تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-08-2013

سکوتِ مرگ

قوم مجموعی طور پر بے حس ہوچکی ہے۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور اس پر دہشت گردی۔ زندگی گزارنے کے لیے درکار بنیادی سہولتوں سے محرومی اور عدم تحفظ کے عفریت نے عوام سے اور کسی مسئلے پر غور کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ حکمران! تو وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ انہیں کسی بات کا اول تو صحیح ادراک ہی نہیں اور اوپر سے وہ کسی قوت فیصلہ سے بھی محروم ہیں۔ بھارت سے غیر مشروط اور رضاکارانہ یکطرفہ دوستی کی خواہش میں بے حال ہوئے جانے والے حکمرانوں کے لیے یہ عاجز کوئی ’’غیر توہین آمیز‘‘ لفظ تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے مگر ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی۔ بھارت میں میڈیا اور حکمران عوام میں ایک جنگی جنون پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے ایک فوجی کی نام نہاد ہلاکت کی بنیاد پر پاکستانی ہائی کمیشن دہلی پر حملہ اور بعد ازاں دوستی بس کا واقعہ اسی بھارتی جنگی جنون کا ایک ٹریلر ہے۔ ادھر ہمارے حکمران بھارت سے ہر حال میں دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں کھلی مداخلت کے باوجود اسے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ سرحدوں پر کشیدہ ترین صورتحال کے دوران بھی یکطرفہ محبت میں قربان ہونا چاہتے ہیں۔ قوم بے حسی کے آخری درجے پر ہے۔ حکمران بلوچستان، قبائلی علاقوں اور کراچی میں ہونے والی بدترین دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد کے باوجود بھارت کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہنا چاہتے۔ ہر جھوٹے سچے معاملے میں پاکستان کو ملوث کرنے کی بھارتی عادت کے باوجود ہمارے حکمران بھارت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے پر قطعاً تیار نہیں۔ غرض پورے ملک میں اور حکمرانوں پر ایک سکوتِ مرگ طاری ہے۔سکوتِ مرگ کا حقیقی مفہوم اپنے حکمرانوں کو دیکھ کر سمجھ میں آیا ہے۔ حکمران ہر واقعے کو چھپا رہے ہیں اور ہر سانحے کو دبا رہے ہیں۔ خالد بشیر کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے۔ جماعت الدعوۃ کے ناظم تعلقات عامہ پنجاب خالد بشیر کا اغوا اور پھر تشدد کے ذریعے بہیمانہ شہادت پر میڈیا بھی خاموش ہے اور حکمران بھی۔ پچھلے بیس سال سے جماعت الدعوۃ کے دعوتی اور تنظیمی معاملات سے منسلک خالد بشیر کو 14مئی کو ہجویری ٹائون کے علاقے سے اغوا کیا گیا۔ 17مئی کو اس کی نعش شیخوپورہ نہر سے ملی۔ خالد بشیر کو بدترین تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔ خالد بشیر کو اغوا کرنے والے افراد میں سے ایک دو افراد گرفتار ہوئے تو ہوشربا انکشافات کا سلسلہ چل نکلا۔ گرفتار ہونے والے افراد میں اصل اغوا کنندہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھی تھے۔ اصل شخص‘ جس کا خالد بشیر کے اغوا میں مرکزی کردار تھا‘ ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ یہ شخص پچھلے کچھ عرصہ سے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت خالد بشیر کے قریب آیا تھا۔ اس شخص کو اس سلسلے میں رقم اور ہدایات دبئی سے موصول ہوئی تھیں۔ دبئی سے اس معاملے کو ’را‘ کے ایجنٹ ہینڈل کررہے تھے۔ وہ شخص پچھلے کچھ عرصے سے خالد بشیر کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور اس کی ساری نقل و حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔ خالد بشیر کے بارے میں کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ وہ حافظ سعید کی سکیورٹی سے منسلک تھا مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ خالد بشیر سکیورٹی کا نہیں تعلقات عامہ اور دعوت وتبلیغ کا آدمی تھا۔ اس سلسلے میں وہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، جہلم اور لاہور وغیرہ میں سرگرم بھی رہا تھا۔ جماعت الدعوۃ کا بنیادی کام ’’ریلیف‘‘ ہے اور خالد بشیر کا کام عوامی رابطہ کاری تھا۔ اس کا حافظ سعید کی یا کسی اور طرح کی سکیورٹی سے واسطہ نہ تھا۔ اس کے قریب آنے والا شخص کرائے کا جاسوس تھا جسے دبئی میں بیٹھے ہوئے را کے ایجنٹ کنٹرول کررہے تھے۔ خالد بشیر کو اغوا کرنے والے اسے مریدکے سے آگے نارووال چوک پر لے گئے اور وہاں سے اسے شیخوپورہ کی طرف لے گئے۔ مصدقہ خبر ہے کہ وہاں دبئی سے آنے والے لوگوں نے جو را کے ایجنٹ تھے، خالد بشیر پر تشدد کیا اور تفتیش کی۔ وہ اس سے کیا پوچھنا چاہتے تھے اور کیا معلومات لینا چاہتے تھے‘ معلوم نہیں۔ تاہم گمان غالب ہے کہ وہ خالد بشیر سے حافظ سعید، لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات لینا چاہتے تھے۔ وہ کیا کچھ معلوم کرسکے اور کس قدر مقاصد حاصل کرسکے‘ خدا ہی جانتا ہے‘ مگر خوفناک حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ایجنٹوں نے پاکستان کی سرزمین پر آ کر اپنا جاسوسی نظام فعال کیا، ٹارچر سیل بنایا‘ عقوبت خانے میں تشدد کیا، تفتیش کی، جان سے مارا اور بخیر و خوبی واپس دبئی چلے گئے۔ ملکی سکیورٹی ادارے لاعلم رہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی کے لوگ اپنا کام کر گئے۔ چلیں اس بات پر تو کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں بروقت پتہ نہ چل سکا مگر ساری بات کھل جانے کے بعد کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ کیا پاکستان امریکہ اور بھارت کے لیے ایسا لاچار اور ناتواں ملک ہے کہ ڈرون جب چاہیں ہماری جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرلیں‘ جب امریکی طیارے چاہیں سلالہ چیک پوسٹ پر میزائل برسا کر چلے جائیں اور ہمارے چوبیس جوان شہید کردیں‘ امریکی ایما اور بھارتی امداد سے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلے اور قبائلی علاقوں، کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گرد دندناتے پھریں‘ بھارتی گماشتے دہشت گردوں کے بھیس میں مہران بیس پر حملہ کرکے اورین اور کامرہ میں اواکس طیارے تباہ کر جائیں جو صرف فضائی نگرانی کے جہاز تھے اور ان سے صرف بھارت متاثر ہورہا تھا۔ یہ جو سب کچھ ہورہا ہے‘ سب کو علم ہے کہ ان سب واقعات کے پیچھے کون ہے مگر حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ میاں نوازشریف بھارت سے تعلقات بحال کرنے میں بے حال ہوئے جارہے ہیں۔ کشمیر میں جنوری 1989ء سے لے کر جولائی 2013ء تک چورانوے ہزار کے قریب کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں سات ہزار سے زائد بھارتی عقوبت خانوں میں شہید کر دیئے گئے‘ ایک لاکھ بائیس ہزار شہری گرفتار ہوئے۔ ایک لاکھ چھ ہزار کے لگ بھگ گھروں کو مسمار کیا گیا‘ بائیس ہزار سے زائد کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں اور ایک لاکھ سات ہزار سے زائد بچے یتیم ہوئے‘ دس ہزار سے زائد عفت مآب کشمیری بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور بقول انور مسعود: چونکہ مجرم نہیں پکڑا جاتا چلیے مجرم کی مذمت ہی سہی یا وہ کشمیر سے فوراً نکلے ورنہ بھارت سے تجارت ہی سہی ہمارے حکمران مجرم کی مذمت کرنے سے بھی عاری ہیں۔ باقی بچے ہوئے تین دریائوں پر درجنوں ڈیم بن رہے ہیں۔ چناب کا رخ بدل کر بیاس میں ڈالنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ سندھ اور جہلم کا رخ سرنگوں کے ذریعے موڑنے اور پاکستان کو صحرا بنانے پر کام زور وشور سے جاری ہے۔ ہمارے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے اور بھارت کو ’’موسٹ فیورٹ نیشن‘‘ قرار دینے کے منصوبے پر خاموشی سے کام ہورہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved