اٹھارہویں ترمیم سے پہلے پاکستان کے دستور میں صدر اور گورنر کے غیرملکی سفر کے بارے میں ایک شق موجود ہوا کرتی تھی کہ بیرون ملک جانے سے پہلے انہیں باقاعدہ اطلاع دینا پڑتی تھی۔ گورنر کیلئے ضروری تھا کہ وہ صدر کو بتاکر ملک سے باہر جائے تاکہ اس کی جگہ کسی کو قائم مقام لگایا جاسکے۔ اس شق سے جڑا ہوا ایک واقعہ خود میرے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے پہلے میں جس ٹی وی چینل کیلئے کام کرتا تھا، اس کے رپورٹر نعیم اشرف نے ایک صبح مجھے فون پر بتایاکہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کسی کو بتائے بغیرملک سے باہرچلے گئے ہیں۔ میں یہ خبر سن کرچونکا کیونکہ یہ سیدھی سیدھی آئین کی خلاف ورزی تھی۔ میں نے ان سے خبرکی تفصیلات اکٹھی کرنے کیلئے کہا اور خود بھی دفتر پہنچ گیا۔ میرے پہنچنے تک وہ خبر مکمل کرچکے تھے۔ میں نے اس پر ایک نظرڈالی اور نشر کرنے کیلئے کراچی بھیج دی۔ جیسے ہی یہ نشر ہوئی تو گورنر کی ممکنہ نااہلی پر گفتگو ہونے لگی۔ گورنر ہاؤس نے ہماری خبر کی تردید جاری کردی حتیٰ کہ ایک ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا کہ اس کا نمائندہ گورنر سے مل چکا ہے‘ لیکن ہم اپنی خبر پر قائم رہے۔ ان تردیدوں کے بعد ہمارے ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز پریشان ہوکر مجھے بار بار فون کرتے لیکن میں نے انہیں کہاکہ اس خبر کی تردید اسی وقت ہو سکتی ہے جب گورنر پاکستان کے اندر دکھائی دے۔ ایک طرف یہ معاملہ جاری تھا تو دوسری طرف اس وقت پنجاب کے وزیرقانون اور موجودہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پنجاب اسمبلی میں گورنر کی ممکنہ نااہلی پر تقریر کردی۔ صورتحال یہ بن گئی کہ گورنرہاؤس تردید کررہا تھا، صوبائی حکومت گورنر کا باہر جانا تسلیم کررہی تھی لیکن گورنر کا کچھ پتا نہیں تھا۔ ابھی یہ باتیں چل رہی تھیں کہ فیس بک پر کسی نے ایک غیرملکی ایئرلائن کے جہاز کے اندر سے لی ہوئی تصویر لگا دی، جس میں گورنر سلمان تاثیر دکھائی دے رہے تھے۔ ہماری خبر درست ثابت ہوگئی لیکن گورنر کے خلاف نااہلی کا ریفرنس نہیں بھیجا گیا اور وہ اپنے عہدے پر قائم رہے۔ اس واقعے کا ایک دلچسپ حصہ یہ ہے کہ بعد میں اس خبرکی اہمیت کم کرنے کیلئے سلمان تاثیر صاحب نے ایک ٹی وی چینل کو بیوقوف بھی بنایا لیکن یہ کہانی پھرکبھی سہی۔
ہمارے دستور کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے بیرون ملک سفر کی صورت میں کسی کو ان کا قائم مقام نہیں لگایا جاتا لیکن ان کی سہولت کیلئے مقامی اور عالمی قانون میں کئی گنجائشیں ہیں‘ مثلاً ہمارے وزیراعظم کسی ایسے طیارے یا کشتی میں ہیں جو پاکستان میں رجسٹرڈ ہے تو انہیں پاکستان میں ہی سمجھا جائے گا۔ اگروہ کسی دوسرے ملک میں پاکستان کے سفارتخانے میں ہیں تو بھی انہیں پاکستان میں ہی سمجھا جائے گا کیونکہ کسی بھی ملک میں رجسٹرڈ جہاز یا کشتی اور سفارتخانہ دراصل اسی ملک کی سرزمین کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی عالمی قانون کا فائدہ اٹھاکر امریکا کا صدر اپنے مشہور زمانہ ہوائی جہاز ایئرفورس ون میں بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی ملک سے جو حکم جاری کرے اس کی حیثیت وہی ہوتی ہے جیسے وہ وائٹ ہائوس سے جاری کیا گیا ہو۔ ان سب رعایتوں کے باوجود یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ کسی دوسرے ملک کے دارالحکومت میں جاکر امریکہ کے سیاسی یا انتظامی فیصلوں پر غور فرمائے گا۔ یہ احتیاط امریکا تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا میں کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک کا سربراہ اپنے ملک کے اندرونی معاملات کسی اجنبی سرزمین پر نہیں نمٹاتا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک کی سرزمین پراپنے ملک کے بارے میں فیصلے کرنے سے دو قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ دوسرے ملک کی سرزمین کے بارے میں اس کی ملکیت کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوسکتی ہے اور دوسری یہ کہ کوئی بھی ملک امکانی طور اپنی سرزمین پرموجود کسی بھی شخص کو اپنے قانون کے مطابق کسی کام سے روک سکتا ہے یا کوئی کام کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
اس پس منظر میں اب اگر میں آپ کو بتاؤں کہ برطانیہ کی حکمران جماعت کے رہبروقائد نے وزیر اعظم برطانیہ اور دیگر اہم وزرا کو لاہور میں کسی اہم اجلاس کیلئے طلب کرلیا ہے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ ظاہر ہے آپ مجھے پاگل، دیوانہ، بے پر کی اڑانے والا اور نجانے کیا کیا کچھ کہیں گے‘ اس لیے کہ آپ کو ایک ہزار فیصد یقین ہے کہ برطانیہ جیسے خودمختار ملک کا کوئی رہبروقائد چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، اپنی جماعت کا اجلاس لاہور، کراچی یا اسلام آباد میں نہیں بلا سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو ظاہر ہے اس کے بعد وہ کم ازکم برطانیہ میں تو سیاست کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ چلیے برطانیہ کے بارے میں تو آپ نے میری بات نہیں مانی لیکن آپ کو میں یہ خبر دوں کہ افغانستان میں طالبان کے امیر ملا ہبۃ اللہ نے اپنے وزیراعظم اور اہم وزرا کو مشاورت کیلئے کوئٹہ میں طلب کرلیا ہے تو پھر آپ مان لیں گے؟ آپ ایک بار پھر وہی اعتراضات لگا کر میری خبر مسترد کردیں گے جو برطانوی سیاست کے بارے میں اٹھائے تھے۔ آپ کہیں گے کہ افغان طالبان بیس برس تک امریکا کے خلاف لڑتے رہے، ان کے گھربار پاکستان میں رہے، خفیہ طور پر انہوں نے یہاں رہ کر جوکچھ بھی کیا ہو مگر اپنی حکومت کا باقاعدہ اجلاس افغانستان پر دوبارہ مکمل قبضے تک دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں کیا۔ افغانستان سے باہران کے جو بھی اجلاس ہوئے اس میں ان کی نمائندگی کرنے والے نے کبھی وزارت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ نمائندہ کہلوانے پر ہی اکتفا کیا۔ چلیے ان دو ملکوں کی بات چھوڑیں، صاف بات کرتے ہیں۔ میں اگر آپ سے پوچھوں کہ آسمان کے نیچے اس کرہ ارض پر وہ کون سا ملک ہے جس کی حکومت وزیراعظم سمیت بڑے آرام سے لندن جاکر اس ملک کے اندرونی سیاسی و انتظامی مسائل پر اجلاس کرتی ہے اور پھر اس کی پریس ریلیز بھی جاری کرتی ہے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ خدا آپ کا بھلا کرے، آپ کا جواب درست ہے۔ وہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس کے عاجز، فرمانبردار اور قانون و دستور کی ہیبت میں مبتلا شہریوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ یہ عاجزوں کا عاجز، فرمانبرداروں کا فرمانبردار اور قانون و دستور کی ہیبت میں مبتلاؤں کا مبتلا شہری یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ پاکستان کا وزیراعظم ملک کے اندرونی معاملات ایک غیرملکی سرزمین پر طے کرنے کیلئے چلا جاتا ہے؟
دل کی تسلی کی خاطر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کیلئے تاریخ میں سے کافی جواز لائے جا سکتے ہیں جن کی روشنی میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو متعدد وزرا کے ساتھ رہنمائی کیلئے لندن تشریف لے جانا عین حکمت ثابت ہوتا ہے۔ کچھ زیادہ زور لگا کرکوئی دلیل عالمی تاریخ کے ذریعے بھی گھڑی جاسکتی ہیں اوراسے اپنے اکابرین کی حکمت و دانائی پر برہان کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ تردّد کرکے میرے جیسے عوام کالانعام کا منہ تو بند ہوسکتا ہے مگر ملکی حمیت پرآئی خراش کی تکلیف کم نہیں ہوسکتی۔ کوئی شہباز شریف اپنے بھائی یا پیشوا سے ملنے کیلئے لندن ہزار بار بھی جائے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا مگریہاں سوال ایک وزیراعظم کا ہے۔ دستور نے وزیراعظم کے منصب کو جو توقیرواختیار بخشے ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ وہ تمام فیصلے پاکستان کی سرزمین پر ہی کرے۔ بیشک دستور نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ وزیراعظم اپنے وزیروں کے ساتھ ملک سے باہر نہیں جاسکتا لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے وزرا کے ساتھ کسی دوسرے ملک میں جاکر اجلاس نما بیٹھکیں برپا کرے۔ ان بیٹھکوں میں ملکی مسائل کے متعلق بات ہو اور پھراس اجلاس نما بیٹھک کا باقاعدہ اعلامیہ بھی پاکستانی وزیر اطلاعات اسی ملک سے جاری کرے۔ انیس سو تہتر کا دستور میری معلومات کی حد تک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی اس جیسی حرکتوں پر خاموش ہے اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ دستور بنانے والوں کے حاشیۂ خیال سے بھی یہ باہر تھا کہ ایک دن پاکستان کا وزیراعظم اپنے وزیروں کے ساتھ مملکتِ متحدہ برطانیہ کے ایک شہر میں بیٹھ کرعوام کی تقدیر کے فیصلے کررہا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved