورتحال جنرل صاحب کے افکار و نظریات کی ہوبہو عکاسی کر رہی ہے۔ انہوںنے کہا تھا کہ امریکی استعماریت کی شکست کے بعد ہمارے پاس سنہری موقع ہو گا کہ ہم یہاں پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش کریں ‘ جس کے حوالے سے علامہ اقبال نے اپنی نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘میں کہا:
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
امریکا مسلم ملکوں میں تہذہب کے نام پر گھنائونا کھیل رہا ہے۔ افسوس ان مسلم ملکوں کی مثال یوں ہے کہ جیسے بکرے قطار میں کھڑے ہوئے اپنی باری پر اپنے ذبح ہونے کا انتظار کر رہے ہوں۔ کہاں ہے او آئی سی، عرب لیگ، گلف لیگ؟ یہ کیسی امتِ واحدہ ہے؟ اس کی طاقت کہاں ہے؟ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح افغان سر زمین پر امریکی و سامراجی قوتوں کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا؛ چنانچہ اسلام کے غلبے کیلئے پُر امن جدو جہد کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کا اصل سرمایہ نوجوان ہیں‘ وہ آگے بڑھیں‘ بیدار ہوں‘ ایسا نہ ہو کہ وہ شیرازہ بندی کا شکار ہو جائیں اور اس انقلاب کو بیرونی قوتیں ہائی جیک کر لیں۔اب مغربی قوتوں نے بھانپ لیا ہے کہ پاکستانی معاشرہ انقلاب کیلئے موزوں ہے اور یہ انقلاب اسلامی ہو گاکیونکہ موجودہ نظام صرف کرپٹ لیڈر ہی پیدا کر سکتا ہے۔مغربی جمہورتیں ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہمارے پاس قرار دادِ مقاصد ہے جس میں توحید کا پیغام ہے۔ افغانستان سے امریکی فرار کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے‘ اسے اگر ہم نے پُر نہ کیا تو یہ نقصان دہ ثابت ہو گا۔ یہ پاکستان ہی ہے جس نے دنیا کو اسلامی ماڈل دینا ہے۔پاکستان زمین کا ایک ٹکڑا یا خطہ نہیں بلکہ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق‘ ایک تجربہ گاہ ہے جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو ڈھالنا ہے۔ دنیا اس وقت جس نئے نظریے کی متلاشی ہے‘ وہ برتر نظریہ ہمارے پاس ہے اور وہ ہے اللہ کا نظام!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved