خدا جانے کوئی ڈھکوسلا ہے‘ عذر ہے یا نالائقی کاجواز ہے۔ ہر دور میں حکمرانوں کی تان بس یہاں آکر ٹوٹتی رہی ہے کہ ملک انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے۔ پون صدی بیت چکی لیکن یہ نازک دور ہے کہ نہ گزرتا ہے نہ ہی یہ موڑ کہیں مڑنے کو تیار ہے۔ یوں لگتا ہے نازک دور ہو یا نازک موڑ‘ دونوں ہی جامد و ساکت ہوچکے ہیں اور ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ عوام کی حالت زار ہو یا حالات کا رونا‘ دونوں روز اول سے لمحہ موجود تک جوں کے توں اور جاری و ساری ہیں۔ یہ حقیقت بھی پوری طرح آشکار اور پورا سچ بن کر منہ چڑا رہی ہے کہ سیاسی اشرافیہ کو عوام کے حالات اور مسائل سے نہ کل کوئی سروکار تھا اور نہ ہی آج انکی ترجیحات یہ ہیں۔ ہردور میں اپنی نالائقیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے نازک دور اور نازک موڑ جیسے حیلے بہانے بنا کرعوام کو چونا لگانے والے سچی مچی خود نازک دور سے گزرنے کے ساتھ ساتھ نازک ہی نہیں‘ خطرناک موڑ پر پھنس چکے ہیں۔
زمانہ طالب علمی کی وہ کہانی تو سب کو یاد ہوگی کہ ایک چرواہا لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے شورمچایا کرتا تھا: بچائو بچائوشیر آیا۔ گائوں کے لوگ اس کی مدد کیلئے لاٹھیاں لے کر بھاگے چلے آتے تو وہ مدد کیلئے آنے والوں پر خوب ہنسا کرتا کہ اس نے ان سب کو کس طرح بے وقوف بنایا ہے۔ کئی مرتبہ بے وقوف بننے کے بعد گائوں والے اس کی اس حرکت سے عاجز آچکے تھے۔ ایک دن چرواہا بکریاں چرا رہا تھا کہ سچی مچی شیر آگیا۔ چرواہا بہت چیخا چلایا کہ شیر آیا شیرآیا‘بچائو بچائو۔ گائوں والے اس کی چیخ و پکار کے پہلے ہی عادی تھے‘ کسی نے اس کی پکار پر کان نہ دھرا اور شیر ایک ایک کرکے کئی بکریاں ہڑپ کرگیا۔ اس بار ہماری سیاسی اشرافیہ پر یہ کہانی فِٹ بیٹھتی ہے۔ اس مرتبہ شیر بھی سچی مچی آ گیا ہے اور وہ نازک دور بھی ان کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے جسے ڈھکوسلا بنا کرعوام کو بے وقوف بناتے چلے آئے ہیں۔ اقتدار کی چھینا جھپٹی اور گھمسان کے اس رَن میں کون کسے بیوقوف بنا رہا ہے اور کون کس مار پر ہے۔ سیاسی منظرنامہ دیکھ کر بے اختیار ایک شعر یاد آرہا ہے جو حالات کی عکاسی کا بھرپور استعارہ بھی ہے ؎
کون کس کو ڈس رہا ہے
سانپ بیٹھا ہنس رہا ہے
ایک دوسرے سے باربار ڈسے جانے والے ہوں یا مسلسل آزمانے والے‘ سبھی ایک دوسرے سے شاکی اور آج بھی ڈرے ہوئے ہیں‘ لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ کا یہ کمال ہے کہ اقتدار کے بٹوارے سے لے کر وسائل کی بندر بانٹ تک مفادات کے جھنڈے تلے سبھی ایک نظر آتے ہیں۔ کوئے سیاست کی میوزیکل چیئر کا کھیل ڈرامائی ہونے کے بعد انتہائی ڈرائونا بھی ہوچکا ہے۔ اس ڈرائونے کھیل نے ایسے ویسے کیسے کیسے اور کیسے کیسے ایسے ویسے بنا ڈالے ہیں۔ کوئے اقتدار کا نقشہ کھینچنے کیلئے مزید تبصرے کے بجائے ان اشعار کا سہارا برائے استعارہ پیش خدمت ہے۔
یہ مطالبوں کا خلوص ہے، یہ ضرورتوں کا سلام ہے
یہ نوازشیں نہیں بے غرض انہیں آپ سے کوئی کام ہے
پی ٹی آئی نے اپوزیشن کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے باہر میدان لگا لیا ہے۔ جوں جوں موسمی درجہ حرارت شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے توں توں سیاسی سورج بھی سوا نیزے پر آتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی حدت اور شدت آنے والے دنوں میں کیا کیا جھلساتی اور جلاتی ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ سماجی محفلوں سے لے کر شادی بیاہ کی تقریبات اور ٹی وی ٹاک شوز تک میں گالم گلوچ اور مارکٹائی کا کلچر متعارف کروانے والوں نے برسر اقتدار آکر بھی اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کیا۔ زبان و بیان سے لے کر قول و فعل سمیت طرز حکمرانی کے ایسے انداز اپنائے گئے کہ کلچر ہی بدل ڈالا۔ وزیروں اور مشیروں کی شعلہ بیانیاں ہوں یا اشتعال انگیزیاں۔ الزام تراشیاں ہوں یا زیب داستاں۔ اپوزیشن کے لتے لینے والوں کے درمیان مقابلے کا سماں دکھائی دیتا تھا کہ کون کتنی بڑی گالی اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرسکتا ہے۔ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار اپنی کارکردگی پر توجہ کرنے کے بجائے اپوزیشن نامہ گاتے بجاتے گنوا ڈالا۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل اکثر مشیر منتخب وزیروں پر حاوی اور مسلسل اثر انداز ہوتے رہے۔
کہیں گورننس بانجھ ہے تو کہیں سسٹم اپاہج دکھائی دیتا ہے۔ کہیں قول و فعل کی حرمت پامال ہے تو کہیں عمل تضادات کا شکار ہے۔ نیت سے لے کر معیشت تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک سب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ نہ منصب کا لحاظ ہے نہ آئین کی پاسداری۔ قانون کی حکمرانی ہے نہ کہیں اخلاقی و سماجی قدروں کا پاس۔ احترامِ آدمیت ہے نہ تحمل و بردباری۔ احساسِ ذمہ داری‘ رواداری اور وضع داری جیسی صفات تو کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل کررہے گئے ہیں۔ عناد‘ بغض اور کینہ دلوں میں چھپائے چہروں پر نمائشی اور مصنوعی مسکراہٹیں سجائے کس قدر ڈھٹائی سے منافقانہ معانقے کرتے پھرتے ہیں۔ روزِ اول سے لمحۂ موجود تک حکمرانوں کی قابلیت معمہ ہے اور یہ معمہ حل ہونے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بے کس عوام کتنی دہائیوں سے ان کی طرزِ حکمرانی کے اثرات سے مسلسل بدحال ہوتے چلے جارہے ہیں۔ برسہا برس بیت گئے کتنے ہی حکمران بدل گئے لیکن عوام کے نصیب بدلتے نظر نہیں آتے۔
ملک بھر میں کہیں تماشے تو کہیں سہم کا عالم ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی کے نتیجہ میں ملک کو سچی مچی کے نازک دور اور موڑ سے دوچار کرنے والے کہیں ملک و قوم کو اس اندھے کنویں میں نہ دھکیل ڈالیں جہاں سے نکلنا تو درکنار آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ حکمرانی کے لیے ملک درکار ہوتا ہے۔ ریاست کے اداروں اور تنظیمی ڈھانچہ کوڈھانچے میں تبدیل کرنے کے بعد کیسی حکومت اور کہا ں کی حکمرانی؟ ملک کی خیر مانگنے کے بجائے اس کی سالمیت اور استحکام کو شوق حکمرانی کی بھینٹ چڑھانے والوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو بھیڑ چال کا شکار قوم نما رعایا کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ زمینی حقائق کے برعکس گمراہ کن بیانیوں سے عوام کو ایک بار پھر جھانسا دے کر مینڈیٹ تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ناقابل تردید ان تلخ حقیقتوں کو بھی ہرگز نہیں جھٹلایا جا سکتا جسے سمجھنے کی حس خدا جانے کہاں کھو گئی ہے۔ بیانیہ فروشوں کے طرز حکمرانی سے لے کر پالیسیوں اور اقدامات تک۔ برطانیہ اور امریکہ سے درآمد شدہ نامعلوم اہلیت کے حامل مشیروں کو شریک اقتدار کرکے حساس وزارتوں کے اہم ترین فیصلوں کو ان کے رحم و کرم چھوڑنے سے لے کر ان کی صفر کارکردگی کا ڈھول بجانے پر سبکی اور جگ ہنسائی کا سامنا کرنے تک سبھی کچھ سازش اور مداخلت جیسے ٹاپ ٹرینڈ بیانیے کی کھلی نفی ہیں۔ امریکی اور برطانوی شہریت کے حامل مشیر کس ڈھٹائی سے امریکی مخالف سیاسی دھندہ کرکے عوام کو بیوقوف بنائے چلے جا رہے ہیں۔
عوام کے درد میں بے حال ہونے والے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی جلسے میں شعلہ بیانی کے دوران امریکہ اور برطانیہ کی شہریت واپس کرنے کا اعلان کریں اور اسی طرح گرین کارڈ بھی نذر آتش کر ڈالیں جس طرح دھرنوں میں بجلی کے بل جلایا کرتے تھے۔ بیوی بچے امریکہ میں‘ نوکریاں امریکہ میں‘ تنخواہیں ڈالروں میں اور شوقِ حکمرانی پاکستان میں۔ تعجب ہے۔ یہ کھلا تضاد نہیں بلکہ کھلا دھوکا اور سنگین سازش ہے۔ یہ سیاسی بازیگر تو اپنی چالیں چلتے اور کرتب دکھاتے رہیں گے۔ کئی نسلیں بچپن سے بڑھاپے تک جا پہنچیں اور بڑھاپے سے قبروں میں جا سوئیں، اس سارے عرصے میں وہ بس یہی سنتی رہیں کہ ہمارا ملک کبھی نازک دور سے گزر رہا ہوتا ہے۔ یقین جانئے آج مملکت خداداد سچی مچی نازک دور سے گزرنے کے ساتھ اس نازک موڑ پر آن کھڑی ہے۔ سچی مچی شیر آ گیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved