تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     13-05-2022

نوجوانوں کا سیاسی استعمال

پاکستان کی سیاسی اور معاشی تقدیر کا فیصلہ اگر کسی کے ہاتھ میں ہے تو وہ نوجوان ہیں۔ پاکستان کی آبادی بائیس سے پچیس کروڑ کے مابین ہے اور اس آبادی کا پینسٹھ سے ستر فیصد افراد ان نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں پینتیس برس سے کم ہے۔ یہی وہ پاکستانی ہیں جو آئندہ اس ملک کا سیاسی اور معاشی رُخ طے کریں گے۔ اس وقت پوری دنیا میں ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا‘ ہر شعبے میں تیزی سے گھستے چلے جا رہے ہیں۔ چند برس قبل تک ہم روتے تھے کہ بچے کتابیں اور اخبار وغیرہ نہیں پڑھتے اور نہ ہی ٹی وی پر خبریں دیکھنا پسند کرتے ہیں‘ اب انہی بچوں کو پاکستان سمیت دنیا بھر کی خبروں کا ہم سے پہلے پتا ہوتا ہے۔ اس میں مثبت پہلو بھی ہے اور خطرناک بھی۔ خطرناک اس لیے کہ سوشل میڈیا اور طرح طرح کی ایپس کے ذریعے یہ خبریں اپنی اصل شکل میں نہیں پہنچتیں۔ تصاویر اور وڈیوز کی ایڈیٹنگ کر کے جس طرح مسالے دار کیپشن ان خبروں میں شامل کر دیے جاتے ہیں‘ جنہیں میمز کہا جاتا ہے‘ اس سے نوجوان نسل کی آرا پر اثر انداز ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ کام بھی نوجوان ہی کر رہے ہیں۔پھر جو خبر جس وقت بریک ہوتی ہے‘ وہ چند منٹوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑوں‘ اربوں افراد تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور اگلے روز اخبار میں آنے تک سب کو معاملے کا پتا چل چکا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر جس طرح کمنٹس کیے جاتے ہیں اور اپنی آرا کا برملا اظہار کیا جاتا ہے‘ اس میں بھی اب کچھ ڈھکا چھپا نہیں رکھا جاتا۔ سنجیدگی نام کی کوئی چیز وہاں پائی نہیں جاتی۔ آپ کسی موضوع کو چھیڑ کر دیکھیں یا اس پر اپنی کوئی رائے دیں‘ چند لوگ ایسا کمنٹ کریں گے کہ آپ توبہ کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے۔ یہ انتہائی خطرناک ٹرینڈ ہے۔ جیسا میں نے شروع میں کہا کہ سوشل میڈیا پر ہر وقت رہنے والے نوجوان ہی آئندہ کا سیاسی لائحہ عمل طے کریں گے اور اب بھی یہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی ہی ایسی سیاسی جماعت ہے جو ان نوجوانوں کے جذبات اور ان کی توانائیوں کو بڑے شاطرانہ انداز میں استعمال کر رہی ہے۔ ٹین ایجرز یا بیس سے تیس سال کی عمر کے نوجوان اس کا خاص ہدف ہیں۔ یہ بچے پرانی اور روایتی سیاست سے اس لیے بھی بیزار ہیں کیونکہ اس میں انہیں وہ جدیدیت اور چارم نظر نہیںآتا جو پی ٹی آئی کے جلسوں اور سیاست میں دکھائی دیتا ہے۔ انہیں خان صاحب اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ وہ دِکھنے میں اچھے ہیں‘ سمارٹ ہیں‘ ورزش کرتے ہیں‘ ستر برس کا عمر میں بھی پچاس سال کے لگتے ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کا واحد ورلڈ کپ جتوایا تھا‘ کینسر کے علاج کے لیے ہسپتال بنایا‘ یونیورسٹی بنائی، انگریزی اچھی بول لیتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان کے جلسوں میں جس طرح ایونٹ مینجمنٹ کی جاتی ہے اس کا بھی کوئی جواب یا مقابلہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں سے اگر میوزک اور گانے نکال دیے جائیں تو ایسے لوگ جو صرف اس لیے ان جلسوں میں جاتے ہیں کہ چلو تھوڑی آئوٹنگ ہو جائے گی‘ شاید وہ ان جلسوں میں جانا چھوڑ دیں۔
دوسری جانب وہی پرانے سیاسی چہرے ہیں‘ وہی آصف علی زرداری ہیں ‘ وہی نواز شریف اور وہی مولانا فضل الرحمن ہیں جو نئی نسل کی پیدائش سے بھی قبل سے سیاست کر رہے ہیں، ان میں نئی نسل کو کوئی چارم اور کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ ان کا سٹائل بھی نوجوانوں کو نہیں بھاتا۔ نئی 'ٹک ٹاک نسل‘ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کتب بینی کرے‘ مطالعہ کرے اور اس کے بعد ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے سیاست کے بارے میں اپنی کوئی رائے بنائے۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتی ہے۔ صبر نام کی کوئی چیز اس میں موجود نہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات کو دیکھ کر فوری رائے قائم کر لیتی ہے۔ حالانکہ حالات کا تجزیہ ماضی کی مثالوں اور تجربات کو سامنے رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ مبینہ خط ہی کا معاملہ دیکھ لیں۔ حکومت کے گرائے جانے پر خان صاحب عوام میں مظلوم بن کر ہر جگہ سازش کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جبکہ ان کی پونے چار سالہ حکومت کی خراب کارکردگی اور بیڈ گورننس کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ عوام بھی جذبات کے ریلے میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ نئی نسل کسی مسئلے پہ رائے دیتے وقت اور فیصلہ سازی میں انتہائی جلد بازی سے کام لیتی ہے۔ اسی طرح کا انداز سیاسی حکمرانوں کو منتخب کرنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے بھی اپنایا جا رہا ہے۔
جو خان صاحب کے سپورٹرز ہیں‘ وہ ان کی ہر بات کو من و عن سچ تسلیم کرتے ہیں۔انہیں اس بات پر کوئی ملال نہیں کہ خان صاحب ماضی میں کیا کہتے تھے اور اب کیا کہتے ہیں۔ ویسے قسمت بھی خان صاحب کے ساتھ ہی کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ جب بھی کوئی بڑی مشکل آتی ہے‘ وہ اس میں سے بچ نکلتے ہیں۔ ان کی حکومت جولائی 2018ء میں اقتدار میں آئی تھی جبکہ کورونا کی وبا مارچ 2020ء میں پاکستان پر حملہ آور ہوئی تھی۔ ان بیس مہینوں میں انہوں نے جو اقدامات کیے اور جس طرح کی گورننس دکھائی‘ وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سانحہ ساہیوال پیش آیا تو اس پر خاموشی اختیار کی گئی‘ ادویات کا سکینڈل آیا‘ چینی کی قیمتیں چند ماہ میں آسمان پر پہنچ گئیں‘ روپے کی بے قدری ہوئی‘ یہ سب کچھ ان کی حکومت کے پہلے بیس ماہ کے دوران ہوا۔ جس طرح ابتدا ہی میں ڈی پی او پاک پتن کو معمول کی ڈیوٹی کرنے پر سرزنش کی گئی اور من پسند افراد کو تعینات کیا گیا‘ یہ سب کچھ بھلانا پڑ گیا کیونکہ کورونا آ گیا تھا۔ ابتدائی بیس ماہ کی بیڈ گورننس کورونا کے کارپٹ کے نیچے چھپا دی گئی اور اس کے بعد تو ایک مستند جواز ہاتھ آ گیا کہ پوری دنیا بشمول جدید ممالک بھی اگر معاشی طور پر کمزور ہوئے ہیں تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ خدا خدا کر کے کورونا ختم ہوا تو ایک بار پھر بیڈ گورننس کا شور بلند ہونے لگا‘ اسی دوران پی ڈی ایم فعال ہوئی اور عدم اعتماد کا شور مچ اٹھا‘ جو بہرحال کورونا کی طرح ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی حکومت کے داغ دھونے میں معاون ثابت ہوئی۔ وہ حکومت جو اپنے ہی بوجھ تلے دبتی جا رہی تھی اور آئندہ انتخابات میں جس کی شکست صاف لکھی نظر آ رہی تھی‘ اسے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ختم کر کے دوبارہ بانس پر چڑھا دیا گیا اور یہ ایسی چڑھی کہ اب نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
بدقسمتی سے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کا جو اصل استعمال ہونا چاہیے تھا‘ اس طرف کوئی نہیں آ رہا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں ٹیکنالوجی اور فری لانسنگ وغیرہ کے کئی اچھے منصوبے شروع کیے تھے لیکن وہ زیادہ تر پنجاب کی حد تک محدود تھے۔ پی ٹی آئی کو تین سال بعد خیال آیا کہ نوجوان بھی ملک و قوم کا غالب حصہ ہیں‘ ان کے ووٹ ہی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے‘ انہیں جلسوں میں بلا کر نعرے بھی لگوانے ہیں تو انہوںنے بھی ساڑھے تین سال بعد 'سٹارٹ اَپ انکیوبیشن سنٹر‘ کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ الیکشن کے لیے تو نوجوانوں کا بھرپور استعمال کیا گیا لیکن بعد میں انہیں کس طرح سے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا راستہ دکھانا ہے‘ اس کا پی ٹی آئی نے بیس‘ بائیس سال میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ ایک القادر یونیورسٹی بنائی تھی جس کا کوئی اتا پتا نہیں‘ حالانکہ اس وقت ضرورت ٹیکنالوجی سے جڑی یونیورسٹیوں کی تھی ۔ ان باتوں سے اب کسی کو سروکار نہیں کہ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہے۔ اب تو بس انہیں الیکشن چاہئیں‘ وہ بھی اپنی مرضی کے چاہئیں۔ نوجوان کیا چاہتے ہیں‘ انہیں اس سارے کھیل میں آخر میں ملتا کیا ہے‘ اس کی کسی کو پروا نہیں۔ پی ٹی آئی سمیت سبھی جماعتیں اقتدار کی بریانی کھانا چاہتی ہیں‘ اس کشمکش میں چاہے ساری دیگ اُلٹ جائے‘ ان کی بلا سے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved