جنوبی ایشیا ایک وسیع خطہ ہے اور دنیا کی بائیس فیصد سے زیادہ آبادی اسی خطے کی ریاستوں میں رہتی ہے۔ اس میں سات ریاستیں شامل ہیں جن میں دفاعی اور اقتصادی طاقت کے حوالے سے شدید اختلافات اور آبادی میں تغیر پایا جاتا ہے۔ یہ ایک کثیر لسانی خطہ ہے جس میں صرف بھارت اور پاکستان میں ایک سو سے زیادہ زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ان دونوں ممالک اور سری لنکا کی سیاست میں زبان کا مسئلہ نمایاں طور پر چھایا رہا ہے۔ یہ کثیرالمذاہب خطہ بھی ہے۔ روایتی طور پر جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ شامل ہیں؛ تاہم جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک) نے بنیادی طور پر بھارت کی پہل پر اپریل 2007 میں افغانستان کو اپنا رکن تسلیم کیا اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی دیگر ریاستیں سارک میں افغانستان کو شامل کرنے پر رضامند ہو گئیں۔
موجودہ دور کے بین الاقوامی نظام میں، علاقائی تعاون ایک انتہائی قابل تعریف سفارتی عمل ہے؛ تاہم جنوبی ایشیا اس معاملے میں ناکام ہے۔ یہ خطہ‘ خطے کی ریاستوں کے درمیان تعاون کے حوالے سے کمزور ہے۔ جنوبی ایشیا کی مشرقی ریاستوں کا باقی دنیا کے ساتھ اپنے خطے کی نسبت زیادہ مؤثر اقتصادی اور سفارتی تعامل ہے۔ سب سے بڑا تنازع بھارت اور پاکستان کے مابین ہے جس نے علاقائی تعاون کی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سارک ممالک کی سربراہی کانفرنس کئی سالوں تک نہیں ہو سکی کیونکہ یہ اسلام آباد میں ہونا تھی اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے۔
جنوبی ایشیا کے کئی نمایاں خدوخال ہیں۔ پہلا، علاقائی سلامتی کا کوئی مشترکہ وژن نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا کی ریاستیں خطے کے باہر سے درپیش سکیورٹی کے خطرے کے بارے میں مشترکہ نظریہ نہیں رکھتیں۔ جنوبی ایشیا کی کچھ ریاستیں خطے کے باہر سے درپیش مشترکہ خطرات سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف تحفظ چاہتی ہیں۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت کی منفی پالیسیوں کی شکایت کی جاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین سکیورٹی کا مسئلہ سب سے سنگین ہے۔ ان کے سکیورٹی انتظامات کا بڑا حصہ ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ بھارت کو چین کے ساتھ سنگین سکیورٹی اور سفارتی مسائل درپیش ہیں۔ دونوں کے مابین اکتوبر 1962 میں جنگ ہو چکی ہے اور اب بھی وقتاً فوقتاً سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ بھارت جنوبی ایشیا اور اس سے آگے چین کے کردار کو محدودکرنے کے لیے امریکی اتحاد میں شامل ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں۔ دونوں اقتصادی ترقی، ٹیکنالوجی کی منتقلی، عالمی اور علاقائی سفارتکاری کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور دفاعی پیداوار میں ان کا باقاعدہ تعاون ہے۔ پاکستان چین سے اسلحہ اور فوجی سازوسامان حاصل کرتا ہے۔ سب سے نمایاں مشترکہ منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے۔ چین اور پاکستان‘ دونوں ان تعلقات اور سی پیک کو اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت چین کو ایک مخالف کے طور پر دیکھتا ہے لیکن پاکستان چین کو ایک دوست اور مددگار ملک تصور کرتا ہے۔
بھارت رقبے، آبادی اور فوجی طاقت کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ علاقائی بالادستی چاہتا ہے اور جنوبی ایشیا کی دیگر ریاستوں کے خارجہ پالیسی کے معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ جنوبی ایشیا کی ریاستیں باقی دنیا کے ساتھ ایسے تعلقات کو آگے نہ بڑھائیں جو بھارت کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے سے متصادم ہوں اور یہ ممالک خطے سے باہر کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے بھارت سے مشورہ لیں۔ جنوبی ایشیا میں کمانڈنگ کردار ادا کرنے کی بھارتی خواہش نے اکثر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر رکھا ہے۔
جنوبی ایشیا کی سبھی ریاستوں کو کسی نہ کسی وقت بھارت کے ساتھ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ واحد استثنا بھوٹان ہے جو دیگر ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے بھارت سے رہنمائی حاصل کرنے کے معاہدے کا پابند ہے۔ یہ روایت انگریزوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ نیپال سمندر تک رسائی کیلئے بھارت پر انحصار کرتا ہے۔ اس کی زیادہ تر بین الاقوامی تجارت بھارت کے راستے ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحد اپنے شہریوں کے سفر کیلئے کھلی رہتی ہے۔ بھارت پر اقتصادی انحصار کے باوجود نیپال نے ایک آزاد خارجہ پالیسی برقرار رکھی ہے‘ جس کی وجہ سے ہند نیپال تعلقات میں تناؤ رہتا ہے۔ بھارت نیپال کی خارجہ پالیسی کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے اکثر اس کے بازو مروڑتا رہتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو اس خطے میں کمانڈنگ کردار ادا کرنے کی بھارتی کوششوں کی مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ ایک طاقتور اور ثابت قدم بھارت خطے میں امن اور استحکام کی ضمانت ہے اور ایک مضبوط بھارت جنوبی ایشیا کی ریاستوں کو خطے سے باہر کی ریاستوں کے دباؤ سے بچا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بھارت کا خیال ہے کہ ایک مضبوط بھارت جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا ضامن ہے۔ پاکستان بھارت کے پیشگی تسلط کے ذریعے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے تصور پر سوال اٹھاتا ہے۔ پاکستان باہمی احترام اور دیگر ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے‘ اور یہ کہ امن و استحکام کی شرائط باہمی مشاورت سے وضع کی جانی چاہئیں‘ اور یہ کہ ہر ملک کی حساسیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔ کوئی ملک اگر حجم، آبادی اور فوجی طاقت کی وجہ سے دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو علاقائی امن کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔
جنوبی ایشیا واحد خطہ ہے جہاں تین ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ مشترک سرحدیں رکھتی ہیں اور ان کے باہمی تعلقات میں مسائل ہیں۔ چین، بھارت اور پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار اور ان کے ترسیلی نظام موجود ہیں۔ چین نے اکتوبر 1964 میں پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔ بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ مئی 1974 میں کیا تھا۔ اس کے بعد 11 اور 13 مئی 1998 کو پانچ ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ پاکستان نے بھارت کے خطرناک ارادوں کو بھانپتے ہوئے اس کے ردِ عمل میں 28 اور 30 مئی کو چھ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ پاکستان کی جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت بھارت کی جوہری اور روایتی فوجی طاقت کے خلاف پاکستان کو ایک قابل اعتماد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت نے بھارت کی روایتی فوجی برتری کو بے اثر کر دیا ہے۔ اگر بھارت مئی 1998 میں جوہری تجربہ نہ کرتا تو پاکستان اپنی جوہری صلاحیت کو عوامی سطح پر ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا مقصد بھارت کی روایتی اور جوہری صلاحیت کو روکنا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کا مقصد پاکستان اور چین کو محدود کرنے کے علاوہ عالمی طاقت کا درجہ حاصل کرنا ہے۔
جنوبی ایشیا کی ریاستوں نے انسانی بہبود اور سماجی ترقی میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت غربت اور پسماندگی کی انتہائی مثال پیش کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس بڑے صنعتی بیس اور ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی غربت نظر آتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات اور تناؤ کم ہو جائیں اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں، پاکستان اور بھارت کی مرضی کے مطابق حل کر لیا جائے تو جنوبی ایشیا میں انسانی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی کیلئے علاقائی تعاون کی بہت گنجائش ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved