سری لنکا میں اس وقت حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں‘ اس میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں‘ اگر ہم ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش کریں تو۔ پاکستان کے قریب ہی واقع سری لنکا میں معاشی بحران نے وہاں کا سیاسی و سماجی ڈھانچہ ہی بدل دیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ یعنی دیوالیہ ہونے اور ڈالر ذخائر ختم ہونے کے بعد وہاں کے عوام ادویات اور پٹرولیم مصنوعات جیسی بنیادی اشیا بھی خرید نہیں پا رہے، جس کے باعث وہاں ایک انقلاب کی صورتحال ہے۔ شدید عوامی احتجاج اور دنگا فساد کے بعد سری لنکن وزیراعظم کو بالآخر اقتدار کے سنگھاسن سے الگ ہونا پڑا۔ پاکستان اور سری لنکا کے معاشی مسائل بہت مختلف نہیں، وہاں بھی معیشت دہشتگردی اور غیرمستحکم جمہوری تاریخ کے باعث متاثر ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ بھی کچھ اسی سے عبارت ہے۔ وہاں بھی معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں اور گرانٹس پر رہا اور یہاں کی 75 سالہ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ اگر سری لنکا ان بھیانک مسائل کا شکار ہوسکتا ہے، تو ہمیں ہوش کے ناخن لے کر فوری طور پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ویسی صورتحال سے بچ سکیں۔ یہ بحث ایک طرف کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا ذمہ دار سابق وزیراعظم عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور حکومت ہے یا میاں شہباز شریف کا ایک ماہ طویل اقتدار‘ لیکن اب اقتدار کی ڈرائیونگ سیٹ پر شہبازشریف بیٹھ چکے ہیں۔ گاڑی آگے فراٹے بھرتی ہے یا ہچکولے کھاتے ہوئے آخری سانس لیتی ہے‘ اس کی تمام تر ذمہ داری اب موجودہ حکومت پر ہے۔
ملکی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان حکومت پر ہر ممکن دبائو بڑھا رہے ہیں جبکہ حکومت، قومی مفاد میں بڑے فیصلے لینے سے ہچکچا رہی ہے۔ اتحادی حکومت کے اہم معاشی اور سیاسی فیصلوں میں تاخیر سے کنفیوژن بڑھ رہی ہے، جس کا اثر ڈالر کی اونچی اڑان، سٹاک مارکیٹ کی بدحالی اور تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت میں عیاں ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ یہی پروگرام جاری رکھنا ہے یا نئے پروگرام پر مذاکرات کرنے ہیں، اس پر مفتاح اسماعیل کچھ اور کہہ رہے ہیں جبکہ اسحاق ڈار کا موقف کچھ اور ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر گزشتہ حکومت کی دی گئی سبسڈی شہباز سرکار کی معاشی پالیسی کیلئے واقعی بارودی سرنگ ثابت ہورہی ہے، کیونکہ حکومت یہ سبسڈی ختم کرکے سیاسی قیمت چکانے کو تیار نہیں، لیکن اس کے بھاری بھرکم بوجھ تلے معیشت تباہ حالی کا شکار ہورہی ہے۔ عمران حکومت کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کی ایک بڑی وجہ مس مینجمنٹ اور ٹھوس پالیسیوں کا نہ ہونا تھا۔ بدقسمتی سے کچھ یہی صورتحال موجودہ حکومت کی بھی نظر آرہی ہے کہ وہ ملک چلانے کیلئے کسی سمت کا تعین نہیں کرپا رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک کنفیوژن کا عالم ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت یہ طے کرنے میں ناکام ہے وہ اقتدار میں 3 ماہ کیلئے آئی ہے، 6 ماہ کیلئے یا پھر اگست 2023ء تک مدت پوری کرنے کیلئے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے معتمد خاص اسحاق ڈار اور شاہد خاقان عباسی الیکشن اصلاحات کرتے ہی اکتوبر تک انتخابات کے خواہاں ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ اگر آپ حکومت کی مدت طے کرنے میں ہی ناکام ہیں تو فوری اور سخت معاشی فیصلے کیونکر لیں گے؟
دوسری طرف عمران خان کے بیانیے نے ان کی تمام نالائقیوں اور بدترین کارکردگی کو ڈھانپ دیا ہے، اور لگتا یوں ہے کہ معاشی بدحالی کے ذمہ داران کے کٹہرے میں موجودہ حکومت کھڑی ہے۔ عمران خان سڑکوں پر آچکے ہیں، لوگوں کو اداروں اور حکومت کے خلاف اکسا رہے ہیں، مذہب کارڈ کے ذریعے ہیجانی کیفیت پیدا کر رہے ہیں، 20 مئی کے بعد اسلام آباد کا رخ کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ وہ اپنے بیانات سے حکومت اور ریاست‘ دونوں پر جلد الیکشن کیلئے دبائو بڑھاتے جا رہے ہیں، لیکن جواباً حکومت کے پاس کوئی ٹھوس بیانیہ ہی نہیں۔ نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی (ایف) ابھی تک اپنے کارکنوں کو سازشی بیانیے کا توڑ دینے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کے حامی حلقوں کے مطابق ان تمام باتوں کا جواب وزیراعظم شہباز شریف صرف اپنی پرفارمنس سے ہی دے سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم دن رات کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔
اپوزیشن کی کوشش یہ ہے کہ وہ حکومت کو گڈگورننس سمیت تمام بڑے معاملات پر سو فیصد توجہ دینے کے بجائے، لا یعنی معاملات میں الجھائے رکھے۔ ملک میں جلسے، جلسوں اور لانگ مارچ کے ذریعے ایک ایسی فضا پیدا کردی جائے کہ وفاق‘ خصوصاً پنجاب میں حکومت مفلوج نظر آئے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان موجودہ حکومت کو کبھی صدر مملکت جناب عارف علوی اور کبھی گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، جن کو وفاقی حکومت برطرف کر چکی ہے، کے ذریعے سے ٹف ٹائم دینے میں مصروف ہیں۔ وہ ہر دوسرے روز کسی شہر میں میلہ سجا کر اپنے کارکنوں اور حامیوں کا لہو گرمانے اور حکومت کو اور ان کے ہینڈلرز کو دھمکیاں دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
بہتر تو یہ ہے موجودہ حکومت، ماضی کی حکومت کے برعکس مُخالفین پر برسنے اور اپنی توجہ ان کی جانب مرکوز کرنے کے بجائے اپنی کارکردگی پر رکھے تاکہ عوام کے سامنے کارکردگی دکھانے والے اور نہ دکھانے والوں کا فرق واضح ہو۔ حکومت تجربہ کار سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جو کئی دفعہ اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ جس مربوط تیاری اور اتحاد کے ساتھ انہوں نے عمران حکومت کو چلتا کیا، اسی تیاری اور اتحاد کے ساتھ ساتھ ان کے پاس واضح اور جامع پلان بھی ہونا چاہیے تھا تاکہ اس پر عمل کیا جاتا اور ساتھ ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جاتا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں کتنا اتحاد ہے، اس حوالے سے بھی متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں، بہرحال حکومت کی کارکردگی کا زیادہ تر بوجھ نون لیگ کو ہی اٹھانا ہے کیونکہ وزارت عظمیٰ پر شہباز شریف براجمان ہیں۔ شاید یہی بات ان کی لندن طلبی کی وجہ بھی بنی۔ نوازشریف پہلے سے ہی عمران حکومت کے خاتمے کے بعد فریش مینڈیٹ کے ساتھ حکومت لینے کے حامی تھے، اور اب جو حالات نظر آرہے ہیں، لگتا ہے وہ اپنی سوچ میں اور پختہ ہوگئے ہیں۔ ''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق کسی ایک طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ میاں نوازشریف کی سربراہی میں لندن میں بلائی جانے والی اہم میٹنگ میں یہ تمام ایشوز ڈسکس کئے جائیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میٹنگ میں ہونے والے فیصلوں کے بعد ہی نون لیگ یکسو ہوکر اتحادی حکومت کو کوئی جامع اور بہتر سمت دینے کی پوزیشن میں ہوگی۔ پھر ہی وہ یہ فیصلہ کرسکے گی کہ انہوں نے جون میں انتخابی بجٹ دینے اور الیکشن اصلاحات کے فوراً بعد انتخابات کی جانب جانا ہے یا پھر بجٹ دے کر اگلے سال تک اس کے اہداف مکمل کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دینا ہے۔ فیصلہ وہی بہتر ہوگا جو لوگوں کے ذہنوں سے ابہام دور کرے اور حکومت کو واضح منزل دے گا۔ ورنہ خراب ہوتے معاشی معاملات، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور عمران خان کے عوام کو اکساتے بیانات حکومت کیلئے کوئی اچھا نقشہ پیش نہیں کررہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved