پاکستان میں گزشتہ پچھتر سالوں کے دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں، آئین کے مطابق بھی، اور آئین سے ماورا بھی۔ ایک زمانے میں تو پنڈت جواہر لال نہرو کا یہ (مبینہ) قول ہر خاص و عام کی زبان پر تھا کہ وہ اپنی دھوتی اتنی جلد تبدیل نہیں کرتے، جتنی جلد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو جاتی ہے۔ آزادی کے بعد بھارت میں پنڈت نہرو وزیراعظم منتخب ہوئے تھے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ آزادی سے پہلے ہی اِس منصب پر فائز ہو چکے تھے۔ برطانوی راج کے زیرسایہ جو مخلوط عبوری حکومت بنائی گئی تھی، اس میں مسلم لیگ کے وزرا شامل تھے، اور کانگرس کے بھی۔ اس کی سربراہی پنڈت جواہر لال نہرو کے حصے میں آئی تھی۔ آزادی کا اعلان ہوا تو بھارت میں حکومت کا تسلسل جاری رہا۔ نئی دہلی اس کا دارالحکومت تھا، بنی بنائی اور جمی جمائی حکومت نے فوراً اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیے۔ جواہر لال نہرو تحریک آزادی کے رہنما تھے۔ کانگرس میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ گاندھی جی کے بعد ان کا نام سب سے معتبر تھا۔ وہ مرتے دم تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر موجود رہے۔ سترہ سال ان کا سکہّ چلتا، اور ان کا ڈنکا بجتا رہا۔
پاکستان نامی ملک نوزائیدہ تھا، اس کی نہ کوئی حکومت تھی، نہ دارالحکومت، اسے عمارت بنیاد سے اٹھانا پڑی۔ سول سروس کے برطانوی تربیت یافتہ افسروں نے یہ کام کر دکھایا۔ چودھری محمد علی حکومتِ پاکستان کے پہلے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے (بعدازاں یہ عہدہ ختم کردیا گیا) ان کی اور ان کے فرض شناس رفقا کی اَن تھک محنت نے یہ کرشمہ برپا کر دیا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ ان کی شخصیت نے گورنر جنرل کے منصب کو بھی رسمی یا روایتی نہ رہنے دیا، اسے بھاری بھرکم بنا دیا۔ لیاقت علی خان آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر طویل عرصے تک فرائض ادا کرتے رہے تھے اور قائداعظم کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ قائداعظم کے زیر سایہ ان کی رٹ بھی جاری ہو گئی۔ قائداعظم ایک سال بعد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو چار سال کے بعد گولی کا نشانہ بنا ڈالا گیا۔ اس کے بعد پاکستانی سیاست یتیم اور اس کے ادارے بے قابو ہوگئے۔ سیاستدان ناتجربہ کار تھے۔ سول سروس منظم اور تجربے سے مالامال تھی‘ سو فیصلہ سازی میں اس کا کردار بڑھتا چلا گیا۔ وزیراعظم اور گورنر جنرل کے مابین کھینچا تانی میں بیوروکریسی کا وزن گورنر جنرل کے پلڑے میں پڑا، اور یوں وزیراعظم پر زمین تنگ ہوتی گئی۔ قومی اسمبلی (یا دستوریہ) میں مسلم لیگ کو بلا شرکتِ غیرے اکثریت حاصل تھی۔ کانگرس کے چند ارکان کے علاوہ کوئی حزبِ اختلاف کے بنچوں پر نہیں تھا۔ 1954ء تک معاملہ یہی رہا، لیکن گروہ بندیوں اور سول سروس کی دخل اندازیوں نے وزارتِ عظمیٰ کو مذاق بنا کررکھ دیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے جب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تو ریاستی مشینری وزیراعظم کے بجائے گورنر جنرل کے ساتھ کھڑی تھی۔ مسلم لیگ کے جغادری لیڈر بھی نئے مقرر کردہ وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت میں شرکت کیلئے دوڑ پڑے۔ یوں وزیراعظم کو نکوّ بنانے کا آغاز ہوگیا۔ گورنر جنرل‘ جس کا تقرر کابینہ کرتی تھی، وزیراعظم اور کابینہ پر حاوی ہوتا گیا۔ بات زیادہ پھیل گئی، کہنا یہ مقصود تھا کہ 1958ء کے مارشل لا سے پہلے اور اس کے بعد کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ وزیراعظم نامی مخلوق کی کئی بار مشکیں کسی گئیں، لیکن کسی تبدیلی پر ردعمل کا غیرمعمولی مظاہرہ دیکھنے میں آیا، نہ کسی سابق وزیر اعظم نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ جس طرح کرکٹ کا کوئی کھلاڑی آئوٹ ہونے کے بعد پویلین میں واپس آ جاتا ہے، اسی طرح گردن جھکائے وزیراعظم بے چارے بھی واپس آتے رہے۔
1977ء کے مارشل لا کے بعد دستور بحال کیا گیا تو اس میں ترمیم کرکے صدر کے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا۔ بحرانی حالت میں صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کے اعلان کا حق مل گیا۔ یہ اختیار جو انتہائی دگرگوں حالات میں استعمال کیا جانا مقصود تھا، بے محابا استعمال کیا گیا۔ سب سے پہلے تو ضیاالحق ہی نے اپنے بنائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا۔ وہ بیچارے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کیلئے بھی تیار نہ تھے۔ انہوں نے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔ بعدازاں ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا، تو یہ کہہ کر ان کی حکومت بحال کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ بہت دیر ہو چکی ہے، نئے انتخابات قریب آ پہنچے ہیں، اس لیے انکے انعقاد میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ جونیجو کے خلاف اقدام غیرآئینی قرار پانے کے باوجود کالعدم نہ ہوا، اسکے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں صدارتی اختیار کے تحت ختم کی گئیں، لیکن وہ ہنگامہ نہ اٹھا، جو اب دیکھنے میں آرہا ہے۔ سابق وزیر اعظم کپڑے جھاڑ کراٹھتے اور معمول کی سرگرمیاں شروع کرتے دیکھے گئے۔ عدالت میں پہنچے، یا عوام میں، وہ ہاہاکار البتہ نہ مچی جو اب دیکھنے میں آرہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اگرچہ قومی اسمبلی میں باقاعدہ تحریک عدم اعتماد پیش کرکے ہٹایا گیا ہے‘ ان کی اتحادی جماعتوں کی قلب ماہیت ان کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی ہے، لیکن خان صاحب اسے غیرملکی سازش قرار دینے پر بضد ہیں۔ بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں، فوج پر غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں، اس کی ''نیوٹریلٹی‘‘ کو کوس رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں کمک فراہم نہ کرنے پر مشتعل ہیں۔ ایک ایسا منظر سامنے ہے جو گزشتہ پچھتر سالوں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اقتدار سے محرومی پر اس طرح کے ردعمل نے جہاں عمران خان کی سیاست کو توانا کیا ہے، وہاں اس کیلئے خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ جہاں عمران خان صاحب کے پُرجوش حامی نعرہ زن ہیں، وہاں ان کے ایسے نیازمند بھی ہیں جو تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایک میچ ہار جانے کو وہ قیامت کی گھڑی ماننے پر تیار نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وکٹیں اکھاڑنے اور میدان میں گڑھے کھودنے کے بجائے، وہ کیا جائے جو سپورٹس مین کرتے ہیں، وہ شے کام میں لائی جائے جسے سپورٹس مین سپرٹ کہتے ہیں۔ اَن تھک کپتان اس طرف متوجہ ہو سکے گا، یہ بات سن سکے گا، پلے باندھ سکے گا؟ یا کرکٹ کے میدان میں مکہّ بازی پر مصر رہے گا، اس سوال کا جواب مل نہیں پا رہا ؎
ایسا ہو کوئی نامہ بر جو بات ہماری سن سکے/ سن کے یقین کر سکے، جا کے انہیں سنا سکے
جاوید ہاشمی کی عیادت
پاکستان کے بے خوف سیاستدان جاوید ہاشمی کے دِل کا بائی پاس آپریشن ملتان کے چودھری پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہوا۔ ان کی مزاج پرسی کے لیے برادران حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر سعید الٰہی کی رفاقت میں ملتان پہنچے، اور چند لمحوں کیلئے پُرعزم بیمار سے ملاقات کی۔ وہ الحمدللہ روبصحت ہیں اور قومی سیاست میں نئے دِل کے ساتھ دبنگ انٹری کے لیے تیار۔ انسٹیٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر مجتبیٰ اور ان کے رفقا نے بتایا کہ کم از کم چار نئے آپریشن تھیٹرز کی فوری ضرورت ہے‘ لیکن حکام بالا اس طرف متوجہ نہیں ہورہے۔ تعجب ہوا کہ بزدار حکومت نے اس ہسپتال کو اپنی ترجیحات میں کیوں نہیں رکھا، جہاں صرف جنوبی پنجاب ہی نہیں، بلوچستان اور سندھ تک کے مریض آتے، اور شفایاب ہو کر جاتے ہیں۔ ہسپتال کے او پی ڈی میں مریضوں کا ایسا ہجوم تھا کہ سمائے نہیں سمٹ رہے تھے۔ حُسنِ انتظام نے انہیں سنبھال رکھا تھا۔ ضرورت ہے کہ نئے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اس طرف متوجہ ہوں۔ آپریشن تھیٹرز کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے چار منزلہ رہائشی بلاک کیلئے لفٹ کا بھی بندوبست کریں کہ برسوں سے منہ پھاڑ کر کھڑے سوراخ موت کے کنوئیں بن چکے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved