مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ایک خطبہ دیا اور اہلِ سیاست کو بطورِ خاص مخاطب کیا۔ سب نے تحسین کی۔ کہیں سے کوئی تنقیدی آواز سنائی نہیں دی۔ محترم طارق جمیل صاحب نے بھی ایک شبِ دعا سے خطاب کیا اور لوگوں کو 'دین کی دعوت‘ دی۔ اس پر بہت تنقید ہوئی۔ دین کے نام پر عوام سے مخاطب ہونے والی دو شخصیات کی، بظاہر ایک جیسی باتوں پر، عوامی ردِ عمل مختلف کیوں ہے؟
کسی معاشرے میں، یہ ممکن نہیں ہوتاکہ سب لوگ ایک پیشے یا شعبے سے وابستہ ہو جائیں۔ سماج کی ضروریات متنوع ہیں۔ اسے مختلف شعبوں کے ماہرین کی ضرورت رہتی ہے۔ قدرت نے اسی لیے انسانی طبیعتوں میں تنوع رکھا ہے تاکہ لوگ اپنی اپنی افتادِ طبع کے ساتھ کسی شعبے کا انتخاب کریں اورکسی ایک معاشرتی ضرورت کو پورا کریں۔ سماجی زندگی کی ہمہ رنگی متقاضی ہے کہ بہت سے شعبوں میں مہارت رکھنے والے بیک وقت موجود ہوں اور یوں معاشرتی توازن برقرار رہے۔
سماجی ضروریات صرف مادی نہیں ہوتیں۔ یہ اخلاقی اور روحانی بھی ہوتی ہیں۔ مادی زندگی کی بقا کیلئے، جس طرح لازم ہے کہ ڈاکٹرز، انجینئرز سمیت تمام شعبہ ہائے حیات کے ماہرین حسبِ ضرورت میسر ہوں، اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ اخلاق اور مذہب کے معلم بھی موجود رہیں جو معاشرے کی اخلاقی اور روحانی بقا کا سامان کریں۔ اسلامی نظریۂ حیات، آخرت کے تصور پر کھڑاہے جس میں ہمیشہ کی زندگی کا آغاز، یومِ حساب کے بعد ہونا ہے، اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ مسلم سماج میں ایسے لوگ ہروقت موجود ہوں جو لوگوں کو اس حقیقت کے بارے میں خبردار کرتے رہیں تاکہ لوگ اسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ نہ سمجھ بیٹھیں۔
اسلام، فطرت کے ساتھ، مذہب کو اخلاقیات کا حقیقی ماخذ مانتا ہے۔ انسان جس اخلاقی شعور کے ساتھ جنم لیتا ہے، مذہب اسی کی یاددہانی ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے اپنا مقصدِ بعثت ہی مکارمِ اخلاق کی تکمیل بتایا ہے۔ یہ قرآن مجید کی اس آیت کی شرح ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے بارے میں فرمایا کہ آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں (القلم: 4)۔ اس لیے مسلم معاشرے میں مذہبی تعلیم، دراصل اخلاق ہی کی تعلیم ہے۔ گویا سماج کی اخلاقی بقا کیلئے لازم ہے کہ اس میں علما بھی ہوں جو اخلاق کی تعلیم دیں اور آخرت میں جوابدہی کی مسلسل تذکیر کرتے رہیں۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک سماج میں سب لوگ دین کے عالم ہوں، جیسے یہ نہیں ہو سکتا کہ سب طبیب یا انجینئر ہوں؛ تاہم یہ لازم ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو دین کا علم حاصل کریں اور یاددہانی کی یہ ذمہ داری پوری کریں۔ قرآن مجید نے اس معاشرتی حقیقت کو اسی طرح بیان فرمایا ہے: ''یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان، سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے اوراپنی قوم کے لوگوں کو (ان کے رویوں پر) خبردار کرتے، جب ان کی طرف لوٹتے، اس لیے کہ وہ خدا کی گرفت سے بچتے؟ (التوبہ :122)۔
مسلم معاشروں میں، ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے دین میں بصیرت پیدا کی‘ یعنی دین کاعلم حاصل کیا اور لوگوں میں انذار کی ذمہ داری پوری کی۔ ختم نبوت کے بعد، یہ علما کا فریضہ منصبی ہے۔ اس آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے دین کا علم لازم ہے۔ دعوتِ دین، دینی بصیرت سے عاری لوگوں کا کام نہیں۔ امت کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے لوگ بلا امتیازو تفریق معاشرے کے ہر طبقے تک دعوت پہنچاتے ہیں اوربطورِ خاص اقتدار کی کشمکش میں شریک لوگوں میں سے، کسی کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے۔ وہ سب کے خیرخواہ اور سب کو نصیحت کر نے والے ہوتے ہیں۔
ایک عالم کی یقیناً کوئی رائے ہوگی۔ ممکن ہے کہ وہ کسی خاص علمی روایت سے وابستہ ہو۔ اس کی کوئی مسلکی پہچان بھی ہو سکتی ہے‘ لیکن جب وہ عوام کوخدا کے سامنے جوابدہی کی یاددہانی کراتا ہے تو وہ ایسی ہر شناخت سے بلند ہو جاتا اور سب کا خیر اندیش ہوتا ہے۔ سب بلا امتیاز اس کے مدعو ہوتے ہیں اور وہ صرف داعی ہوتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس بات کا لحاظ رکھا۔ ان کا پیغام ہر تعصب سے پاک اور ہر وابستگی سے بلند تھا۔ انہوں نے خیر خواہی کا حق ادا کرتے ہوئے، سب کو یکساں طور پر مخاطب کیا۔ انہوں نے سیاست میں در آنے والی اس تلخ نوائی، جو تہمت سازی اور دشنام تک جا پہنچی، کی طرف بلاتفریق، سب اہلِ سیاست کو متوجہ کیا۔ بدتہذیبی اور بدتمیزی کے ان مظاہر کے نتائج سے خبردار کیا جو سیاسی کلچر کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب کسی صاحبِ خیر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مفتی صاحب کی تائید نہ کرتا۔
مفتی صاحب کاتعلق مسلکِ دیوبند سے ہے۔ وہ علم کی دنیامیں اس مسلک کے نمائندہ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اسی مسلک کی سیاسی جماعت ہے۔ علم کی دنیا میں جو مقام مفتی صاحب کو حاصل ہے، سیاست میں، مولانا فضل الرحمن کا بھی وہی مقام ہے۔ اگر مفتی صاحب اپنا وزن پوری طرح جمعیت علمائے اسلام کے پلڑے میں ڈالتے تو اس کا جواز تلاش کیا جا سکتا تھا۔ مولانا نے مگر خود کو اس سے بلند رکھا۔ یہی نہیں، وہ اس سے پہلے عمران خان صاحب کی حکومت کے بعض اقدامات کی تحسین بھی کر چکے جو ان کے خیال میں دین اور امتِ مسلمہ کے مفاد میں تھے۔ یہی بات مفتی صاحب کے احترام کا سبب بنی۔
اس کے برخلاف، محترم طارق جمیل صاحب نے داعی اور عالم کے منصبی تقاضوں کو نظر انداز کیا۔ اپنا وزن ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالا۔ ایک سیاسی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوئے اور یہ چاہا کہ قوم بھی اسی ساحر کی اسیر ہو جائے۔ ان کی طلاقتِ لسانی، زورِ بیان، ان کا فن، ان کا گریہ اور ان کی دلسوزی، سب ایک سیاسی چوکھٹ پر قربان ہوگئے۔ عذرِ گناہ، بد تر از گناہ کے مصداق، ساتھ یہ اعلان بھی کرتے رہے کہ میں غیرسیاسی ہوں۔ واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے تھے، اسی لیے ان کی اس بات سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔
محترم طارق جمیل صاحب کی ابتدائی شناخت ایک داعی کی تھی جو تبلیغی جماعت سے وابستہ تھا۔ ان کی مقبولیت میں بڑا حصہ، تبلیغی جماعت کی تاریخ اور اس کی نیک نامی کا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، انہوں نے اپنی انفرادی شناخت پر زیادہ توجہ دی۔ یہ شناخت، دعوت کیساتھ، سیاست اور کاروبار تک پھیلتی چلی گئی۔ شواہد یہی ہیں کہ وہ اس 'عمران خان پروجیکٹ‘ کا حصہ تھے جو مبینہ طور پر ریاستی منصوبے بندی کے تحت بنا تھا۔ سیاست اور کاروبار، دونوں کام ناجائز نہیں لیکن دعوت کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی دوئی کو برداشت نہیں کرتی۔ آخر کوئی وجہ تو تھی کہ علمِ دین اور دعوت سے وابستہ لوگ سیاست اور اہلِ اقتدار سے دور رہتے تھے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب اس بات سے متنبہ رہے۔ طارق جمیل صاحب نے نظرانداز کیا۔
مولانا فضل الرحمن کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ لگاہے۔ وہ دینی مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں‘ لیکن وہ سر تا پا سیاستدان ہیں۔ ان کے بارے میں وہ سوال کبھی نہیں اٹھا جو مفتی صاحب یا طارق جمیل صاحب کے بارے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس میں ان لوگوں کیلئے عبرت کا سامان ہے جو دعوت کے ساتھ سیاست کی آمیزش کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے یہ غلطی اجتماعی سطح پر کی۔ طارق جمیل صاحب نے انفرادی سطح پر۔ دونوں کا انجام یکساں ہوا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved