پاکستان میں چاروں اقسام کے موسم پائے جاتے ہیں‘ اس لیے یہاں چرند‘ پرند کی بھی مختلف اقسام موجود ہیں۔ اکثر صبح میری آنکھ پرندوں کی چہچہاہٹ سے کھلتی ہے۔ اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول یہ پرندے ماحول کی خوب صورتی کئی گنا تک بڑھا دیتے ہیں جبکہ ماحول کے لیے از ضروری بھی ہیں۔ ہمیں اپنے ایکو سسٹم کا خیال رکھنا ہے کیونکہ حتمی طور پر انسانی زندگی اور بقا بھی ایکو سسٹم پر ہی منحصر ہے۔ جو لوگ اسلام آباد و نواح میں رہائش پذیر ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ مارگلہ ہلز پر بہت سی اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں۔ فوٹوگرافر اور برڈ واچنگ کرنے والے بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ایسے رنگ دیکھنے اور ایسی ایسی مسحور کن اور پیاری آوازیں سننے کو ملتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
میرے گھر کے باہر ایک درخت ہے‘ جس پر بیریز لگتی ہیں جو ہم انسان نہیں کھاسکتے۔ میں ہمیشہ سوچتی تھی ان کے گرنے سے سارا پورچ گندا ہو جاتا ہے‘ اس درخت کو اوپر سے کٹوا دینا چاہیے مگر ایک دن جب میری صبح کے وقت اس درخت پر نظر پڑی تو میں حیران رہ گئی کہ بلبل‘ مینا اور طوطے اس درخت پر موجود‘ اس کا پھل کھارہے تھے۔ انہوں نے منہ میں دو دو بیریز رکھی ہوئی تھیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر اتنی دیر تک ہنستی رہی‘ پھر میں نے کیمرے سے یہ منظر محفوظ کرلیا۔اس کے بعد کبھی اس درخت کو تراشنے کا خیال نہیں آیا۔ درخت جتنے گھنے ہوتے ہیں‘ اتنے ہی زیادہ پرندے ان میں اپنا مسکن رکھتے ہیں۔ مارگلہ ہلز میں بہت بڑی تعداد میں ہجرتی پرندے آتے ہیں‘ جو کچھ عرصہ یہاں رہتے ہیں اور پھر اپنے وطن کو لوٹ جاتے ہیں۔ ہم سب کو ان پرندوں کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے ملک میں مہمان کے طور پر آتے ہیں۔ ان کی نسل کو معدوم ہونے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ یہ پرندے یہاں پر انڈے دیتے ہیں‘ یہاں سے خوارک حاصل کرتے ہیں‘ اپنی نسل بڑھاتے ہیں‘ ہمارے ملک کے قدرتی حسن میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور پھر موسم بہتر ہونے پر اپنے ملک لوٹ جاتے ہیں۔
پاکستان میں یہ پرندے ویٹ لینڈز پر قیام کرتے ہیں۔ سرد موسموں سے بچنے کے لیے وہ ہمارے جیسے متعدل اور گرم ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ویٹ لینڈز کیا ہیں؟ یہ تازہ پانی کے ذخائر ہوتے ہیں جن کے اردگرد زرخیز مٹی‘ پودے‘ ہریالی‘ درخت اور چرند پرند ہوتے ہیں۔ ویٹ لینڈز میں جھیلیں‘ ساحلی علاقے‘ دلدلی علاقے‘ ندی نالے اور دریا کے ڈیلٹا وغیرہ شامل ہیں۔ان سب چیزوں کی موجودگی سے ہی ایک ایکو سسٹم مکمل ہوتا ہے۔ ویٹ لینڈز یعنی آب گاہوں کی دو بڑی اقسام ہیں؛ ساحلی آب گاہیں اور اِن لینڈ آ گاہیں۔
آب گاہوں کی زمین بہت زرخیز ہوتی ہے‘ ان کی مٹی زراعت میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ جگہیں جانوروں اور ہجرتی پرندوں کی آماجگاہ ہوتی ہیں۔ یہاں پر بہت سے درخت اور سبزہ ہوتا ہے جو جنگلی حیات کا مسکن ہوتا ہے۔ ان پانی کے ذخیروں میں آبی مخلوق رہتی ہے جبکہ یہ جگہیں چرند پرند کی خوراک کے حصول کا بھی ذریعہ بنتی ہیں‘ اسی لیے ہجرتی پرندے یہاں آکر چند ماہ رہتے اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے اونچے ترین ویٹ لینڈ زبھی موجود ہیں جن میں کورمبر جھیل اور شائوسر جھیل شامل ہیں۔ دیگر قابلِ ذکر آب گاہوں میں استولا آئی لینڈ، میانی ہور، جیوانی کوسٹل لائن، اومارہ ساحل، حب ڈیم، دریگ لیک، ہالے جی لیک، انڈس ڈیلٹا، کینچھر جھیل، رن آف کچھ، چشمہ بیراج، تونسہ بیراج، ہیڈ ورکس مرالہ، راول لیک، ہیڈ ورکس رسول، جبھو لگون، نلتر،لولوسر لگون، ٹنڈا ڈیم اور کلر کہار وغیرہ اہم ہیں۔ یہ پرندوں کی افزائش کے مقامات ہیں یہاں پر جنگلی حیات اور پرندوں کو نقصان پہنچانے کی یا ان کے شکار کرنے پر سختی سے پابندی عائد ہونی چاہیے۔
پاکستان کے مقامی پرندوں کی طرف دیکھیں تو ان میں چڑیا، چکور، کوئل، بلبل، الو، عقاب، شاہین،کبوتر، طوطا، مینا، فاختہ، سرخاب، کوا، بطخ، ہنس، مرغابی اور مور وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ نایاب پرندے جیجیل اور تلور بھی پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں پرندوں کی ہجرت کے سات روٹ موجود ہیں اس میں سے جو پاکستا ن سے گزر رہا ہے‘ وہ گرین روٹ یا انڈس فلائی زون کہلاتا ہے۔ سائبریا‘ روس اور چین کے سرد علاقوں سے پرندے یہاں آتے ہیں اور کچھ ماہ یہاں گزار کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔
اگر ہم مارگلہ ہلز کی بات کریں تو برڈز فوٹوگرافر زہران سیار کے مطابق‘مارگلہ ہلز میں بہت سے پرندے آتے ہیں جن میں ایشین پیراڈئز، فلائی کیچر، روفوس بیلیڈ نلٹاوا، ریڈ بلڈ، لائیو تھریکس، نیل کنٹھ اور بلیو کیپ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ یہاں پر کچھ عرصہ گزارتے ہیں، یہاں انڈے دیتے ہیں اور پھر اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بار ہیڈ گوس، گرے لیگ گوس، کامن شلڈک نارتھ شولور، ایوریشن ویگن، گریٹر فلیمنگو،ایشین اوپن بل، ولی ینک سٹروک، بلیک ہیڈ ایبس اور سپون بیل جیسے پرندے بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ میں نے جب ان پرندوں کے اردو نام ڈھونڈنے کی کوشش کی تو علم ہوا کہ بہت سے پرندوں کے نام اردو میں موجودہی نہیں، ہمیں اس پر بھی کام کرنا چاہیے۔ ہجرتی پرندوں کے تین گروپس ہوتے ہیں‘ ان میں واٹر برڈز، لینڈ برڈز اور برڈز آف پرے شامل ہیں۔ برڈز آف پرے یعنی رپیٹرز میں عقاب‘ شاہین‘ باز اور گدھ جیسے پرندے شامل ہیں۔ورلڈ امیگریشن برڈز کے مطابق ریپٹرز کی 93 سے زیادہ اقسام ہجرت کرتی ہیں۔ اگر لینڈ برڈز کی بات کریں تو ان میں کوئل‘ فاختہ‘ ابابیل اور بلبل جیسے پرندے شامل ہوتے ہیں۔واٹر برڈز میں بطخیں، ہنس راج، سپون بلز، مرغابی اور دیگر شامل ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاںلوگوں کی بڑی تعدادتلور‘ مرغابیوں اور تیتر وغیرہ کا شکار کرتی ہے۔ اس پر پابندی ہونی چاہیے۔ اگر ان پرندوں کا تحفظ نہ کیا گیا تو ان کی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔ پاکستان کی آب گاہیں ان کا مسکن ہیں‘ ہمیں ان کی بھی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ جھیلوں‘ جنگلات اور سنچریوں میں ہجرتی پرندوں کا معائنہ کیا جائے‘ ان کی آنے اور جانے کی تعداد پر نظر رکھی جائے۔ ان کی افزائش کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جائے۔ اس وقت بہت سے پرندے معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں‘ ان کے شکار پر سخت سزا اور بھاری جرمانہ کیا جانا چاہیے‘ اس کے علاوہ یہاں پر بلاگرز، وی لاگرز اور فوٹوگرافرز کو مدعو کیا جائے کہ وہ ان کی فوٹواور وڈیو گرافی کریں اور ان کے بارے میں بلاگز لکھیں؛ تاہم ضروری ہے کہ پرندوں سے مناسب فاصلہ رکھا جائے اور ان کے قدرتی ماحول میں دخل نہ دیا جائے‘ان کو افزائش کا موقع ملنا چاہیے۔
ہر سال 14 مئی کو ہجرتی پرندوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے‘ اس بار یہ دن اس تھیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ پرندوں کو روشنی کی آلودگی سے بچایا جائے۔اس بار اس دن کا سلوگن ہے کہ رات کے وقت روشنیاں ہلکی کردیں تاکہ ہجرتی پرندے متاثر نہ ہوں۔ بیشتر پرندے اپنا سفر رات کے وقت کرتے ہیں مگر آرٹیفشل لائٹس اور تیز روشنیاں ہجرتی پرندوں کو ان کے روٹ سے بھٹکا سکتی اور ان کی پرواز کو متاثر کرسکتی ہیں اس لیے ہم سب کو پرندوں کو رات میں روشنی کی آلودگی سے بچانا ہوگا۔ بیشتر ہجرتی پرندے پاکستان میں روس اور سائبریا کی طرف سے آتے ہیں جو موسم سرما یہاں گزار کرواپس چلے جاتے ہیں۔پاکستان میں 380 سے زائد اقسام کے ہجرتی پرندے آتے ہیں۔اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں کہ یہ کتنی تعداد میں آتے اور کتنی تعداد میں واپس جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مؤثر کام کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو آگاہی بھی دینی چاہیے کہ وہ ان مہمان پرندوں کا شکار نہ کریں‘ نہ ہی ان کو نقصان پہنچائیں۔ یہ پرندے اس دنیا کا حسن ہیں اور ایکو سسٹم کے لیے لازم ہیں ‘اس لیے ان کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ہمیں ان کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہو گا۔ ان کی بقا کو یقینی بنانا ہو گا اور ان کی افزائش کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہو گا۔محکمہ وائلڈ لائف کو اس حوالے سے فعال کریں‘ انہیں فنڈز دیں۔ نیز تیتر‘ تلور اور مرغابی وغیرہ کے شکار پر مکمل پابندی لگانی چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved