بات ہماری نہیں‘ ہمیں تو سب پر یقین ہے‘ سب معتبر‘ معزز اور محترم ہیں۔ ہم نے زندگی گزارنے کا فن سیکھا تو نہیں‘ مگر ادھر ادھر سے جو فکر کی روشنی کی کرنیں ہمارے بند کمروں کو منور کرتی ہیں‘ یہ بتاتی ہیں کہ جہاں طاقتور گروہ منہ زور‘ معاشرے میں لوٹ کھسوٹ اور فساد پھیلانے کے لیے بے باک ہو جائیں تو احتیاط لازم ہے‘ مگر اتنا بھی نہیں کہ میدان ہمیشہ کے لیے ہم ان کے حوالے کر کے کسی کونے میں بیٹھ جائیں۔ ہمارا سب اداروں پہ بھرپور اعتماد ہے‘ جس کا ہر روز اعادہ ضروری ہے کہ کہیں خواہ مخواہ کسی کو شک نہ پڑے کہ دروازے کب اور کیوں کھلتے ہیں‘ کیوں بند بھی ہو جاتے ہیں۔ پارلیمان ہو یا اس کے معزز اراکین‘ میڈیا ہو یا سرکاری و غیرسرکاری ہرکارے‘ سیاسی زعما ہوں یا سیاست باز‘ سب پہ بھروسہ ہے۔ اس سے کہیں زیادہ ہم جب روزانہ کئی بار ان کو پریس کانفرنسوں‘ سکرینوں اور اخبارات کے پہلے صفحات پر جلوہ افروز دیکھتے ہیں‘ ان کی پُر مغز‘ سچی باتیں اور عوام اور ملک کے دکھ درد کی کہانیاں سنتے ہیں تو ان کے بارے میں ان کے دشمنوں کے پھیلائے ہوئے سب شکوک و شبہات ذہن سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اکثر فراغت کے اوقات میں اپنی خوش قسمتی پہ فخر ہوتا ہے کہ کیسے کیسے سیاسی قائدین ملک کو پچاس سالوں سے دن رات محنت کرکے سنوارنے میں ہمہ تن‘ مع اہل و عیال‘ دوست احباب اور اشاروں پہ ناچتے پھرتے کل پرزوں کے‘ مصروف ہیں۔ عزت تو ان کے لیے دل میں بنتی ہے کہ اس ملک کی ''ترقی‘‘ میں انہوں نے کئی عشرے لگا دیئے ہیں۔
ہم تو کچھ بھی نہیں‘ صرف سیاسی رنگ بازیوں کا دور سے نظارہ کرنے والے کہ اس کا 'چسکا لگا‘ ہوا ہے۔ کچھ اپنے پیشے کا بھی جبر ہے کہ سیاست کی تعلیم اور لکھائی پڑھائی سے ابھی تک روزگار وابستہ ہے۔ ہماری خوش فہمیاں اور احتیاط اپنی جگہ‘ مگر عوام کی رائے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ ان کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ پارلیمان اور انتخابی عمل کے بارے میں لوگوں کی سوچ یہ ہو کہ وہ صرف چند خاندانوں کے مفادات کے امین ہیں تو شاید سیاسی عمل کی صحت کی بحالی ناممکن ہو جائے۔ کوئی بھی دوا‘ کڑوی گولیاں‘ جادو ٹونا‘ تعویذ دھاگہ اور جن نکالنے کا پُرتشدد طریقہ کام نہ آ سکے۔ پاکستان کے موجودہ اور اس سے پہلے کے کئی بحرانوں کی بنیادی وجہ عوام اور معاشرے کے ذہن میں سیاسی خاندانوں کا غلبہ اور آئینی پردوں میں لپٹی شخصی اور مفاد پرستانہ سیاست کا گہرا نقش ہے۔ عمران خان کی سیاست نے ان میں جو رنگ بھرا ہے اور جو طوفان گزشتہ پچیس سالوں سے برپا کر رکھا ہے‘ اس نے باقی کسر بھی نکال دی ہے۔ کوئی سیاسی عمل ہو‘ عدالتی فیصلہ یا انتخابی مرحلہ‘ جائزیت اور قبولیت کا انحصار عوام کے اندر اعتماد پہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو آپ جو کچھ بھی کہتے رہیں‘ بے اثر رہتا ہے۔
جہاں تک عوام اور معاشرے کا تعلق ہے‘ وہ نمائندوں اور ایوانِ نمائندگان پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ حکومتیں ایسے ہی تبدیل ہوں جس آئینی انداز میں ہوتی رہی ہیں‘ خرید و فروخت کی منڈیاں ہوں جو کئی عشروں سے لگی ہوئی ہیں‘ بکنے کے لیے ہر ادارے کے اہلکار تیار ہوں اور خرید کرنے والوں کی طاقت آسمان کو چھو رہی ہو‘ تو اس کا کوئی ردِ عمل تو ضرور پیدا ہو گا۔ عزت و احترام اب ظاہری اور منافقانہ ہیں‘ دل ان سے لوگوں کا کب سے خالی ہو چکا۔ عوام تو بیچارے بھیڑ بکریاں ہیں‘ ان کو چھوڑیں‘ ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے موروثی سربراہوں کے قومی اداروں‘ انتخابات اور ایک دوسرے کے بارے میں اقوالِ زریں کیا آپ نے سنے نہیں؟ ہم بھی کتنے سادہ ہیں کہ مان لیتے ہیں کہ سیاست میں امکانات کی دنیا روشن رہتی ہے۔ یہ ایسا چراغ ہے جس کا ایندھن نہ کبھی ختم ہوا ہے‘ نہ ہو گا۔ گزارش ہے کہ یہ 'امکانات‘ ملکی مفاد میں ہاتھ آگے بڑھانا ہوتا ہے‘ گفت و شنید‘ مکالمے اور ایک دوسرے کو راستہ دینا ہوتا ہے‘ اور ہمیشہ ایک قدم آگے چل کر سیاسی مخالفین سے دوریاں دور کرنا ہوتا ہے۔ یہاں تو اس کے مطالب کچھ اور ہیں۔ سیاسی حریف اگر طاقتور ہو‘ آپ سے پچھاڑا نہ جا رہا ہو تو ان کے بھی قدموں میں بیٹھ جائیں جن کے بارے میں آپ نازیبا الفاظ اور زبان استعمال کرتے تھے۔ آگے بڑھنا قومی امور‘ معیشت‘ سلامتی‘ امن اور اداروں کو مضبوط کرنے کیلئے ہوتا ہے‘ نہ کہ اقتدار کی بندر بانٹ اور اس کے ذریعے وہی کچھ کرنے کیلئے جو ماضی میں ہمارے معززین کرتے چلے آئے ہیں۔
آج ہم جس ماحول میں ہیں اس میں کسی کو کسی پہ اعتماد نہیں رہا۔ اس وقت ملک میں کشیدگی‘ تنائو اور تصادم کی جو کیفیت ہے‘ کوئی ادارہ ملک کے اندر اب ہے جو ماحول کو ٹھنڈا کرکے اور سیاسی پہلوانوں کو اکھاڑے سے باہر نکال کر اس دائمی دنگل اور دنگا فساد کو ختم کرا سکے؟ مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا۔ ہم تو شروع سے ہی پارلیمان کو ایسا ادارہ سمجھتے رہے ہیں‘ جو دیگر ممالک میں یہ کردار ادا کرتا ہے‘ مگر ہماری پارلیمانی جمہوریت پر گرفت پارلیمان کی نہیں‘ چند سیاسی خاندانوں کی ہے۔ جمہوریت کے انتقام سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ طاقتور شخصیتیں تھیں‘ دھڑے بھی تھے‘ مگر سیاسی جماعتوں کے اندر دم خم بھی تھا۔ من مانی ایک حد تک تھی‘ اور کرپشن نے لوٹ مار کی صورت کبھی اختیار نہیں کی تھی۔ پارلیمان کو دیکھ لیں‘ اب کون چلاتا ہے یا چلاتے ہیں۔ مجھے تو الہ دین کا چراغ یاد ہے کہ جن چراغ کے دھویں سے لمبے بالوں اور بالیوں کے ساتھ نمودار ہوتا‘ اور جو اسے کہا جاتا‘ کرتا۔ ہم منحرفین اور قلابازیاں لگاتے اتحادیوں کی بات ہی نہیں کرتے کہ وہ تو سب آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں‘ انہیں وزارتوں‘ عہدوں اور ''ترقیاتی‘‘ فنڈز کی کبھی ضرورت تھی اور نہ ہی انہوں نے لیے ہیں۔ خود ہی بتائیں کہ پارلیمان کیا رول پلے کر سکتی ہے جب اس کی باگیں ایک دو مضبوط ہاتھوں میں ہوں۔ میرے نزدیک اس کی آزادی اور خود مختاری ان کی منشا کے تابع ہے جنہوں نے اس ملک کو اپنی سیاست میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔
عدلیہ کے بارے میں ہم بات نہیں کرتے‘ اور نہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے آئینی اور قانونی فرائض‘ انصاف کی فراہمی سب کے لیے یقینی بنائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا کریں کہ فیصلہ کسی فریق کے خلاف ہو تو وہ باتیں بناتا ہے‘ اور جس کے حق میں ہو وہ خوشی کے ترانے گاتا ہے۔ یاد ہے بڑی تحریک‘ آزاد عدلیہ کی تحریک تھی‘ جس میں ہم سب شامل تھے‘ اور ہم اب بھی ہیں کہ یہ آزاد ہو گی تو شاید ہم بحرانوں سے نکل پائیں‘ باقی تو ان ہاتھوں میں ہے جن کے بارے میں سوچ کر ملک کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا دل میں طوفان سا اٹھ جاتا ہے۔ میڈیا‘ صحافی‘ دانشور‘ معاشرہ اور ہم سب حالات کو کیسے معمول پر لا سکتے ہیں۔ ہم بھی بٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے اندر بھی تقسیم در تقسیم گھر کر گئی ہے۔ اعتماد کی بحالی کی طاقت اور ذمہ داری ہمارے سیاسی اکابرین‘ پارلیمان اور ریاستی اداروں کی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ایک نکتے پہ ہم سب کو اتفاق کر لینا چاہیے‘ وہ ہے 'چند ماہ میں انتخابات کا انعقاد‘ جو آزادانہ اور شفاف ہوں‘۔ اس بگڑے ہوئے ماحول میں اگر کسی جانب دھاندلی کی آواز بلند ہوئی تو پھر کئی برسوں تک استحکام پیدا ہو گا‘ نہ ہی ہمیں چین نصیب ہو گا‘ اور اس سے پہلے کہ کپتان کا لانگ مارچ وہ نہ ہو جائے جس کے بارے میں وہ الفاظ میں استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ بہانے چھوڑیں‘ انتخابی میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved