تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     15-08-2013

شہر کے باسیو…اب بہت ہوچکا !

مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ ہرمہینے کے اپنے خدوخال ہوتے ہیں، اپنے رنگ ہوتے ہیں جو ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔ جیسے جنوری کا چہرہ، دھند میں بھیگا ہوا، ٹھٹھرا ہواسالگتا ہے، دسمبر اداس شال میں لپٹا دکھائی دیتا ہے۔ فروری پیلے پھولوں میں رچا بسا، بسنت اور بہار کی آمدکا اعلان کرتا ہوا مہینہ ہے۔ مارچ اپریل پھولوں سے لدے،مشکبارمہینے ہیں۔ جولائی بارشوں میں نہایا ہوا، حبس آلود مہینہ ہے۔ اگست، حبس موسم کے باوجود نئے جذبے اور نئے ولولے بیدار کرتاہوا مہینہ ہے۔ اس کے چہرے پر سبز ہلالی پرچم کی تحریر ہے۔ اس کے دامن میں آزادی کے روشن باب کی تصویر ہے۔ یہ وہ داستان ہے جو حقیقی معنوں میں خون سے تحریر کی گئی۔ یہ وہ کشور حسین ہے، جس کے حسن کی تابناکی کے لیے سینکڑوں مقدس عزتوں کی رواتیں تار تار ہوئیں۔ یہ وہ پاک سرزمین ہے، جس پر مال واسباب ، گھر بار اور جائیدادوں کو وار کرصدقہ دیا گیا۔ ایک ہی خواب سینکڑوں آنکھوں نے دیکھا اور پھر اس خواب کو تعبیر میں ڈھالنے کا سفر آغاز ہوا۔ میرے بزرگوں کو کیسا شاندار میرکارواں میسر آیا تھا۔ جس کی رہنمائی میں پاک سرزمین کا خطہ وجود میں آیا۔ وہ وقت بھی کیسا ہوگا۔ جب ہجرتوں کے مارے ہوئے تہی دامن لوگوں کے حوصلے چٹانوں جیسے مضبوط اور بلند تھے۔ سفر کا آغاز کیسا شاندار تھا۔ ایک خواب کے پیچھے اپنی مال ومتاع واردینے والوں کا قافلہ تھا۔ آج وہی سرزمین پاک ہے مگر ہم زوال کی ایک عجیب داستان تحریر کررہے ہیں۔ ستاسٹھ برس پہلے جو بھیڑ قوم میں ڈھل کر ایک خواب کو تعبیر کرنے میں کامران ہوئی تھی۔ آج وہی قوم پھر سے ایک بھیڑ، ایک بے ہنگم ہجوم میں بدل چکی ہے۔ جو پاکستان ہماری نسل کو ملا وہ زخم خوردہ تھا۔ تقسیم شدہ تھا۔ اس کا آدھا وجود کٹ چکا تھا۔ ہم نے وہ وقت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا شاید اس لیے سقوط ڈھاکہ کا غم اس طرح محسوس نہیں ہوتا جیسے ان محب وطنوں کو جنہوں نے ایک جسم کو دوحصوں میں بٹتے دیکھا اور پھر رفتہ رفتہ زوال کی جانب سفر تیز ہوتا گیا۔ جو دکھ میری نسل کے لوگوں کے حصے میں آیا وہ خوابوں کے ٹوٹنے اور آئیڈیل کے چکنا چور ہونے کا دکھ ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزری مگر پھر بھی ہمارے بچپن کا وقت آج سے بہت مختلف تھا۔ یوم آزادی کو جس طرح ہم ایک جشن کی صورت میں مناتے تھے شاید آج کل کے بچے اس سے محروم ہیں۔ اس وقت وطن کا چہرہ دہشت گردی سے لہولہان نہیں تھا۔ شہر شہر مقتل نہیں سجے تھے۔ گلیاں، گھر، بازار اور مسجدیں امن کی جگہیں تھیں۔ بدقسمتی سے آج امن کی پناہ گاہوں پر موت اور خوف کے بھیانک سائے ہمہ وقت لرزتے رہتے ہیں۔ جگہ جگہ موت کا کاروبار ہے۔ جنازے اٹھاتے بازوشل ہوچکے ہیں۔ سانحے اتنے بڑھے کہ نوحے کم پڑ گئے۔ ہرروزبے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ ایک دہائی ہونے کو آئی ہے ، دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے۔ اہلِ اقتدار کی بے حسی اور کوتاہی کہ اب تک اس پر کوئی ٹھوس حکمت عملی ، کوئی مربوط اور مضبوط پالیسی نہیں بن سکی۔ اعلان تو ہرحکومت نے کیا جو محض اعلان ہی رہا۔ اور حکمران اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر دہشت کا یہ کھیل دیکھتے رہے۔ حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کس طرح اس عفریت کو قابو کیا جائے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں نے وطن عزیز کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اب ہرزبان پر ایک ہی سوال ہے کہ نئی حکومت اس سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔ وزیرداخلہ کی پریس کانفرنس میں کچھ حوصلہ افزا اعلانات ہوئے ہیں کہ اس ماہ میں آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جارہی ہے۔ امید ہے کہ اس بار اے پی سی نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔ مسئلے کے حل کی طرف یہ تو صرف ایک قدم ہوگا وگرنہ دہشت گردی جیسے بڑے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم میں سے ہرشہری کو اپنا اپنا انفرادی کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس سلسلے میں عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ دہشت گرد ہمارے ہی جیسے لوگ ہیں، جو ہمارے آس پاس رہ کر ان بھیانک سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنے گلی محلوں، ہمسائیوں پر اگر گہری نظر رکھی جائے، کوئی مشکوک سرگرمی اور مشکوک افراد نظر آئیں تو اس کا فوری نوٹس لیا جائے۔ اس کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی جائے۔ سنا ہے کہ اب دہشت گردی کے خلاف ریپڈ فورس بھی بنائی جائے گی۔ اس فورس کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور اور آگاہی پھیلانے کے لیے بھی کوئی ادارہ بنانا چاہیے، سکولوں اور کالجوں کی سطح پر بھی آگاہی پھیلانے کا پروگرام ہونا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم ایک سوچ پر یکجا ہو کر اس عفریت کو شکست دے سکے۔ اس بار تو عید کا خوشیوں بھرا تہوار بھی لہولہان گزرا۔ ایسے حال میں کبھی کبھی امید بھی دل گرفتہ دکھائی دیتی ہے۔ ایسے ہی کسی ایک لمحے میں اعجاز رضوی نے دل کا حال کہتی ہوئی نظم ’’شہرآشوب‘‘ کہی جو وطن کی حالت زار پر ہردرد مند پاکستانی کا نوحہ ہے۔ شہر کے باسیو! اوک میں جتنے حرفِ دعا تھے‘ بکھرنے لگے آنگنوں کے کنویں خوں اگلنے لگے شہر کے باسیو اپنے آنگن میں کیاری سجائومگر سوچ لو شہر کے باغ تک اصطبل بن چکے اپنی سڑکوں پہ گھومومگر سوچ لو سیرگاہوں پہ شاہی سپہ خیمہ زن ہوچکی اپنے گھر سے جنازے اٹھائو مگر دیکھ لو گھر سے باہر سبھی راستے خون نہائے ہوئے شہر کے باسیو، اب بہت ہوچکا اب زمیں گل نہ مہکائے گی اور گھٹائیں برسنے سے پہلے ہی تحلیل ہوجائیں گی شہر کے باسیو مہرباں باسیو! اپنے ہتھیار رکھ دو بہت ہوچکا !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved