پاکستان میں اس وقت موسمی اور سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ ایک طرف جیکب آباد کو دنیا کے گرم ترین شہروں میں شمار کئے جانے کی خبریں ہیں اور دوسری طرف سیالکوٹ میں عثمان ڈار اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریوں نے سیاسی ماحول کو گرما رکھا ہے۔خیریت گزری کہ پی ٹی آئی نے جلسے کا مقام تبدیل کر لیا اور عثمان ڈار اور ان کے ساتھیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب سے تحریک انصاف نے جلسوں کی شروعات کی ہے یہ غالباً پہلی سیاسی گرفتاری تھی۔وزرات داخلہ کے حالیہ بیانات سے یہ آثار دکھائی دے رہے تھے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ جلد شروع ہو سکتا ہے۔ رانا ثنااللہ آجکل عمران خان کی گرفتاری کے اعلانات بھی کر رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کی شروعات سے قبل ایسا ہو سکتا ہے۔ ایسا باور کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے تجربے کے پیش نظر (ن) لیگ یہ جانتی ہے کہ اگر عمران خان لانگ مارچ اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ دھرنا ضرور دیں گے اور تحریک انصاف کے دھرنے کو اٹھانا تقریباً ناممکن ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت پیش آ رہی ہے جب ملک معاشی بحرانوں میں گرا ہوا ہے اور مقامی اور بین الاقوامی میڈیا پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہاہے۔ یہ وقت میثاق معیشت کا ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید کسی سیاسی لیڈر کو ملک کے معاشی بحران کی پروا ہی نہیں۔ عمران خان عوامی لیڈر ہونے کے دعویدار ہیںلیکن ملک شدید مالی عدم استحکام کا شکار ہے اور عمران خان کی ہنستے اور قہقہے لگاتے کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنے گھر میں آگ لگی ہو تو اس پر کیسے مسکرایا جا سکتا ہے؟ خان صاحب شاید اس پر مسرت کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ نئی حکومت سے ملکی معیشت سنبھل نہیں رہی لیکن وطن کا درد رکھنے والے لیڈر تو ایسے حالات میں غم زدہ ہو جاتے ہیں اور مسائل حل کرنے کے لیے مدد کی پیشکش کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ خان صاحب کی توجہ انٹرویوز اور جلسوں پر زیادہ ہے۔ یہی صورتحال شہباز شریف کی دکھائی دیتی ہے۔ سعودی عرب اور چین نے انہیں قرض دینے سے انکار کر دیا ہے لیکن وہ معاشی مسائل پر پریشان ہونے کی بجائے نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں ہنستے مسکراتے دکھائی دے رہے تھے اور سارا ملبہ عمران خان کی حکومت پر ڈالنے میں مصروف تھے۔ اسی طرح آصف زرداری پریس کانفرنسوں اور اجلاسوں میں فاتحانہ مسکراہٹ سجا کر بیٹھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک معاشی تنزل میں ڈوب رہا ہو تو کس طرح کی فتح اور کیسا جشن؟ سیاستدانوں کے ان غیر سنجیدہ رویوں کے باعث عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ سیاسی قیادت کو ملک کی فکر نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے تو یہ سب بیرون ملک آباد ہو جائیں گے کیونکہ ان میں سے اکثریت کے بچے‘ جائیدادیں اور دلچسپیاں بیرون ممالک ہیں۔سیاسی رہنماؤں کو وقت کی نزاکت کا خیال ہونا ضروری ہے۔ عوامی رائے کو بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر بروقت درست فیصلے نہ کئے گئے تو سری لنکن عوام کی طرح پاکستانی عوام بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت میں ہوں گے۔ایسی صورتحال میں ملک کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان خدشات کے پیش نظر جب میں نے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد طے نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے اور ملک میں خوفناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے مطالبات مان لے۔ نہ جانے سرکار کس بات کا انتظار کر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو دو حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ایک پاکستان میں اور دوسری لندن میں۔ نواز شریف صاحب نے غریب ملک کی کابینہ کا اجلاس لندن میں بلا رکھا تھا۔ ملک کا وزیراعظم چار دن لندن میں مقیم رہا اور ڈالر بڑھتا چلا گیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی کو ملک کی فکر ہی نہیں۔ سری لنکا میں ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیراعظم تھا اور طاقت کا مرکز ایک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان میں پاور کی دو جگہ تقسیم سے کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے اور فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے میں تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے اور شدید معاشی بحران پیدا ہوا۔ بعدازاں تحریک انصاف نے اس غلطی کو تسلیم کیا۔ نئی حکومت کو ماضی کے واقعات سے سیکھنا چاہیے۔ پاکستان کے فیصلے ملک کے اندر اور بروقت ہونے چاہئیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وزیراعظم دکھاوے کی حد تک نہ ہوں بلکہ ان کے پاس مکمل اختیارات ہوں۔
اسی حوالے سے جب میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا نے برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی اور سارا زور درآمدات بڑھانے پر دیا اور جب درآمدات پر پابندی لگائی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی درآمدات اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ابھی بھی غیر ضروری لگژری اشیا کی درآمدات تقریبا ً15 ارب ڈالر ہیں۔ جن پر فوراً پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔درآمدات کا حجم برآمدات کی نسبت سو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا نے مہنگے قرض لے کر عوام کو سستا پٹرول اور ڈیزل دیا۔ وقتی طور پر تو عوام خوش ہو گئے لیکن ملک دیوالیہ ہو گیا۔ سری لنکا نے امریکہ اور آئی ایم ایف کی بجائے چین پر انحصار کیا اور وقت آنے پر چین نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ چین پاکستان کو بھی مزید قرض دینے سے انکار کر سکتا ہے ۔پچھلے تقریباً پانچ سال سے سری لنکا نے ملک چلانے کے لیے زیادہ انحصار دوست ممالک کے قرضوں اور امداد پر کیا اور پاکستان میں بھی پچھلے چار سال میں لیے گئے قرض 70 سالوں میں لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں۔ بھارت سری لنکا کا بہترین دوست ہے لیکن آخری وقت میں اس نے بھی انکار کر دیا۔ پاکستان کو سعودی عرب نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ جب ملک چلانے کا انحصار تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں پر ہو تو قریبی دوست ممالک بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ معیشت کا گراف بتاتا ہے کہ سری لنکا ڈیفالٹ ہونے سے چند ماہ پہلے جس جگہ کھڑا تھا پاکستان بھی اسی جگہ کھڑا ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ پاکستان کو پٹرولیم مصنوعات سے سبسڈی ہٹانے کی ضرورت ہے۔ گو کہ یہ ایک فیصلہ تمام مسائل کا حل نہیں ہے لیکن اس سے کافی حد تک دباؤ میں کمی آ سکے گی۔ آئی ایم ایف تقریباً ایک ارب ڈالرز جاری کرے گا اوراس کے بعد تقریبا ً9 ارب ڈالرز کے قرض مختلف ممالک سے مل سکیں گے۔ پاکستان کو اس وقت تقریبا ً10 ارب ڈالرز کی مزید ضرورت ہے‘ لیکن ایک بات اہم ہے کہ اگر یہ قرض مل بھی جائیں اور درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ نہ ہو تو پاکستان چار یا پانچ ماہ کے بعد دوبارہ اسی صورتحال سے دوچار ہو گا‘ اس لیے برآمدات بڑھانے اور درآمدات کو کم کرنے کے لیے فوری فیصلہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پہلے ہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved