تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     14-05-2022

صارفین کا معاشرہ

پاکستان ایک صارفین کا معاشرہ یعنی Consumer Society بن چکا ہے۔ ہم اپنی پیداوار سے کہیں زیادہ صرف کرتے ہیں۔ ہمارے حکومت کے اخراجات اور قرضوں پر سود فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جمع کردہ محصولات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہماری درآمدات برآمدات سے متجاوز ہیں۔ اس طرح ہمیں دو طرح کے خساروں کا سامنا رہتا ہے: تجارتی خسارے کے مسائل (Balance of Payment Problem) اور مالیاتی خسارہ (Fiscal Deficit)۔ اول الذکر مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے پاس جاتے ہیں اور دوسرے خسارے کو پورا کرنے کے لیے اندرونی قرضے لیتے ہیں اور یہ اس کے باوجود ہے کہ حال ہی میں ایف بی آر نے ریکارڈ محصولات جمع کیے ہیں۔
میں نے ایک ماہرِ معاشیات دوست سے سوال کیا کہ ہم اپنی ٹانگیں چادر سے زیادہ پھیلانے کے عادی کیوں ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ مسلمان عمومی طور پر شاہ خرچ واقع ہوئے ہیں۔ دلیل کے طور پر ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں شرح بچت 19 فیصد جبکہ پاکستان میں صرف 10 فیصد ہے۔ میں نے سوال کیا کہ بنگلہ دیش والے بھی تو مسلمان ہیں؟ تو کہنے لگے کہ بنگالی ہم سے زیادہ کفایت شعار ہیں۔ اس پر مجھے کالج کا زمانہ یاد آ گیا۔ مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے طالب علم خاصی سادہ زندگی گزارتے تھے۔
پاکستان نے آغاز سے مغرب کے سرمایہ دارانہ ماڈل کی پیروی کی جبکہ انڈیا نے سوشلسٹ ماڈل اپنایا۔ ہماری سڑکوں پر 1950ء کی دہائی میں شیورلیٹ اِمپالا (Chevrolet Impala) گاڑیاں فراٹے بھر رہی تھیں جبکہ انڈیا میں لوکل اسمبل شدہ گاڑی ''ہندوستان‘‘ چلتی تھی۔ اُن کے وزرا بھی یہی عام سی گاڑی استعمال کرتے تھے۔ سنا ہے کہ ہمارے جاگیردار اور وڈیرے گزوں سے ناپ کر گاڑیاں خریدا کرتے تھے کہ کار بہت لمبی ہونی چاہئے۔ آزادی کے تقریباً چالیس سال بعد ہمارے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو احساس ہوا کہ حکومت افسروں کی گاڑیوں پر بہت خرچ کر رہی ہے؛ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ سینئر افسران بھی سوزوکی گاڑی استعمال کریں گے‘ لیکن یہ فیصلہ مختصر سے عرصے کے لیے بادلِ نخواستہ قبول کیا گیا اور لمبی لمبی گاڑیاں پھر سے واپس آ گئیں۔ اگر ہم نے جونیجو صاحب کی پالیسی کو مستقل مزاجی سے فالو کیا ہوتا تو آج کشکول لے کر نہ پھر رہے ہوتے۔
کنزیومر سوسائٹی کی بنیاد تو صدر ایوب کے دور میں رکھ دی گئی تھی۔ افسران کو آسان قسطوں پر مورس مائنر ( Morris Minor) کار ملنے لگی۔ معاشرے میں دکھلاوے کا صرف یعنی Conspicuous Consumption فروغ پانے لگا۔ لوگ وسیع و عریض پلاٹوں پر گھر بنانے لگے‘ لیکن ایوب خان کے زمانے میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) بھی بنی‘ کئی نئی صنعتیں لگیں۔ سرمایہ کاری میں کراچی کے میمن‘ چکوال کے سہگل اور چنیوٹ کے شیخ آگے آگے تھے۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنے۔ چاول اور گندم کے نئے بیج آئے تو پاکستان غذائی لحاظ سے بڑی حد تک خود کفیل ہو گیا۔ بینکنگ میں ترقی ہوئی پاکستان کے پلاننگ کمیشن نے شاندار منصوبے بنائے۔ بعد میں جب اقتصادی فیصلے سیاسی مفادات کی بنا پر ہونے لگے تو پلاننگ کمیشن غیر فعال ہو کے رہ گیا۔
پاکستان کی اقتصادی ترقی میں پرفارمنس اتنی بُری نہیں رہی۔ ہماری قومی پیداوار 1947ء کے مقابلے میں آج چھ گنا ہے‘ لیکن ہماری آبادی 1947ء کے مقابلے میں آج سات گنا ہے اور اسی وجہ سے ہم غربت کم کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں اگر غربت بڑھی ہے تو ثروت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے تیس چالیس سالوں میں اَپر مڈل کلاس بھی بنی ہے‘ مگر ہماری اَپر کلاس میں دکھلاوے کے اخراجات کا رجحان عام ہے۔ کروڑوں کی گاڑیاں چل رہی ہیں‘ شادی کا ایک جوڑا لاکھوں کا بن رہا ہے اور اب تو Destination Wedding کے لیے باراتیں بیرون ملک جا رہی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ اشرافیہ لارنس پور کا بنا ہوا کپڑا شوق سے خرید کر سوٹ سلواتی تھی۔ اب ہماری سوٹنگ کا کپڑا بھی یورپ سے آ رہا ہے۔ ہمیں اپنی گندم کی بنی ہوئی ڈبل روٹی اب پسند نہیں‘ ہماری اشرافیہ اب امپورٹڈ سیریل (Cereal) اور پنیر سے ناشتہ کرتی ہے۔ زیتون کی کاشت شکر ہے ہمارے ہاں شروع ہو گئی ہے لیکن زیتون کا تیل اب بھی امپورٹ ہوتا ہے۔ ہماری سلائی مشینوں کی سوئیاں تک باہر سے آ رہی ہیں۔
اگلے روز میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں مچھلی خریدنے گیا تو مجھے سالمن (Salmon) مچھلی نظر آئی۔ سالمن فش کا شغف مجھے یونان کی پوسٹنگ میں شروع ہوا تھا۔ وہاں ہر اچھے ریسٹورنٹ کے مینیو میں یہ مچھلی شامل ہوتی ہے۔ صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ میں نے دام پوچھے تو ہوش اڑ گئے۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ امپورٹڈ ہے۔ آج کل گھروں میں ٹائل لگوانے کا رواج عام ہے۔ یہ ٹائلیں فرش پر بھی لگتی ہیں اور غسل خانوں میں بھی‘ بلکہ اب تو گھروں کے سامنے بھی لگ رہی ہیں۔ یہ اکثر و بیشتر یورپ یا چین سے امپورٹ ہو رہی ہیں۔ میں جس ریڑھی والے سے فروٹ لیتا ہوں اُس کے پاس میں نے اپریل کے وسط میں سندر خانی انگور دیکھے‘ قیمت پوچھی تو میری پہنچ سے باہر تھی۔ حیرانی اس بات کی بھی تھی کہ انگور کا موسم تو جولائی میں شروع ہوتا ہے۔ پوچھا کہ انگور کہاں کا ہے؟ تو پتہ چلا کہ انڈین ہے اور افغانستان کے راستے آ رہا ہے۔
یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی‘ زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات ہم سے زیادہ ہیں۔ ان کی برآمدات میں 84 فیصد گارمنٹس ہیں جبکہ وہاں کپاس کاشت ہی نہیں ہوتی۔ اس انڈسٹری میں زیادہ تر عورتیں کام کرتی ہیں اور بنگالی عورتیں بہت محنتی ہیں۔
دنیا کے ممالک صرف اشیائے صرف اور مشینری ہی برآمد نہیں کرتے چند ممالک نے انسانی سرمایہ (Human Capital) ایکسپورٹ کر کے بھی بہت فوائد حاصل کئے ہیں۔ ہمارے سامنے دو مثالیں چین اور انڈیا کی ہیں‘ جہاں سے پڑھے لکھے اور ہنر مند اشخاص مغربی ممالک گئے‘ جو وہاں کمایا وہ اپنے ملکوں میں واپس لائے۔ اس سے اُنہیں خود بھی فائدہ ہوا اور ان کے ممالک کو بھی۔ مگر اعلیٰ پائے کی ورک فورس باہر بھیجنے کے لیے ٹاپ لیول کی ٹیکنیکل تعلیم ضروری ہے۔ انڈیا نے اس تعلیم کا بندوبست پنڈت نہرو کے زمانے میں امریکہ کی مدد سے کر لیا تھا‘ ہم تعلیم کے میدان میں انڈیا سے خاصے پیچھے ہیں۔ انڈیا کی ایک بڑی ایکسپورٹ فارماسیوٹیکل یعنی دوائیں ہیں۔ پاکستان میں دوائیں یا تو امپورٹ ہوتی ہیں یا ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے ہاں بناتی ہیں اور منافع پاکستان سے لے جاتی ہیں۔
جس کاغذ پر میں یہ کالم لکھ رہا ہوں وہ بھی امپورٹڈ ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ چین سے ساٹھ بسیں کراچی ٹرانزٹ سسٹم کے لیے پہنچ گئی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایٹمی اثاثے بنا سکتے ہیں تو بس یا کار کیوں نہیں بنا سکتے؟ مجھے لگتا ہے کہ ٹیکنیکل تعلیم کا پست معیار اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کو صارفین کا معاشرہ بنانے میں ہماری حکومتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ مجھے یاد ہے وزیر اعظم شوکت عزیز کے زمانے میں بینکوں نے گاڑیاں خریدنے کے لیے دھڑا دھڑ قرضے دیے اور ملک میں ایک مصنوعی خوش حالی آئی۔ پاکستان میں ٹیلنٹ موجود ہے‘ تحریک انصاف کی حکومت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات میں خوب اضافہ ہوا۔ اکانومی کو بہتر کرنے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔ ہم ہمیشہ کے لیے صارفین کا معاشرہ نہیں رہ سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved