ایک طرف لکی مروت سے ایبٹ آباد جلسہ گاہ تک پیدل پہنچنے والا پندرہ سالہ لڑکا رو رو کر عمران خان کو ایک نظر دیکھنے کا واویلا کر رہا تھا اور دوسری طرف بٹ خیلہ سے اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ اس قیا مت خیز گرمی میں بھوک اور پیاس کے ساتھ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بنی گالا کی جانب گامزن نوجوان تھا۔ یہ دونوں افراد اور وہ لاکھوں لوگ‘ جو اپنے روزگار‘ دن کا آرام اور راتوں کی نیند قربان کرتے ہوئے عمران خان کی ایک پکار پر اس کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کر رہے ہیں‘ یہ تحریک انصاف کا اثاثہ ہونے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے لیے ایک بہت بڑا امتحان بھی ہیں۔ یہ وہ بوجھ ہے جو خان صاحب کے کاندھوں پر لادا جا رہا ہے‘ یہ وہ قرض ہے جسے انہوں نے ایک دن ادا کر نا ہے۔ یہ ان کروڑوں انسانوں اور خان صاحب کا معاملہ ہے جو ایک دن خدا کے دربار میں بھی پیش ہو گا۔ اب یہ کپتان پر منحصر ہے کہ وہ اس قرض کی ادائیگی کرتا ہے یا ڈیفالٹر ہو جاتا ہے۔ عوام کو اگر دھوکا دیا گیا‘ انہیں اگر مایوس کیا گیا‘ اگر انہیں فصلی بٹیروں اور پے رول پہ کام کرنے والے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو یاد رکھیے گا کہ حساب بہت سخت ہو گا۔ ان کروڑوں مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کے ایک دن کا بدلہ کبھی نہیں چکایا جا سکتا جو تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکت کیلئے گھروں سے کئی کئی گھنٹے پہلے نکل کر جلسہ گاہ میں پہنچ رہی ہیں اور وہ بھی اس قیا مت خیز گرمی میں۔ اس تکلیف میں‘ گرمی کی حدت اور شدت سے بے نیاز‘ پیاس کی تڑپ سے بے پروا ہو کر وہ اقتدار کا حصہ بننے کیلئے نہیں‘ بلکہ عمران خان کو ان کا اقتدار لوٹانے کیلئے اپنا آرام‘ اپنا سکون قربان کر رہی ہیں۔
مسلم لیگ کے حامی سمجھے جانے والے ایک اخبار نویس نے مجھے کہا کہ دیکھو! ہمارے اور تمہارے لیڈر میں کتنا فرق ہے‘ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ماہ میں دو مرتبہ‘ ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھیج کر ہمیں بلایا‘ اچھے ہوٹلوں میں ٹھہرایا اور تم ساڑھے تین سال میں ایک مرتبہ وزیراعظم سے ملنے گئے اور وہ بھی اپنی ٹکٹ پر‘ اور اپنے خرچے پر اسلام آباد جا کر ٹھہرے۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ وہاں ایک ایسی شخصیت براجمان تھی جسے چند مخصوص ناموں کے سوا میڈیا پرسنز اور کالم نگاروں سے چڑ تھی۔ اب بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ پانچ‘ چھ افراد کے علاوہ کوئی صحافی خان صاحب کے قریب نہ دکھائی دے۔ میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کے باوجود میں نے کوئی سودا نہیں کیا اور اپنے ضمیر کو مطمئن رکھا۔ پی ٹی آئی کے میڈیا سیل سے وابستہ کچھ لوگ عمران خان کو دانستہ طور پر دیرینہ کارکنوں اور ساتھیوں سے دور کرنے اور عوام کو ان سے بددل کرنے کی کوششوں میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ اپنے تین بچوں کے ساتھ پیدل بٹ خیلہ سے بنی گالا آنے والے شخص کے متعلق میں نے ایک شخصیت سے صرف اتنا ہی کہا کہ اس روٹ کے مقامی لیڈران کو کہیں کہ اس جوان کو اپنے پاس بلا کر اچھا کھانا کھلائیں‘ اسے آرام کرنے کا کچھ وقت دینے کے بعد اس نوجوان اور اس کے بچوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر بنی گالا عمران خان سے ملوانے کے لیے لے جائیں تو اس شخص نے مجھے ایسے دیکھا جیسے اسے کوئی گالی دے دی ہو۔
عمران خان کو ان جاسوس اور مخبر قسم کے افراد سے بچ کر رہنا چاہیے جو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان کے سچے اور حقیقی ساتھیوں کی تضحیک کرنے میںمشغول ہیں۔ عمران خان نے فلم سٹار شان کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ ان کی والدہ انہیں بہت ہی بھولا اور سیدھا سادہ سمجھتے ہوئے انہیں باقی بچوں سے زیادہ وقت دیا کرتی تھیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک مردم شناس نہیں بن سکے۔ انہیں محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ اس وقت بھی ان کے اردگرد ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں بلکہ کچھ ایسے افراد ان سے نتھی ہو چکے ہیں جو ان کی ہر خبر ان کے مخالفین تک پہنچا رہے ہیں۔سابق ڈی جی آئی بی حاجی حبیب الرحمن نے منیر احمد منیر کو انٹرویو دیتے ہوئے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے چند سیاسی لیڈران کے متعلق جو انکشافات کیے تھے‘ وہ حقیقت تو ہیں ہی لیکن یہ اصل کے مقابل رتی برابر بھی نہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں پیپلز پارٹی کے صرف ان اراکین کے نام لیے جو بھٹو اور ان کی گرفتاری سے پھانسی کے بعد تک جیالوں کی خفیہ سرگرمیوں سے انہیںآگاہ کیا کرتے تھے‘ وگرنہ یہ ایک طویل فہرست ہے۔ پیپلز پارٹی کی احتجاجی تحریک کو غیر مؤثر کرنے میں انہی افراد نے بھرپور حصہ ڈالا تھا۔ جیالوں اور چھپے ہوئے لیڈروں کے خفیہ ٹھکانوں اور منصوبوں کو انہی افراد نے اپنے تھوڑے سے مفاد نے کے لیے افشا کیا تھا۔ اب ایسے ہی لوگوں کی ایک فوج عمران خان کے ساتھ نتھی ہو چکی ہے۔ ان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ ایسے لوگوں نے نہ تو پہلے اور نہ ہی اب‘ میڈیا کے علاوہ دوسرے بہت سے شعبوں میں عبور رکھنے والے مخلص اور وفادار لوگوں کو ایک لمحے کیلئے بھی خان صاحب کے قریب آنے کا موقع دیا ہے۔ یہ لوگ اپنے ساتھیوں کے علاوہ کسی کو بنی گالا میں گھسنے بھی نہیں دیتے۔ کیا اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر‘ جس کے دلائل کی گونج اور چلائے ہوئے تیروں سے علیم خان گروپ سمیت پوری مسلم لیگ نواز پریشان رہتی ہے‘ اسے بھی بنی گالا کے باہر لگائے گئے بیریئرز پر روک دیا گیا تھا۔ اندازہ کیجئے کہ اُس صوبائی وزیر کی اس وقت کیا حالت ہوئی ہو گی بلکہ اب تک اس کے دل پرکیا گزر رہی ہو گی۔
عمران خان کی حکومت‘ جو پہلے ہی دن سے اتحادیوں کی کاغذ کی کشتی پر سوار کرائی گئی تھی‘ کی مدت 2019ء کے آخر یا 2020ء کے اوائل میں ہی پوری کرنے کا پروگرام فائنل کر لیا گیا تھا لیکن وہ تو بھلا ہو کووڈ کی عالمی وبا کا‘ جس نے سیاست کے بھولے بادشاہ کو ڈیڑھ سال کی مہلت دلا دی‘ ورنہ سب کو یاد ہو گا کہ لگ بھگ ڈھائی سال قبل جب شہباز شریف لندن سے لوٹے تھے تو کچھ اینکرز سمیت مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈران ہر جگہ یہ اعلانات کرتے پھر رہے تھے کہ میاں شہباز شریف کی جیب میں پنجاب‘ صوبوں کے نئے گورنرز اور مرکزی کابینہ کے وزرا کی فہرست پڑی ہے۔ جن‘ جن کے نام اس فہرست میں موجود تھے وہ سب اچھل اچھل کر ہر ایک کو اپنی اہمیت اور موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ اس وقت کی سول بیورو کریسی کے لوگ بھی اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کیلئے مرکز اور پنجاب کی ہر فائل ماڈل ٹائون اور رائیونڈ بھیجنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان دنوں ہر طرف ''بس چند دن کی بات ہے‘‘ کا شور اپنے زوروں پر تھا لیکن پھر دنیا پر کورونا کی آفت نازل ہو گئی اور سب کچھ پسِ پشت چلا گیا۔
ٹی وی کے ایک مشہور ڈرامے کا کردار 'بھولا‘ ناظرین کو یاد ہو گا لیکن سیاست کے بھولے کی بات کریں تو پہلے دن ہی سے چند ایسے حضرات کو اہم ترین پوزیشن دیتے ہوئے‘ اس کے ساتھ نتھی کرا دیا گیا جنہوں نے ایک ایک کر کے بھولے کو اس کے مخلص ساتھیوں سے دور کرنا شروع کر دیا۔ اس گروپ نے تین‘ ساڑھے تین برسوں میں مرکز اور پنجاب سے ایسے تمام پولیس اور سی ایس ایس کیڈر کے افسران کو‘ جو تحریک انصاف کے نظریے کے حمایتی اور اس کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پوری محنت اور دیا نتداری سے اپنا کام کرنا چاہتے تھے‘ چند ماہ کی پوسٹنگ دلانے کے بعد یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ یہ مخالف پارٹی کے گروپ کا ہے۔ پھر ایسے مخلص افراد کو کہیں کھڈے لائن تو کہیں صوبہ بدر کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حالانکہ ان افسران کے متعلق ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ شریف حکومت کے ڈسے ہوئے تھے اور ان کا کسی گروپ اور شخصیت سے دور دور کا کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ جب تک ایسے سازشی عناصر سے جان نہیں چھڑائی جاتی‘ ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
عوام اب بھی عمران خان کے لیے خون بہانے کو تیار ہیں لیکن ان کیلئے نہیں جو بنی گالا اور خان صاحب کے نظریاتی ساتھیوں کو دھکے دینے میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved