قدیم راولپنڈی کی چند یادگار عمارتوں میں ایک سردار سوجان سنگھ کی حویلی ہے جو بھابھڑا بازار میں واقع ہے اور ایک عرصے سے سے ویران پڑی ہے۔ حویلی کے دروازوں پر قفل لگے ہیں اور اسے دیکھنے کیلئے کمشنر آفس سے باقاعدہ تحریری اجازت لینا پڑتی ہے۔ یوں راولپنڈی کی یہ قدیم تاریخی عمارت‘ جو طرزِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ تھی‘ لاہور کے تاریخی بریڈ لا ہال کی طرح رفتہ رفتہ کھنڈر بننے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب اس حویلی کے دروبام رونقوں سے آباد تھے۔ جب دور و نزدیک سے یہاں مہمانوں کے قافلے اترتے تھے۔ لیکن یہ اس زمانے کی بات ہے جب راولپنڈی اتنا گنجان آباد نہیں ہوا تھا اور جب یہاں ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کی آبادی تھی۔ راولپنڈی کے رؤسا میں ایک نمایاں نام سوجان سنگھ کا تھا۔ سوجان سنگھ کا خاندان جدی پُشتی امیر خاندان تھا۔ اس کے دادا کی ایک بڑی حویلی بھابھڑا بازار میں تھی۔ سوجان سنگھ لکڑی کا سوداگر تھا اور انگریزوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر کاروبار کرتا تھا۔ سردار سوجان سنگھ کا شمار راولپنڈی کے سرکردہ افراد میں ہوتا تھا۔ انگریزوں نے اسے رائے بہادر کا خطاب دیا تھا۔ یہ 1890ء کی بات ہے جب سردار سوجان سنگھ نے اپنی حویلی کی تعمیر کا فیصلہ کیا‘ ایک ایسی حویلی جو محل نُما ہو۔ اس کیلئے اسے ایک ایسی جگہ کی تلاش تھی جو بلندی پر واقع ہو۔ اس کی نگاہ انتخاب بھابھڑا بازار پر پڑی‘ اور یوں اس کے خوابوں کے محل کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ حویلی کی تعمیر میں اینٹوں کے علاوہ لوہے اور لکڑی کا استعمال کیا گیا۔ حویلی کے دروازے کھڑکیاں اور کچھ کمروں کے فرش بھی لکڑی کے بنائے گئے۔ دروازوں پر لکڑی کے اندر نقش و نگار اس مہارت سے ابھارے گئے کہ مور، ہاتھی اور دیویوں کی تصویروں میں جیسے جان پڑگئی ہو۔
میں ایک عرصے سے اس حویلی کو اندر سے دیکھنا چاہتا تھا‘ لیکن مقفل دروازوں سے اندر جانا ممکن نہ تھا۔ پوچھنے پر کوئی بتاتا‘ اس حویلی کا انتظام فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پاس ہے۔ کسی کے مطابق یہ عمارت نیشنل کالج آف آرٹس کے پاس تھی۔ پھر پتہ چلا کہ عمارت دیکھنے کیلئے کمشنر آفس کو تحریری درخواست دینا ہوگی۔ خدا خدا کرکے یہ مرحلہ بھی طے ہوا اور آج میں اس حویلی کی طرف جا رہا ہوں جسے دیکھنے کی خواہش ایک عرصے سے تھی۔ بھابڑا بازار میں داخل ہوں تو تنگ سڑکیں تنگ گلیوں میں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ دس بجے کا وقت ہے اور جمعہ کا دن۔ عید کی چھٹیاں ایک روز پہلے ہی ختم ہوئی ہیں۔ ناشتے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ گلیوں میں لوگوں کی آمدورفت جاری ہے۔ ہم ایک جگہ گاڑی پارک کرتے ہیں کیونکہ آگے گلی تنگ اور گاڑی کا جانا ممکن نہیں ہے۔ ایک دو راہگیروں سے پتہ پوچھتا ہوا آخر میں حویلی تک پہنچ جاتا ہوں۔ یہاںکے گارڈ تک میرا نام پہنچ چکا ہے۔ میں حویلی کے سامنے کھڑے ہوکر سوچتا ہوں‘ کسی زمانے میں یہ راولپنڈی کی حسین ترین عمارت ہو گی‘ جسے دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے آتے ہوں گے۔ حویلی میں داخل ہونے کے دو دروازے ہیں۔ ایک دروازہ گھر کے مکینوں کے استعمال کیلئے اور دوسرا مہمانوں کیلئے ہے۔ قیمتی لکڑی سے بنے دروازوں پر خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں۔ میں دیر تک لکڑی سے جھانکتے ہوئے خوبصورت منظروں اور تصویروں کو دیکھتا ہوں۔ گارڈ مجھ سے پوچھتا ہے: آپ کون سے دروازے سے داخل ہوں گے۔ میں اسے بتاتا ہوں: میں مہمانوں والے دروازے سے جانا چاہوں گا۔ دروازے سے داخل ہوں تو سیڑھیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ یہ سیڑھیاں چوتھی منزل تک جاتی ہیں۔ سیڑھیوں پر اندھیرا ہے۔ میں موبائل فون کی لائٹ جلا کر روشنی کرتا ہوں اور سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہوں۔ اوپر کی منزل پر دو کمروں میں لکڑی کے فرش بنے ہیں۔ کمروں کی چھتیں اونچی ہیں‘ جن پر خوبصورت نقش و نگار ہیں۔ کمروں میں بڑے بڑے روشندان اور کھڑکیاں ہیں۔ سردیوں میں آگ جلانے کیلئے خوبصورت آتشدان ہیں۔ کہتے ہیں‘ ان کمروں میں رقص کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ سردار سوجان سنگھ کے مہمانوں میں شہر کے امرا شامل تھے جن کی تفریح کیلئے یہاں سب سامان مہیا تھے۔ عمارت کے اس حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سیڑھیاں اوپر کی منزلوں تک جاتی تھیں۔ ان سیڑھیوں پر قدم رکھتا ہوا میں تاریخ کے اس زمانے میں داخل ہو جاتا ہوں جب تین سال کی مدت میں تعمیر ہونے والی یہ حویلی 1893ء میں مکمل ہوئی تھی۔ کیا اتفاق ہے‘ اسی سال راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ چرچ کے زیر اہتمام ایک سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی‘ جو بعد میں کالج کے درجے پر پہنچا‘ اور مجھے اس کالج کا طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
کہتے ہیں‘ اس حویلی کے دو حصے تھے جنہیں چوتھی منزل پر ایک پل کے ذریعے ملایا گیا تھا۔ حویلی کا ایک حصہ عدم توجہی کی وجہ سے اب مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے۔ یہ حویلی کیا تھی ایک محل تھا جس میں پینتالیس کمرے تھے۔ شام ڈھلے جب کمروں، برآمدوں اور جھروکوں میں چراغ جلتے تو حویلی کسی خواب نگر کا منظر پیش کرتی۔ ایسے میں حویلی کے دروبام میں موسیقی کا جادو جاگ اُٹھتا۔ نامور موسیقار ہر شام سُر بکھیرتے۔ ان موسیقاروں کی رہائش کا بندوبست بھی کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں‘ حویلی میں پانی کی فراہمی کیلئے تیس کے قریب واٹر سپلائی لائنز تھیں اور گرم پانی کیلئے حمام موجود تھے۔ میں حویلی کے دروبام پر نگاہ ڈالتا ہوں‘ جہاں سردار سوجان سنگھ کی محبت کی جھلک نظر آتی ہے۔ حویلی کی تعمیر میں اس نے مختلف ممالک سے تعمیراتی سامان منگوایا۔ حویلی کی طرزِ تعمیر میں وسطی ایشیا کی تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں گارڈ کے ہمراہ چلتا ہوا اب حویلی کے اس حصے کی طرف آگیا ہوں جہاں کسی زمانے میں حویلی کے مکین رہتے تھے۔ وہی وسیع کھڑکیاں اور روشندان، اونچی چھتیں اور منقش درودیوار۔ میں دیکھتا ہوں‘ عمارت کی ویران اور خستہ دیواروں سے کونپلیں اور پتے نکل رہے ہیں۔ چلتے چلتے اب ہم حویلی کی چھت پر آگئے ہیں‘ جہاں سے سارا شہر نظر آ رہا ہے۔ مسجدوں کے مینار، بوسیدہ مندروں کی عمارتیں اور ان کے ساتھ ایک پرانا گوردوارہ۔ گارڈ ہاتھ کے اشارے سے بتاتا ہے‘ اس طرف باغ سرداراں ہے‘ یہ باغ سوجان سنگھ کے خاندان نے بنایا تھا۔ یہاں سے اس کا فاصلہ تین میل ہوگا۔ حویلی کے مکین تانگوں میں باغ تک جاتے جہاں پھلدار درختوں کی بہتات تھی۔ ایک شادی گھر تھا اور ایک لائبریری تھی۔ باغ سرداراں شہر کے وسط میں واقع تھا اور راولپنڈی کے ماتھے کا جھومر تھا لیکن اب یہ باغ معدوم ہو چکا ہے۔ میں چھت سے دیکھتا ہوں‘ شہر کی آبادی دور دور تک پھیل چکی ہے۔
حویلی کے شب و روز معمول کے مطابق گزر رہے تھے کہ 1947ء میں ملک تقسیم ہوگیا اور سوجان سنگھ کا خاندان راولپنڈی چھوڑکر سرحد پار دلی میں جاآباد ہوا۔ یوں بھری پُری حویلی یکلخت خالی ہوگئی۔ تب حکومت نے حویلی کو کشمیری مہاجرین کی رہائش کیلئے وقف کر دیا جو یہاں 1985ء تک رہے۔ اس دوران حویلی کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ پھر یہ عمارت فاطمہ جناح یونیورسٹی اور نیشنل کالج آف آرٹس کودی گئی۔ بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس کام نہ ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے زمانے کی حسین ترین عمارت کے درودیوار خستگی کا نمونہ بن گئے ہیں۔ حویلی کی چھت پر کھڑے میں سوچ رہا ہوں‘ اگر عدم توجہی کا یہی عالم رہا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ حویلی کھنڈر بن جائے گی۔ میں بوجھل دل سے حویلی کی سیڑھیاں اُترنے لگتا ہوں اور سوچتا ہوں فراز سے نشیب کا سفر بھی کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved