نئی نسل محض الجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ بری طرح الجھی ہوئی ہے۔ بہت کچھ ہے جو اُس کی سمجھ میں آرہا ہے مگر دوسرا بہت کچھ ایسا ہے جو کسی بھی طور سمجھ میں آنے کا نام نہیں لے رہا۔ مشکل امر بلکہ المیہ یہ ہے کہ جو کچھ سمجھ میں آرہا ہے اُس کا غالب حصہ کسی کام کا نہیں۔ مختلف ذرائع سے نئی نسل کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وہ بہت کچھ کرسکتی ہے۔ یہاں تک تو معاملہ درست ہے مگر اِس سے آگے یہ بھی سکھایا جارہا ہے کہ ہر معاملے میں اپنی رائے دینا اُس کا حق ہے اور یہ حق اُسے نہ صرف ملنا چاہیے بلکہ اُسے بروئے کار بھی لایا جانا چاہیے۔ کیا واقعی نئی نسل کو ہر معاملے پر متوجہ ہونا اور کچھ نہ کچھ بولنا چاہیے؟ یہ لازم تو نہیں! یہ تو گمراہ کرنے والی بات ہوئی۔ نئی نسل کے سامنے کئی ٹاسک ہوتے ہیں۔ ایک طرف لڑکپن کے گزرنے پر لاڈ پیار ختم ہونے کا عذاب سہنا ہوتا ہے اور دوسری طرف عملی زندگی صدا لگارہی ہوتی ہے۔ عملی زندگی شروع کرتے وقت نئی نسل کے پاس بہت کچھ ہونا چاہیے۔ اُس میں ولولہ تو ہوتا ہی ہے مگر ولولہ احسن طریق سے بروئے لایا جائے‘ تب کسی کام کا ہے ورنہ کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
آج کی نئی نسل کو گزشتہ کسی بھی نئی نسل کے مقابلے میں زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہر دور میں علم و فن کے اعتبار سے بلند ترین سطح پر ہوتا ہے مگر ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک معاملات بہت مختلف تھے۔ کسی بھی شعبے میں اتنی تیزی سے پیش رفت نہیں ہوتی تھی کہ نئی نسل کو بہت کچھ دیکھنا، سمجھنا اور سیکھنا پڑے۔ آج ہر شعبے میں پیش رفت کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ نئی نسل کو وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلنے میں انتہائی نوعیت کی دشواری کا سامنا ہے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ آج کی نئی نسل کو ہر چیلنج کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ آگے بڑھنے کے لیے اب غیر معمولی نوعیت کی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ عمومی سطح پر محنت کرتے ہوئے کوئی بھی کچھ نہیں پاسکتا۔ آج کی ہر ترقی یافتہ قوم اس بات کا نمونہ ہے کہ اَن تھک محنت ہی کے ذریعے سے کچھ پایا جا سکتا ہے۔ نئی نسل کو بہت کچھ سیکھنا ہے مگر اِس سے پہلے بہت کچھ سمجھنا بھی تو ہے۔ آج نئی نسل کے سامنے سب سے بڑا چیلنج غیر متعلقات سے بچنے کا ہے۔ زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے کسی کام کا نہیں۔ میڈیا کی بے مثال ترقی نے ہر انسان کو معلومات کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کردیا ہے۔ بیشتر معلومات ہر آدمی کے کام کی نہیں ہوتیں۔ اور پھر گمراہ کن باتیں؟ وہ تو زندگی ہی کو تلپٹ کردیتی ہیں۔ آج کا انسان اچھی اور بُری دونوں ہی طرح کی باتوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اگر معلومات درست بھی ہوں تو کس کام کی اگر اُن کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق ہی نہ بنتا ہو؟ ہمیں تو اُن باتوں پر دھیان دینا ہے جن کا ہماری زندگی سے بنیادی تعلق ہے۔ زندگی قدم قدم پر ہم سے توجہ کی طالب رہتی ہے۔ ہم توجہ سے کہیں زیادہ آگے جاکر انہماک کے مرحلے میں داخل ہو رہتے ہیں مگر غیر متعلق معاملات میں۔ اس معاملے میں نئی نسل کا حال بہت بُرا ہے۔ وہ کسی بھی جواز کے بغیر ایسی بہت سی چیزوں میں الجھی رہتی ہے جن کا عملی زندگی، کیریئر، جوش و خروش، صلاحیت و سکت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جن باتوں کا ہماری زندگی سے کوئی بھی یا کوئی خاص تعلق نہ ہو اُنہیں ہم کیوں گلے لگائیں؟ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ جن باتوں پر توجہ دی جانی چاہیے بس اُنہی باتوں پر توجہ دی جانی چاہیے۔
آج کی نئی نسل کسی حد تک قابلِ رحم بھی ہے کیونکہ وہ ایک ایسے وقت پیدا ہوئی ہے جب کم و بیش ہر شعبے میں پیش رفت منطقی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ کسی بھی شعبے میں جو کچھ بھی کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا تھا وہ کیا جاچکا ہے۔ وہ بہت کچھ جو ابھی کل تک خواب تھا، آج تعبیر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ نئی نسل کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اب کس شعبے میں کیا کرنے کی منصوبہ سازی کی جائے۔ ہر شعبہ اپنی طرف بلا رہا ہے۔ نئی نسل میں صلاحیت بھی ہوتی ہے اور ولولہ بھی۔ ہاں، معاملات کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم پائی جاتی ہے۔ پختہ عمر کی نسل کو یہ بات سمجھنی ہے کہ نئی نسل کو قدم قدم پر اس کی طرف سے رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بروقت راہ نمائی میسر نہ ہو تو نئی نسل کی الجھن بڑھتی ہے۔ کسی بھی دور کی نئی نسل کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ اُسے اس بات پر قائل کرنا ہوتا ہے کہ اُسے راہ نمائی درکار ہے۔ صلاحیت و سکت اور جوش و خروش نئی نسل کو بہکانے والے عوامل بھی ہیں۔ وہ اپنی ابھرتی ہوئی طاقت کے نشے میں یہ سمجھنے لگتی ہے کہ اُسے کسی کی طرف سے کسی بھی نوع کی راہ نمائی کی ضرورت نہیں۔ یہ بڑی خرابی ہے۔ نئی نسل کو یہ بات چھوٹی عمر سے سمجھائی جانی چاہیے کہ اُسے دوسروں کی ضرورت پڑتی رہے گی اور ضرورت کے مطابق جو کچھ بھی لینا ہو وہ لینا ہی چاہیے۔ جہاں راہ نمائی درکار ہو وہاں کسی کو راہ نما بنایا جائے اور جہاں عملی مدد درکار ہو وہاں مدد لینے سے گریز نہ کیا جائے۔ یہ سب کچھ نئی نسل کی ذہنی یا فکری ساخت کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام والدین، خاندان کے بزرگوں اور اساتذہ کو مل جل کر کرنا ہے۔ اس معاملے میں تساہل کی گنجائش ہے نہ تاخیر۔ وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت۔ ایسے میں جو کچھ بھی کرنا ہے فوری کیا جائے اور وہ بھی بھرپور انداز سے۔
پاکستان کی نئی نسل خوش نصیب ہے کہ اُسے تمام شعبوں کی ممکنہ بہترین پیش رفت کے نتائج سے مستفید ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ کوئی اگر کچھ کرنا چاہے تو بہت کچھ ہے جو کیا جاسکتا ہے۔ ہاں! یہ ضرور طے کرنا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کسی بھی راہ پر گامزن ہو جانا منزل تک پہنچانے کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ناکام رہتے ہیں۔ آپ اپنے ماحول پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ اکثریت اُن کی ہے جو سوچے سمجھے بغیر کسی بھی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں اور پھر جب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ غلط راہ کا تعین کیا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسے میں واپسی زیادہ خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ ہر دور کی نئی نسل کے لیے کیریئر کا معاملہ غیر معمولی توجہ کا طالب رہا ہے۔ کیریئر کا مطلب ہے کسی بھی شعبے کو زندگی بھر کے لیے منتخب کرنا۔ ہر دور بہت سے شعبوں میں پُرکشش مواقع فراہم کرتا ہے۔ آج بھی کئی شعبوں میں بہت ہی پُرکشش مواقع موجود ہیں۔ ان مواقع سے بطریقِ احسن مستفید ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ منصوبہ سازی کی جائے، ذہن سازی کی جائے، تیار ہوا جائے، صلاحیت و سکت کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جائے۔
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں بہت کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ اب کوئی بھی شعبہ اتنا مضبوط نہیں رہا کہ انسان کو تیس چالیس سال تک اپنے دامن میں سموئے رہے۔ ہر شعبہ بدل رہا ہے۔ پیش رفت کی رفتار ہر شعبے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ آج میڈیا اور آئی ٹی سب سے زیادہ پُرکشش شعبے دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم یہ حقیقت ذہن نشین رکھی جانی چاہیے کہ یہ دونوں شعبے بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پُرکشش مواقع اگر ہیں تو صرف اُن کے لیے جو پیش رفت کے لیے تیار ہوں، محنت کرسکتے ہوں۔ عمومی سطح کی محنت عمومی سطح ہی کے نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ بہت آگے جانے کے لیے سمجھنے اور سیکھنے کے معاملے میں بھی بہت آگے جانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے سمت کا تعین ناگزیر ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ اب کوئی بھی کیریئر طویل عمر کا نہیں۔ ایسے میں ان کیریئرز پر نظر رکھی جائے تو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں تاکہ سوئچ اوور میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved