پاکستان اس و قت جس محاذ پر دشمن اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے‘ وہ ہمارا شمال مغربی علاقہ ہے‘ جہاں پشاور کور سرگرمِ عمل ہے۔ یہی وہ محاذ ہے جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں اور دشمنانِ پاکستان کے زیر سایہ پنپنے والی پانچ سے زائد دہشت گرد تنظیمیں فعال ہیں۔ ان تنظیموں کو امریکا، بھارت موساد اور این ڈی ایس اور ان کے سلیپر سیلز کی جانب سے بھرپور معاونت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ ملک پر گوریلا جنگ کو مسلط کیا جا سکے۔ پشاور کورکے ذمہ داران کی سب سے بڑی ڈیوٹی اس محاذ کو محفوظ بنانا اور اس گوریلا جنگ کا خاتمہ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی2500 کلومیٹر طویل سرحد‘جہاں باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ377 فوجی چوکیوں کی تعمیر جاری ہے‘ کا نصف یعنی لگ بھگ گیارہ سو کلومیٹر ایریا صوبہ خیبرپختونخوا سے متصل ہے اور پشاور کور کی ایک بنیادی ذمہ داری اس ایریا کے ایک ایک چپے پر نظر رکھنا ہے۔ذرا سوچئے کہ اس وقت جب یہ کور حالتِ جنگ میں اور مسلسل دشمن سے برسرِ پیکارہے‘اس کے متعلق تضحیک آمیز الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟ وہ محاذِ جنگ جہاں گزشتہ تین ماہ میں افواجِ پاکستان کے130 سے زائد جوان اور افسران دفاعِ وطن کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کر چکے ہیں‘ کیا اس طرح کی بیان بازی وہاں چوبیس گھنٹے دفاعِ وطن پر مامور اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جوانوں کے مورال کو ڈاؤن کرنے کے مترادف نہیں؟ پاک فوج کے ترجمان ادارے کی جانب سے بھی اگلے روزیہ واضح کیا گیا کہ پشاور کور پاکستان آرمی کی ایک ممتاز فارمیشن ہے جو دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے اور اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا کہ افواج کے سپاہی اورافسران وطن کی خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت جان ہتھیلی پر رکھ کرکر رہے ہیں‘ ایسے بیانات سپاہ اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
یہ امر ڈھکا چھپا نہیں کہ نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ خطرہ اسی علاقے میں تھا جو پشاور کور کے انڈر آتا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے(موجودہ قبائلی اضلاع)‘ جن کو مغربی میڈیا میں ''دہشت گردوں کی محفوظ جنت‘‘ قرار دیا جا رہا تھا تو دوسری طرف وہیںسے پاکستان کی سکیورٹی‘ افواج اور ملک کے مختلف شہروں اور سماجی و مذہبی مقامات پر حملے کئے جا رہے تھے۔ ایک طویل عرصے تک اس کور کے لیے یہ صورتحال چیلنج بنی رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جس صوبے نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں‘ وہ بھی خیبرپختونخوا ہے جہاں شہروں‘عبادت گاہوں‘ سکولوںاور بازاروں میں خودکش دھماکے ماضی میں معمول بن گئے تھے۔ یہ پشاور کور کی لازوال قربانیاں اور ان تھک محنت ہی تھی کہ ہر وقت بم دھماکے کے خوف میں مبتلا افراد دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ سکے۔ جس کور کی ذمہ داری افغان بارڈر جیسا حساس علاقہ ہو‘ وہ'' کھڈے لائن‘‘ کیسے ہو گئی؟کیا یہ عجب نہیں کہ موجودہ رجیم اور اس کے زیر سایہ اقتدار کی موجیں اڑانے والے محسن داوڑ جیسے افراد ریاستی اداروں پر تنقید میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوششوں میں ہیں؟ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے فلور پر عسکری اداروں کی طرف سے پاک افغان سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشن کیا گیا‘ اس کو لے کر ریاستی اداروں پر تنقید کی گئی حالانکہ اس آپریشن کا سبب خیبر پختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی حملوں میں شدت تھی جس کے باعث سرحد کے قریبی علاقوں اور شمالی وزیرستان وغیرہ میں سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکاروں کی شہادت اور سرحد پر ایک کیپٹن اور دیگر اہلکاروں پر حملوں کے واقعات تھے۔
افسوس ہے کہ اداروں اور اہم محاذوں پر تعینات شخصیات پر تنقید کرنے والوں میں وہ بھی شامل ہو گئے ہیں جو سیاسی قیادت کا طویل تجربہ رکھتے اور ملکی سکیورٹی کو درپیش خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔اگرچہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں اپنی پارٹی چیئرپرسن کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ کو بنیاد بنا کراداروں پر انگلیاں بھی اٹھاتے رہے۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی تین رکنی کمیٹی کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر مبہم سی رپورٹ شائع ہوتے ہی سی آئی اے نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس کا رخ ملکی اداروںکی طرف موڑ نے کی خطرناک مہم شروع کر دی تھی۔ یو این کی اس رپورٹ کے صرف ایک جملے کی بنیاد پر جائے شہادت کو دھونے پر ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کو نشانے پر رکھ لیا گیا ۔پوری کوشش کی گئی کہ محترمہ کی شہادت کا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈال دیا جائے ۔ امر واقعہ یہ تھا کہ جب حکومت پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کو بینظیر بھٹو قتل کی بے لاگ تحقیقات کے لیے درخواست دی گئی تو سیکرٹری جنرل بان کی مون نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتہائی سینئر اور تجربہ کار لوگوں کو اس ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات کے لیے مقرر کریں گے اور انہوں نے جو تین رکنی کمیٹی تشکیل دی اس کا سربراہ یواین او میں چلی کے مستقل مندوب Heraldo Muñoz کو مقرر کردیا۔ ٹیم کے باقی دو ممبران میں سے ایک انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل Marzuki Darusman اور دوسرے آئرش پولیس کے سابق ڈپٹی کمشنر Peter FitzGerald تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی لسٹ میں جو انتہائی سینئر اور ماہر ترین لوگ موجود تھے‘ انہیں مکمل نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ آئرش پولیس کے پیٹر جیرالڈ اس سے قبل لبنان کے رفیق الحریری کے قتل کی تحقیقات میں بھی مصروف رہے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہا دت پریو این کی رپورٹ سامنے آئی تو اس کی آڑ میں ایک گروپ ریاستی اداروں کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھ گیا۔ لگاتار عوام کو یہی بتایا جاتا رہا کہ محترمہ کی شہادت کے چند گھنٹوں بعد اس جگہ کو دھو دینا ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس میں کئی سینئر اہلکار شامل تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ قتل کے ثبوت مٹا دیے جائیں۔ اس سارے بیانیے کا مقصد ملکی اداروں کے خلاف بدگمانیاںپیدا کرنا تھا۔ یہی طریقہ گزشتہ دو برسوں سے عمران خان کے خلاف ا ستعمال کیا جا رہا ہے کہ سچی جھوٹی باتیں ملا کر ایسی تصویر پیش کی جا رہی اور ایسے مفہوم نکالے جا رہے ہیں کہ جن کا حقیقت کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں۔ یہ خطہ جہاں امریکا کے سٹریٹجک مفادات ہوں‘ وہاں سی آئی اے اپنے خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مختلف ہتھیاروں کی مدد سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہے۔یہ کس طرح ہوتا ہے اس کی تفصیل Karl F. Inderfurth بیان کر چکے ہیں۔
Karl F. Inderfurth ایک امریکی ڈپلومیٹ ہیں جو 1964ء سے 1973ء تک سی آئی اے کی جانب سے چلی میں ہونے والے انتخابات میں امریکی مفادات کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے جبکہ اوباما دور میں وہ وائٹ ہائوس میں انتظامیہ کے انتہائی اہم رکن متصور ہوتے تھے۔ وہ اپنی کتاب Fateful Decisions: Inside the National Security Councilمیں لکھتے ہیں کہ امریکا تیسری دنیا اور کچھ دوسرے ممالک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جب چلی میں انتخابات ہو رہے تھے تو اُس وقت سی آئی اے کی طرف سے بیس ریڈیو سٹیشنوں سے دن میں وقفے وقفے سے پچیس دفعہ دس‘ بارہ منٹ کی من پسند خبریں نشر کروائی جاتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے آج سے چار دہائیاں قبل دس ملین ڈالر چلی کے پریس پر خرچ کئے گئے۔ کارل اِنڈر فرتھ کے بقول‘ چلی میں کھیلا گیا یہ کھیل کئی سالوں سے دوسرے ممالک میں بھی جاری ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سی آئی اے کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی پاکستان کی ایجنسیاں اور ان کے سربراہان کیوںہمیشہ لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved