دیرینہ دوست اور اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ شاعر مسعود احمد کا شعر ہے:
تجھ کو بھولوں، کوشش کرکے دیکھوں گا
ویسے دریا الٹا بہنا مشکل ہے
شکاگو کے مرکز شہر یعنی ڈاؤن ٹاؤن میں اس خوبصورت دریا کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ شعر مسلسل یاد آرہا تھا۔ اس حسین دریا کو‘ جسے دریائے سبز کہنا بہتر ہوگا، دیکھنا تو آنکھوں کی سیرابی ہے، لیکن جب یہ علم ہوکہ یہ دریا انسانی کاوشوں سے الٹا بہایا گیا ہے تو دل و دماغ کی حیرانی بھی اس کیفیت میں شامل ہوجاتی ہے۔ یہ تفصیل بعد میں بتاتا ہوں، پہلے یہ جانیے کہ ڈاؤن ٹاؤن شکاگو میں فلک بوس عمارتوںکا جنگل ہی نہیں ایک خوبصورت دریا اور اس کی نہر بھی ہے۔ کسی شہر کا مرکزی حصہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے ہوتا ہے، بنیادی طور پر تفریح کے لیے نہیں لیکن اس کاروباری دنیاکی خوبصورتی بھی اپنی مثال آپ ہے‘ خاص طور پر دریا کنارے سیر اور واکنگ ٹریک جسے ریور واک کہا جاتا ہے، ایک حسین یاد کی طرح تادیر دل میں جگمگ کرتی رہتی ہے۔ اکتوبر 2018 میں جب یہاں پہلی بار آیا تھا تو اترتی سردیوں اور آگ لگا دینے والی خزاں نے جادو کررکھا تھا۔ ہلکے اور گہرے سبز رنگ بتدریج گلابی اور آتشی بن جانے تک جتنے رنگوں اور جتنی کیفیتوں سے گزر سکتے ہیں، قدرت نے وہ سب نمونے یہاں اکٹھے کردئیے تھے۔ کہنے کو خزاں لیکن ایسی جس کے سامنے بہار کونے میں منہ چھپا کر بیٹھ جائے۔ ایک پرسکون جگہ ایک بڑا، گھنا اور سایہ دار درخت آنکھوں میں اب تک بسا ہوا ہے جس کے پتّے ہی پھول تھے۔ پھول بھی گلابی۔ وہ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اپنے سائے میں بیٹھنے والوں پر گلابی پتیاں بکھیرتا رہتا تھا۔ ایک عالی ظرف جس کے پاؤں مٹی سے بندھے ہوں، اس سے زیادہ کیا مہمان نوازی کرسکتا تھا؟ دور سے دیکھو تو جنت نگاہ۔ قریب جاؤ تو فردوسِ نظر۔ انسان نے درختوں سے فائدے اٹھائے لیکن ان کی طرح اپنے ہاتھوں پہ اپنا دل رکھنا کم کم نے سیکھا۔
ان درختوں سے میں نے سیکھا ہے
اپنے ہاتھوں پہ اپنا دل رکھنا
لیکن اس مارچ میں ایک بار پھر ہم سڑک سے دریا کنارے اترے تو منظر اور تھا۔ درخت برہنہ بدن کھڑے تھے۔ سردیوں اور برف باریوں کا کڑا موسم جھیل کر صرف بے لباس شاخیں اور ٹہنیاں ہی ان کا اثاثہ تھیں۔ ہری رت ابھی ان سے ایک ڈیڑھ ماہ کے فاصلے پر تھی۔ فضا میں اس کی آہٹ تھی اور خال خال پتوں نے پر نکالنے شروع ہی کیے تھے‘ لیکن ریور واک کا مبہوت کن منظر اسی طرح تھا۔ ویسے تو سورج کی روشنی میں بھی دریا کا سبز پانی کسی زمردی حسین لباس کی طرح جھلمل کرتا ہے لیکن رات اترتے ہی دریا میں جن مبہوت کن روشنیوں کا رقص شروع ہوجاتا ہے ان سے نظریں نہیں ہٹائی جا سکتیں۔ دریا کنارے بلندوبالا عمارتوں میں ان گنت رنگوںکے قمقمے جل اٹھتے ہیں اور ان کی روشنیاں پانی میں جھلملاتی، ہلکورے لیتی رہتی ہیں۔ میرے ذہن میں کئی سال پہلے کا کہا ہوا شعر جھلملا رہا تھا۔
ایک ٹھہری ہوئی روانی میں
روشنی تیرتی ہے پانی میں
ریور واک کا اصل لطف عصر کے وقت کے بعد سے رات گئے تک ہے‘ اور اس وقت لوگ یہاں بڑی تعداد میں جاگنگ اور واک کیلئے آتے ہیں۔ شام سرد تھی اور سرد ہوا نے اسے آگ سی لگا رکھی تھی۔ پانی کی یخ سطح سے ٹکرا کر ہوا ہم سے گلے ملتی تھی تو جیکٹ ناکافی لگنے لگتی تھی۔ انسانی حسن ہر جگہ تھا۔ گوری رنگت پر دہکتے رخسار قدم قدم پر قدم روکنے کا تقاضا کرتے تھے۔ گلنار گالوں والی وہ خوبصورت لڑکی یاد رہے گی جو جاگنگ کرتی ہوئی سامنے سے آرہی تھی‘ اور جسے دیکھ کر غالب کا مصرعہ یاد آتا تھا:
چہرہ فروغِ مے سے گلستاں کیے ہوئے
ریور واک کا ٹریک دور تک دریا کنارے چلتا جاتا ہے۔ اس واک میں بات کرنے کا اپنا لطف تھا اور چپ رہنے کا اپنا مزا۔ اس شام ہم اس کے کنارے چلتے رہے حتیٰ کہ پاؤں جواب دینے لگے اور واپسی کا سفر دم لے لے کر کرنا پڑا۔ ہم اس جگہ واپس پہنچے جہاں سے ہمیں سیڑھیاں چڑھ کر سڑک پر جانا تھا‘ لیکن جائیں کیسے؟ منظر سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ ہم اس کے کنارے بیٹھ گئے اور تادیر فیروزی، زمردی پانیوں میں عکس رقص کرتے دیکھتے رہے اور جامنی سفید بطخوں کی تیراکی پر رشک کرتے رہے۔ ہم اس وقت اٹھے جب رات کے پنکھ پھیلنے لگے۔ میرے میزبان محبوب علی خان نے تجویز دی کہ ایک بارکشتی میں بھی اس دریا کی سیر کیلئے دوبارہ آیا جائے۔ یہ تجویز دل کی بات تھی‘ سوکچھ دن کے بعد اپنے فیاض میزبان کے ساتھ دوبارہ ادھر آئے۔ اس بار شکاگو کے ادبی حلقوں کی رونق جناب امین حیدر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ دریا میں سیاحوں کیلئے کشتیاں چلتی ہیں۔ دریا کے دونوں کناروں پر عمارتیں فن تعمیر کے عجوبوں سے کم نہیں۔ کشتی چلتی رہتی ہے اور گائیڈ ان کی انفرادیت بتاتا چلتا ہے۔ دریا کنارے چلنا اور دریا کے بیچ چلنا ایک ہی دریا کے دو الگ الگ ذائقے تھے۔ اور یہ دونوں ذائقے اب تک منہ میں گھل رہے ہیں۔
اور میں ان ذائقوں کو تاریخ کی نذر کیوں کروں۔ بس اتنا جان لیجیے کہ دریائے شکاگو جو دراصل دو تین دریا مل کر بناتے ہیں، 1887 میں اس طرح نہیں تھا۔ دریا میں بڑھتی ہوئی آلودگی نے یہ بڑا خطرہ پیدا کر دیا تھا کہ کوئی بڑی ہولناک وبا پھوٹ پڑے؛ چنانچہ دریا کا قدرتی بہاؤ روکنے کے لیے تین چار لاکس (Locks) بنائے گئے اور ایک 28 کلومیٹر لمبی نہر بنائی گئی جو مشی گن جھیل سے پانی لیتی ہے اور دریا کے بہاؤ کے بالکل مخالف ہے۔ دریا کے آلودہ پانی کا رخ موڑ دیا گیا تو شکاگو شہر پر خطرات بہت کم رہ گئے؛ چنانچہ اب دریائے شکاگو دریا اور نہروں کے ایک نظام کا نام ہے۔ ڈیڑھ صدی پہلے کا یہ کارنامہ منفرد اور یادگار ہے۔ یاد رہے کہ شکاگو اکتوبر 1887 میں ایک بڑی ہولناک آگ سے تباہ ہوا تھا‘ جس کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ یہ دراصل قدرتی حادثہ نہیں تھا بلکہ شکاگو کو نئے طور پر نئے سرے سے بسانے کیلئے یہ آگ دانستہ لگائی گئی تھی۔ اس ہولناک آگ میں‘ جس نے پورے شہر میں 17 ہزار عمارتوں کو جلا کر رکھ دیا تھا، صرف شکاگو واٹر ٹاور بچا تھا۔ میں پچھلی بار اس یادگار عمارت کو دیکھنے بھی گیا تھا۔ اس ہولناک آگ کی تصویریں دیکھ کر بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔ سعود میاں! زندگی خوب صورتی اور خوف ہی سے عبارت ہے۔
اس بار شکاگو میںکافی دن گزرے۔ ڈیوون سٹریٹ‘ جسے مزے سے دیوان سٹریٹ کہا جاتا ہے، پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی تارکین وطن کا گڑھ ہے۔ یہاں بھی بار بار جانا ہوا اور دیگر علاقوں میں بھی۔ کچھ نئے اور بہت خوبصورت مقامات بھی پہلی بار دیکھنے کو ملے۔ مورٹن آربوریٹم (Morten Arboretum) ایک وسیع علاقے پر پھیلا ہوا نباتاتی ذخیرہ ہے۔ گنجان آبادیوں میں دم گھٹنے لگے تو کھلے نظارے ہی یہ سانس بحال کرتے ہیں۔ مورٹن نامی کسی شخص کی جاگیر اب نباتاتی ذخیرہ ہے اور یہاں سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچتی ہے۔ جھیل کنارے جاگنگ ٹریک ہے۔ کھلے میدان جو مارچ میں تو جلی اور بجھی ہوئی گھاس کے میدان تھے، بہار اور گرمیوں میں سرسبز ہوکر لہلہا اٹھتے ہیں اور ہر نشیب و فراز پر گہرا، دبیز سبز قالین بچھ جاتا ہے۔ ایک میدان میں بلند قامت درختوں کی کانٹ چھانٹ کرکے بنائی گئی لکڑی کی وہ حسینہ کھڑی ہے جس کی آنکھیں اور چہرہ‘ اداس ہیں۔ اس کے ہاتھ اپنے سینے پر ہیں اور سینہ دولخت ہوچکا ہے۔ یہ دو ٹکڑے ہوچکی اداس لڑکی کن کیفیات کی علامت ہے‘ ہم شاعروں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved