دنیا کی ساری رونق محنت کے دم سے ہے۔ محنت ہی تو شاہ کلید ہے۔ جس نے بھی کچھ پایا ہے، محنت ہی کی بدولت پایا ہے۔ بے محنت کے جو کچھ مل جائے اُسے پایا نہ سمجھا جائے تو بہتر‘ کیونکہ اُس کی حقیقی قدر نہیں ہوتی۔ جو کچھ محنت کے بغیر ملتا ہے وہ بہت تیزی سے جاتا رہتا ہے۔ انسان صرف اُسی چیز کو حقیقتاً قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جسے اُس نے محنت سے پایا ہو۔ ہر دور کے انسان کا یہی معاملہ رہا ہے۔ ہم کوئی انوکھے نہیں کہ محنت کے بغیر ہمیں کچھ مل جائے۔ اگر کبھی حُسنِ اتفاق سے محنت کے بغیر کچھ مل بھی جائے تو اُس کا کوئی بھی قدر دان نہیں ہوتا۔ تیل کی دولت ہی کو لیجیے‘ جن ممالک کو اللہ نے تیل کی دولت سے نوازا ہے اُنہوں نے اگر صرف تیل کی دولت پر اکتفا کیا تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی بدولت اِن ممالک کے لوگوں کو آسائش اور تعیش کی تمام اشیا آسانی سے میسر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ محض تیل کی دولت پر اکتفا کرنے والی اِن ریاستوں کی معاشی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔ تیل کی دولت میں کمی واقع ہونے کی صورت میں اِن ممالک کا کیا بنے گا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کے تناظر میں کہا ہے کہ قوم کو بہت کچھ سیکھنا اور کرنا ہے۔ اُن کے بیان کے مطابق‘ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ افلاس اگر ختم ہوسکتا ہے تو صرف محنت سے۔ محنت ہی کی بدولت ہم کچھ بن سکتے ہیں‘ کچھ پاسکتے ہیں۔ اگر یہ نکتہ سمجھ میں آگیا تو ٹھیک ورنہ پرنالے وہیں گرتے رہیں گے جہاں وہ گرتے رہے ہیں۔
محنت ہی کی بدولت کوئی بھی قوم اپنی تقدیر بدلتی ہے۔ اللہ کا پیغام بھی تو یہی ہے کہ اگر اپنے حالات بدلنے ہیں تو کوشش کی جائے۔ ہاں! برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی۔ بے کوشش کے برکت کی امید بالکل نہ رکھی جائے۔ دعا برحق ہے اور کی جانی چاہیے۔ اللہ کے حضور گڑگڑانے کی قدر و منزلت اپنی جگہ مگر ساتھ ہی ساتھ محنت بھی تو کی جانی چاہیے۔ ع
بے کوشش و بے جہد ثمر کس کو ملا ہے؟
بے خاک کے چھانے ہوئے زر کس کو ملا ہے؟
ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں کو اب بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رکتا۔ جس قوم میں یہ عمل رک جائے وہ رک جاتی ہے، ٹھہرے ہوئے پانی کی سی ہو جاتی ہے یعنی جوہڑ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جوہڑ کا پانی سڑنے لگتا ہے اور ناقابلِ استعمال ہوتا جاتا ہے۔ جو قوم محنت نہیں کرتی، سیکھنے پر مائل نہیں ہوتی وہ بھی جوہڑ کی سی ہوتی جاتی ہے اور بالآخر حقیقی تباہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ حقیقی تباہی کا مطلب کسی قوم یا معاشرے کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا نہیں ہے۔ تباہی یہ بھی تو ہے کہ اقوامِ عالم میں کوئی توقیر، کوئی مقام نہ رہے۔ کوئی بھی قوم بے توقیر ہوکر جینے پر مجبور ہو تو سمجھ لیجیے کہ جو تباہی اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی‘ وہ واقع ہوچکی۔ کسی بھی قوم کو پستی سے نکالنے میں کلیدی کردار صرف محنت ادا کرتی ہے۔ صلاحیت اور مہارت کا پایا جانا بھی لازمی امر ہے مگر محنت بنیادی چیز ہے۔ آپ اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کم صلاحیت والے ایسے افراد زیادہ کامیاب ہیں جو خوب محنت کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے بہت سے باصلاحیت افراد ملیں گے جو مہارت کے بھی حامل ہوں گے؛ تاہم محنت سے جی چرانے کے باعث ناکامی کی پوٹلی سر پر دھرے پھر رہے ہوں گے۔ محنت کا جذبہ ہی کسی بھی قوم کو دوسروں اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ جاپانی اور چینی قومیں اِس کی سب سے واضح مثال ہیں۔ ان دونوں اقوام نے انتہائی مشکل حالات کو پچھاڑ کر اپنے لیے عالمی برادری میں جگہ بنائی ہے، کچھ کر دکھایا ہے۔ صلاحیتوں کا بازار چاہے جتنا بھی گرم ہو اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے چاہے جتنی بھی پیش رفت ممکن بنالی جائے‘ محنت کا اپنا مقام ہے جو تسلیم شدہ ہے۔ کم محنت کے ذریعے زیادہ اور مؤثر نتائج کا حصول یقینی بنانا بھی اَن تھک محنت ہی کے ذریعے ممکن ہو پاتا ہے۔ آج جو اقوام بظاہر خاصی کم محنت کے ذریعے بہت کچھ پارہی ہیں اُنہوں نے یہ سب کچھ یقینی بنانے کے لیے عشروں نہیں بلکہ صدیوں تک محنت کی ہے۔ فطری علوم و فنون میں حقیقی اور دیرپا پیش رفت یقینی بنانے کے لیے صدیوں ہی کی محنت درکار ہوا کرتی ہے۔
آج کی دنیا پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ متعدد اقوام واقعتاً ترقی یافتہ اور دوسروں سے بہت آگے ہیں تو محض محنت کی بدولت۔ محنت ہی نے اُنہیں اقوامِ عالم میں ممتاز کیا ہے۔ ان اقوام نے صدیوں کی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لیے قابلِ رشک مقام یقینی بنایا۔ جب کوئی قوم غیر معمولی بلکہ مثالی محنت کے ذریعے اپنے لیے کوئی قابلِ قدر و قابلِ رشک مقام یقینی بناتی ہے تو پھر اُسے برقرار رکھنے پر بھی خوب کمر بستہ رہتی ہے۔ مغربی اقوام کا یہی معاملہ ہے۔ اُنہوں نے اپنی صلاحیت و سکت کی بنیاد پر دوسروں سے بہت آگے نکل کر دکھایا اور اب دوسروں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے خوب زور لگارہی ہیں۔ چین کے لیے الجھنیں پیدا کرنے کا عمل بھی اِسی سوچ اور حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ مغربی اقوام چین کو کسی طور عالمی سیاست و معیشت کی فیصلہ کن قوت کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتیں۔ ایک قوم کی حیثیت سے پاکستان کو بھی محنت کی راہ پر گامزن ہونا ہے۔ کیا ہم محنت نہیں کر رہے؟ یقینا کر رہے ہیں مگر یہ محنت کی عمومی سطح ہے، گزارے والا معاملہ ہے۔ ایسی محنت سے معاملات کو صرف دھکا دیا جاسکتا ہے، حقیقی اور قابلِ قدر ترقی ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ ہمارے ہاں عمومی سطح پر‘ آج تک صلاحیت اور سکت کا معیار بلند کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ لوگ جی رہے ہیں مگر کچھ اِس انداز سے گویا یہ کوئی بوجھ جسے سر سے اُتار پھینکنے کی فکر لاحق ہو۔ زندگی کے حوالے سے یہ بے دِلی کا رویہ ہمیں ترقی س استحکام کی منزل تک پہنچنے سے روکتا آیا ہے اور روک رہا ہے۔ یہ بے دِلی ختم ہونی چاہیے۔ بے دِلی اور بے رغبتی خود بخود ختم نہیں ہوتی، اِسے ختم کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں اُنہیں محنت ہی کی ڈگر پر چلنا پڑتا ہے۔ محنت کی ڈگر سے ہٹتے ہی زندگی میں بگاڑ شروع ہوتا ہے اور پھر جب تک محنت کو گلے نہ لگایا جائے تب تک بگاڑ پنپتا رہتا ہے۔ یہ بگاڑ کسی ایک جگہ ٹھہرتا نہیں بلکہ پھیلتا جاتا ہے اور مزید بگاڑ کی راہ ہموار کرتا ہے۔
یہ سوشل میڈیا پورٹلز کی مہربانی ہے کہ ہم اپنے قومی وجود کو حقیقی ترقی و استحکام سے ہم کنار کرنے کی سعی سے ہٹ کر‘ سبھی کچھ کر رہے ہیں۔ ہمارا قومی وجود بے حساب صلاحیتوں اور مہارت کے ساتھ ساتھ اَن تھک محنت کا بھی طالب ہے۔ محنت کے حوالے سے ہم انوکھے نہیں یعنی صرف ہمیں محنت نہیں کرنا پڑ رہی‘ جس قوم نے کچھ بننے اور کچھ کرنے کا سوچا ہے اُسے محنت ہی کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر لایعنی معاملات کا سمندر ہمارے قومی وجود کو غرقاب کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ قوم کچھ سیکھنے، مہارت پیدا کرنے اور محنت کے ذریعے اُس مہارت کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہونے کے بجائے ہر اُس معاملے کی دُم تلاش کر رہی ہے جس کا ہماری عمومی اور حقیقی دونوں ہی طرح کی بہبود اور استحکام سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی نہ کسی حیثیت اور درجے میں جنہیں قوم کی رہبری کا شرف بخشا گیا ہے‘ اُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قوم کو حقیقی محنت کی طرف مائل کرنا چاہیے۔ معاشرے کی نمایاں اور با اثر ترین شخصیات کو اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ مختلف شعبوں کی نمایاں ترین شخصیات کو سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے قوم کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ صرف محنت کے ذریعے ہم اپنی زندگی کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں کوئی شارٹ کٹ ہوتا نہیں۔ حقیقی ترقی و استحکام کے لیے جتنی محنت کی جانی چاہیے‘ کم از کم اُتنی محنت تو ہر حال میں کرنا پڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved