سوشل میڈیا پر مدرز ڈے منانے والوں کے اپنی اپنی مائوں کے ساتھ اظہارِ محبت کے لیے تصاویر اور تعظیمی کلمات کے ڈھیر نے مجھے بے اختیار قلم آرائی پر مجبور کرڈالا جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ نمائشی پوسٹیں لگانے کے بجائے سال کا ایک ایک دن اور ہر دن کا ایک ایک لمحہ ماں سے منسوب کرکے بھی منایا جائے تو اس عظیم الشان ہستی کاحق ادا نہیں ہوسکتا۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے والدین حیات ہیں۔ یہ خوش نصیبی بس انہی لوگوں کے لیے ہے جو ان کے شایانِ شان خدمت اور تابعداری کررہے ہیں۔سماجی بگاڑ کی ایک شکل خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ بھی ہے۔اس ٹوٹ پھوٹ میں احترام سے لے کرتحمل و برداشت اور بردباری سے لے کر رواداری اور وضعداری تک بھی ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔جو ماں باپ کئی بچوں کو نازو نعم اور لاڈ پیار سے پال پوس کرکسی قابل بناتے ہیں‘اکثر ایسا دیکھا ہے کہ وہ اولادیں مل کر بھی ماں باپ کے بڑھاپے میں ان کا حقیقی سہارا بننے کے بجائے اپنی ذمہ داری سے گریزاں اور فرار کے راستے ڈھونڈتی ہیں۔
اکثر گھروں میں والدین کو رکھنا بہت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ بھائی ایک دوسرے کو طعنے دیتے بھی نظر آتے ہیں کہ امی دو مہینے سے میرے گھر میں ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی پرائیویسی کے علاوہ کئی فیملی پلان ڈسٹرب رہتے ہیں۔ نہ انہیں ساتھ لے جا سکتے ہیں اور نہ ہی گھر اکیلا چھوڑ کرجاسکتے ہیں۔ میں اکیلی اولاد نہیں ہوں تمہارے بھی ماں باپ ہیں‘ اب چند ماہ تم انہیں سنبھالو۔ اللہ تعالیٰ سب کے ماں باپ کو صحت والی زندگی دے لیکن ماں باپ میں سے جب کوئی ایک ملک عدم سدھار جاتا ہے تو پیچھے رہ جانے والی ماں ہو یا باپ‘ انہیں سنبھالنا اور ان کے شایانِ شان خدمت کی ذمہ داری اس لیے مزید بڑھ جاتی ہے کہ ان کے رفیقِ حیات کے بچھڑنے کا غم ہی انہیں ادھ موا کرڈالتا ہے۔ ان کے لیے یہ سوچنا ہی محال اور کسی عذابِ مسلسل سے کم نہیں ہوتا کہ اب باقی کی زندگی اپنے لائف پارٹنر کے بغیر گزارنا پڑے گی۔
جن گھروں میں والدین میں سے کسی ایک کے انتقال کے بعدرہ جانے والی عظیم ہستی کو ناقدری کا سامنا رہتا ہے وہ بھی زیادہ دیر زندہ اس لیے نہیں رہ پاتی کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھی کی جدائی کے ناقابلِ ِبرداشت غم کے ساتھ اولاد کی عدم توجہی اور بے زاری برداشت نہیں کر پاتی۔ بے شک بدبخت ہے وہ اولاد جس کے ماں باپ حیات ہیں اور وہ ان کی دعائوں سے محروم ہے‘ جو صرف اور صرف خدمت گزاری اور اطاعت گزاری کے نتیجے میں بے اختیار ان کے دل سے نکلتی ہیں۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ ماں باپ کی بڑی ضرورت کا خیال رکھنے والے ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور پسند‘ ناپسندکو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ انہیں کھانے میں کیا پسند ہے‘ان کی صحت کے لیے کون سی خوراک موافق اور کون سی ناموافق‘ کپڑے ان کے ذوق کے مطابق ہیں یا نہیں‘ ان کے چشمے کے نمبر میں کمی بیشی تو نہیں ہورہی‘انہیں اگر مطالعہ کا شوق ہے تو ان کی من پسند کتابیں اور رسائل انہیں دستیاب ہیں کہ نہیں‘جن عزیز و اقارب اور دوست احباب سے مل کر وہ جی اٹھتے ہیں‘ ان سے میل ملاقات اور رسائی کا کوئی انتظام ہے یا نہیں‘انہیں کسی چیز سے الرجی یا چڑ تو نہیں۔اکثر گھروں میں بیگمات اور بچوں کے شوق بزرگوں کوناگوار اور ناپسند ہونے کے باوجود اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
ہمارے ایک دوست اپنے والد سے بے پناہ پیار کرنے کے علاوہ ان کا بہت خیال بھی رکھتے ہیں‘ وہ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے والد گھر کے رہائشی حصے میں کھلے عام بستروں اور صوفوں پراچھلتی کودتی پالتو بلیوں سے سخت نالاں اور پریشان رہتے ہیںمگر وہ اپنے بچوں اور بیگم کے شوق اور ضد کے آگے مجبور اور بے بس ہیں ۔
اس طرح کی بے شماراور بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیںان کے لیے تکلیف اور دل آزاری کا باعث بنتی چلی جاتی ہیں اور اولاد کو ادراک ہی نہیں ہوپاتا کہ ان کے ماں باپ کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔وہ ان کی خوراک ‘ لباس‘ ادویات پوری کرکے ہی جنت میں گھر بنا سکتا ہے۔ ماں کے پائوں تلے جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے۔اسی لیے حکم ہے کہ ماں باپ کے آگے اُف تک نہ کرو۔بالخصوص جب وہ ضعیف ہوکر تمہاری کفالت میں ہوں۔ماں کی بددعا قبول نہیں ہوتی اور باپ کی بددعا کو پر لگ جاتے ہیں۔ ماں باپ سے بڑا پیر کون ہوسکتا ہے؟ منتیں اور مرادیں مانگنے کے لیے دربدر بھٹکنے والے یقینا بے خبر ہیں کہ ان کے گھروں میں ماں باپ کی صورت میں بیٹھی ہستیاں کسی پیر سے زیادہ معتبر اور باعثِ تکریم ہیں۔ تعجب ہے! وہ کون سی بدبخت اولادیں ہیں جن کے ماں باپ بوڑھے اور حیات ہوکر بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
خیراتی دسترخوان ہوں یا لنگرخانے ‘اولڈ ہومز ہوں یا پارکوں اورگرین بیلٹوں پر بے یارومددگار، کھلے آسمان تلے پڑے صرف دو وقت کی روٹی پر زندگی کے بچے کھچے دن گزارنے والے بھی کسی کے باپ اور کسی کی ماں تو ضرور ہوں گے۔ہر ایک کی اپنی کہانی اور اپنی اپنی داستان ہے۔ روتے روتے جن کی آنکھیں خشک ہو چکی ہوں اور ناقدری کا عذاب سہتے سہتے وہ بے بسی اور بے کسی کی تصویر بن چکے ہوں۔جس اولاد کے لیے زندگی کی صعوبتیں اور مشکلات برداشت کیں وہ دو وقت کی روٹی اورسرپر چھت بھی نہ دے سکی۔بدبخت اولادوں کے کتنے ہی ماں باپ دربدر اور ذلت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔کسی کی ماں برتن مانجھ رہی ہے تو کسی کی ماں فرش پر پونچھا لگا رہی ہے۔کسی کی ماں سڑکوں اور چوراہوں پر دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہے تو کسی کی ماں کسی کونے میں بیٹھ کر ان نظروں کی متلاشی ہے جو چہرے پڑھنے کا ہنر جانتی ہوں۔کسی کا باپ مزدوری پر مجبور ہے تو کسی کا مزدوری نہ ملنے سے مانگنے پر مجبور۔یہ کس کے ماں باپ ہیں جو اولڈ ہومز اور پناہ گاہوں میں پناہ گزین ہیں؟ان کی اولادیں کہاں ہیں؟انہیں نیند کس طرح آجاتی ہے؟ ان کے حلق سے نوالہ کیسے اترتا ہے؟ وہ ان ماں باپ کے بغیر شب و روز کیسے گزار رہے ہیں ؟
اپنے اوپر دعائوں کے دروازے بند کرنے والے اپنے ہاتھوں سے اپنے نصیبوں کو تالے لگانے والے کس قدر بدبخت ہیں۔اپنی جنت گھر سے نکال کر کس جہنم میں رہ رہے ہیں۔کسی کی جنت اولڈ ہومز میں پل پل جیتی اور پل پل مرتی ہے تو کسی کی جنت کا دروازہ پناہ گاہ کی تلاش میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔یہ سبھی جنتیں سڑکوں اور چوراہوں‘ پارکوں اور گرین بیلٹوں سمیت نجانے کہاں کہاں رل رہی ہیں اور انہیں رولنے والے خدا جانے کون سے رمضان اور کون سی عیدیں منا رہے ہیں۔مدرز ڈے منانے والے ہوں یا فادر زڈے منانے والے ‘وہ یقینا اپنے ماں باپ سے پیار کرتے ہوں گے ۔کچھ توجہ اور دھیان ان جنتوں اور جنت کے دروازوں کی طرف بھی کرلینا چاہئے جو ناقدری اور گستاخ اولاد کو پالنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔خدا جانے ان کی سزا کب ختم ہوگی۔ان کے دکھوں اور محرومیوں کا ازالہ تو ہرگز ممکن نہیں لیکن ہم ان کی سزا اور اس سختی میں کچھ کمی اور نرمی ضرور کر سکتے ہیں۔جس طرح مال کی زکوٰۃ دے کر اسے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح ماں باپ کے دن منانے کے علاوہ ان سے پیار اور عشق کی زکوٰۃ بھی ہم پر واجب ہے۔یہ زکوٰۃ ان ماں باپ میں تقسیم کرکے ادا کی جاسکتی ہے جو اولاد کے ہوتے ہوئے بھی بے اولاد‘ گھر کی چھت اور دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں‘کپڑا لتّا‘ دوا دارو کا تو سوچنا بھی محال ہے۔ ہم ان کی یہ محرومی پوری کرکے اپنے ماں باپ سے پیار کی زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved