مذہبی سیاست کیجیے‘ مذہب کی سیاست نہیں۔
مذہبی سیاست کیا ہے؟سیاست میں ان اخلاقی اصولوں کی بازگشت سنائی دے جو مذہب کی عطاہیں۔ امانت داری‘ ایفائے عہد‘ قانون کا احترام‘ اختلاف کا اظہار شائستگی کے ساتھ۔ جھوٹ سے اجتناب۔ مشاورت اور متنازع امور میںاکثریتی رائے کا احترام۔ مذہب کی سیاست کیا ہے؟عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال۔ سیاسی مخالفین کے خلاف مذہب کا بطورِ ہتھیار استعمال۔ توہینِ مذہب کی تہمت۔ مذہب سے سیاسی مفادات کی کشید۔ دینی تعلیمات کی من مانی تاویلات۔
واقعات کو کیا دہراناکہ سب ان سے واقف ہیں۔ مذہب کی سیاست نے مذہب اور قوم‘ دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے کردار کی پختگی دیکھیے کہ ان واقعات سے ہم نے کچھ نہیں سیکھااوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بار ہار توجہ دلائی گئی کہ یہ دائرے کا سفرہے۔ یہاں شکاری خودایک دن شکاربنتا ہے۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ مسجد نبوی کے حادثے سے معلوم ہوتا ہے کہ دائرے کا یہ سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔
مسجد نبوی میں پیش آنے والے واقعے میں‘ ایک مقدس جگہ کی حرمت پامال ہوئی۔ یہ گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ گناہ فرد اور خدا کا معاملہ ہے۔ اگر یہ اسی دائرے تک محدود رہے تو دنیا میں قابلِ تعزیرنہیں ہوتا‘ آخرت میں البتہ جواب دہی ہوگی‘ اگر کوئی توبہ کیے بغیر دنیا سے رخصت ہو جائے۔ جیسے کوئی استطاعت کے باوجود حج نہ کرے۔ گناہ اگرسماج کو بھی متاثر کرے اور اس سے دوسروں کے حقوق تلف ہونے لگیں تو وہ جرم بن جا تا ہے۔ اللہ کا قانون ایسے گناہوں کو قابلِ تعزیر قرار دیتے ہوئے‘ اس دنیا میں بھی سزا تجویز کرتااوراہلِ اقتدار کو اس کی تنفیذ کا حکم دیتا ہے۔ جیسے قتل‘ جیسے چوری۔
مسجدنبوی میں ہونے والے اس جرم کی سزا‘ سعودی عرب اپنے قانون کے مطابق دے گا؛تاہم اگر یہ پہلے سے طے شدہ کوئی اقدام تھا جس کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی تو حکومتِ پاکستان یہ حق رکھتی ہے کہ اس سازش کا پتا لگائے اور اگر کوئی مجرم ثابت ہو تو سزا دے۔ اس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اس سازش کو عدالت میں ثابت ہونا چاہیے۔ دوسرا‘ یہ بھی معلوم ہو نا چاہیے کہ اس جرم کی نوعیت کیا ہے؟
پہلی بات تو باعثِ نزاع نہیں ہے کہ اس باب میں فیصلے کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔ رہی دوسری بات تو کیا یہ توہینِ مذہب کامقدمہ ہے؟ توہینِ مذہب کے لیے نیت کی اہمیت ہے۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ مظاہرین کا ہدف سیاسی لوگ تھے؛ تاہم یہ درست ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک مقدس مقام کی حرمت پامال ہو ئی۔ نیت کے ہونے‘ نہ ہونے سے جرم کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اس کو قتلِ عمد اور قتلِ خطا کے فرق سے سمجھا جا سکتاہے۔ دونوں کا نتیجہ انسانی جان کا ضیاع ہے لیکن اللہ کے قانون میںدونوں جرائم کی سزا ایک نہیں ہے۔
اس طرح کے معاملات میں‘ سزا سے زیادہ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی مسلمان جان بوجھ کر ایسی جسارت نہیں کر تاجو عرفِ عام میں گستاخی ہو۔ وہ کسی غلط فہمی یا لاعلمی کے باعت ایسی حرکت کر گزرتاہے جو قابلِ تعزیر ہو تی ہے اور گناہ بھی۔ اگرآپ اس کوگستاخی کا مرتکب قرار دیں گے تووہ اسے صریح الزام سمجھے گا اور آپ سے ا ظہارِ ناراضی کرے گا۔ ہمارے ہاں ایسے کلمات بے تکلفی سے کہے جاتے ہیں جنہیں شرک قرار دیاجاسکتا ہے۔ لیکن کسی سے یہ کہا جائے کہ وہ شرک کر رہا ہے تووہ جواباً شدید غصے کا اظہار کرے گا۔ مسجد نبوی میں یقینا گستاخی کا ارتکاب کیا گیالیکن سیدنا عمرؓ نے لاعلمی کو جواز قرار دیتے ہوئے‘ مسجد نبوی میں آواز بلندکرنے والوں کی تنبیہ پر اکتفا کیا۔ علما کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو توبہ‘ استغفار اورصدقہ(کفارہ) کی ترغیب دیں تاکہ وہ آخرت میں اس گناہ کی سزا سے محفوظ ہو جائیں۔
اس معاملے کا لیکن ایک دوسرا پہلو ہے۔ اگر یہ واقعہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا تو پھر اس کی نوعیت مختلف ہوگی۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی نے پاکستان کی سرزمین پر اس کا منصوبہ بنایا تو ان کے خلاف پاکستان میں مقدمہ بن سکتا ہے اورمروجہ قوانین کے تحت‘ شعائرِاسلام کی توہین کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں بھی مناسب یہی ہو گا کہ اس کوروزمرہ سیاست کا موضوع بنانے کے بجائے‘ معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔
یہ بات البتہ باعثِ حیرت ہے کہ عمران خان صاحب نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی۔ انہوں نے اپنی برأت کا تو اعلان کیالیکن اس واقعے پر جو کچھ کہا‘ وہ اس حرکت کی بالواسطہ توثیق ہے۔ وہ اپنے کارکنوں کو اس کی مسلسل ترغیب دے رہے ہیں کہ ان کے مخالفین کا ہر جگہ گھیراؤ کیا جائے اور ان کا جینا دوبھر کر دیا جائے لیکن وہ انہیں یہ نہیں کہہ رہے کہ 'ہرجگہ‘ میں مذاہب کے مقدس مقامات شامل نہیں۔ لازم تھا کہ وہ واضح لفظوں میں اس استثنا کو بیان کرتے۔ جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے‘ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بیت الحرام یا مسجد نبوی میں ایسی بدتمیزی کو غلط نہیں سمجھتے۔ رہے وہ لوگ جو اس واقعے کی توجیہہ کر رہے ہیں‘ توان کا موقف اتنا بودا ہے کہ اس کا جواب دینا بھی اخلاق اورعلم و عقل کی توہین ہے۔
ہمارے ہاں جو مذہبی انتہا پسندی پائی جاتی ہے‘ اس کی موجودگی میں‘ مذہب کی سیاست بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں کوئی مذہبی یا سیاسی گروہ ایسا نہیں جو اس کا ہدف نہ بنا ہو۔ مذہبی حلقوں میں‘ جن حضرات کی پہچان ہی دوسروں پر گستاخی کا الزام لگانا ہے‘ وہ بھی گستاخی کے الزام میں جیل کی ہوا کھا چکے ا ور ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ اگرسیاسی انتہا پسندی میں مذہبی انتہا پسندی بھی شامل ہو گئی تو وہ اسے دو آتشہ بنا دے گی۔
مذہب کو جب سیاسی مقاصد کے لیے سیاست سے ملایا جاتا ہے تو ان کی یک جائی سے جو ظلم جنم لیتا ہے‘ اس سے چنگیزی بھی شرما جائے۔ سیاست دان بے تکلفی سے مذہبی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں اور تواتر کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ تاثر یہ دیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں اخلاقی اقداراور اخلاقِ نبوی کا فروغ چاہتے ہیں لیکن ان اخلاقی تعلیمات کی علانیہ خلاف ورزی کرتے ہیں جو قرآنِ مجید نے بیان کیں اور جنہیں رسالت مآبﷺ نے اپنے اسوہ ٔحسنہ میں مشہود کر دیا۔ کیا سورہ حجرات میں نہیں کہا گیا کہ دوسروں کو القاب کے ساتھ نہ پکارو؟ کون سا پاکستانی سیاست دان ہے جو اس کا التزام کرتا ہے؟
اگراہلِ سیاست اپنے طرزِ عمل سے اسلامی اخلاقیات کانمونہ نہیں پیش کرتے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ وہ مذہب کی سیاست کرتے ہیں اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ کیسا سنگین جرم ہے‘ یہ بات تو شاید کسی کو سمجھائی نہ جا سکے لیکن یہ بات تو ان کی سمجھ میں آنی چاہیے کہ اس دنیا میں بھی اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ اگر وہ مذہب کو سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کریں گے تویہ ایک دن اس کا وار‘ ان کی جان اور سیاست پر بھی ہو گا۔
پاکستان کو ایک سیاسی ایجنڈا عمران خان صاحب نے دیا ہے۔ یہ انتہا پسندی‘ نفرت اور تقسیم سے عبارت ہے۔ یہ تقسیم اب اداروں تک پھیل گئی ہے۔ آج پاکستان کو ایک نئے سیاسی ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ اعتدال‘ رواداری‘ باہمی احترام‘ شائستگی اور مکالمہ‘ جس کے اجزائے ترکیبی ہوں۔ حکومت کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اس ایجنڈے کو قومی ایجنڈا بنا دے۔ اس کا آغازمذہب کی سیاست سے اعلانِ برأت سے کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved