تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-08-2013

دِل کی دیوار خالی ہے

ایک بہار رمضان المبارک کی شکل میں ہمارا نصیب بنی۔ اِس کے بعد مسرتوں کے مزید پھول کِھلے یعنی عیدالفطر بھی حِصّے میں آئی۔ اور اِس کے بعد جشنِ آزادی آیا۔ قوم شادمانی کے سمندر میں غوطے لگا رہی ہے۔ مون سون نے بھی کچھ کم غوطے نہیں لگوائے۔ مگر یہ مون سون ہی تھا جس کی بدولت ماہِ صیام ٹھنڈا ٹھنڈا گزرا۔ مگر خیر یہ ٹھنڈک عام آدمی تک محدود رہی۔ جنہیں رمضان میں بھی کاروبار کے نام پر دُنیا سمیٹنی تھی اُن کے لیے بازار گرم ہی رہا۔ منافع خوروں کے لیے رمضان کے بعد عید کا موسم دو آتشہ ثابت ہوا۔ پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سَر کڑھائی میں۔ جشنِ آزادی کی ساعتوں میں بھی موسم خوشگوار رہا۔ ملک بھر میں بارانِ رحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں بھی گھٹائیں سایہ کئے ہوئے ہیں۔ رمضان کے دوران اور عید کے موقع پر جو رِم جِھم ہوتی رہی ہے وہی جشنِ آزادی پر بھی جاری رہی۔ کئی برسوں سے معاملہ یہ ہے کہ جشنِ آزادی مون سون کے سائے میں آتا ہے اور ملک کو ٹھنڈا ٹھار کرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ وطنِ عزیز کی فضائیں ایک بار پھر سبز ہلالی پرچم سے معمور رہیں۔ ہر طرف جھنڈیوں اور پرچموں کی بہار نظر آئی۔ دو ڈھائی عشروں کے دوران جشنِ آزادی کچھ زیادہ ہی جوش و خروش سے ہماری زندگی کا حصہ بنا ہے۔ سابق صدر ضیاء الحق مرحوم نے جشنِ آزادی کو شاندار طریقے سے منانے کی روایت ڈالی۔ اب قوم جشنِ آزادی جوش و خروش سے منانے کا تھوڑا بہت اہتمام ضرور کرتی ہے۔ گلی گلی جھنڈیاں لہراتی رہیں، فضاؤں میں سبز ہلالی پرچم بلند ہیں۔ رہبرانِ ملت کی تصاویر آویزاں ہیں۔ اِن ہورڈنگز کو دیکھ کر ایک طرف تو یہ سوچ کر فخر کا احساس ہوتا ہے کہ ہم میں بھی کچھ ڈھنگ کے لوگ پیدا ہوئے تھے اور دوسری طرف خیال آتا ہے کہ اب آگے کیا ہے؟ لگتا ہے سارے سُورج بُجھ گئے ہیں کیونکہ راہ میں بہت دُور تک اندھیرا ہے۔ جوش و خروش کی قدر کی جانی چاہیے۔ بُلند حوصلگی ایسا وصف ہے جو ہزار جتن سے پیدا ہوتا ہے اِس لیے اِسے کِسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ کیا کہ ہم نے اپنے ہر اچھے وصف کو سَرد خانے میں ڈال رکھا ہے اور تمام بُرے خصائل کو دِل سے لگائے بیٹھے ہیں؟ رمضان میں اللہ کی رضا کے حصول کا شوق جتنی تیزی سے اُبھرتا ہے اُتنی ہی تیزی سے دَم توڑ دیتا ہے۔ عبادات کا مہینہ عیدالفطر منانے کے اہتمام کی نذر ہو جاتا ہے۔ جن میں اللہ کی خوشنودی کے حصول کا حکم دیا گیا ہے ہم نے اُن مبارک ساعتوں کو ٹی وی کی خصوصی نشریات کے حوالے کردیا ہے۔ یہ سب کیا ہے، کوئی اِس کی توضیح بھی نہیں کرسکتا۔ عیدالفطر اللہ کی طرف سے انعام ہے۔ یہ مسرت کا ایسا موقع ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ مگر ہم نے عیدالفطر کے سعید لمحات کو بھی مال و زر کی نذر کردیا۔ اللہ کی رضا چاہنے سے زیادہ یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ تن پر قیمتی کپڑے ہوں اور پیروں میں ایسی جُوتی جِسے دیکھ کر لوگ متاثر کم اور مرعوب زیادہ ہوں! جب نِیّتوں کا یہ عالم ہو تو کِسی بھی عمل کی زمین پر برکت کے پُھول کیسے کِھل پائیں گے؟ ہم کئی عشروں سے جشنِ آزادی منا رہے ہیں۔ بیس برس پہلے تو اِسے باضابطہ قومی تہوار کا سا درجہ حاصل تھا۔ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر خصوصی نشریات ہوا کرتی تھیں۔ اخبارات بھی وطن کی محبت دِلوں میں زندہ رکھنے کے حوالے سے خاص محنت کیا کرتے تھے۔ مگر پھر سب کچھ بدلتا گیا۔ خُلوص کی جگہ صرف دِکھاوا رہ گیا۔ اب حال یہ ہے کہ گھر پر پرچم لہراکر، چند جھنڈیاں لگاکر، سینے پر بیج سجاکر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وطن کی محبت کا قرض چُکتا کردیا! وطن کی مِٹّی ہم سے محنت اور اِخلاص طلب کرتی ہے اور ہم دو تین دِن تک وطن کے گیتوں کی لَے میں تھوڑا سا جُھوم کر یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ وطن کا حق ادا ہوگیا! کوئی اپنی مِٹّی کا قرض چُکا سکتا ہے؟ جان تو دی جاسکتی ہے مگر قرض چُکتا کرنے کا دعوٰی نہیں کیا جاسکتا۔ جو ایسا سوچتے ہیں اُن کی سادہ لوحی پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ کیا وطن کی محبت صرف اِس بات کی متقاضی ہے کہ گھر پر دو چار دن پرچم لہرا لیا جائے؟ کیا جشنِ آزادی صرف اِتنے سے عمل کا نام ہے کہ ہم جھنڈیوں کی چند قطاروں سے اپنی گلیاں سجالیں؟ اور سینے پر بیج سجائے پھریں؟ وطن کی محنت سے معمور نغمات سُن کر جُھوم اُٹھنا بے حد مستحسن سہی مگر اِس منزل سے آگے بھی تو بہت کچھ ہے جو کرنا ہے۔ فضائیں قومی پرچم سے معمور ہیں، سبز رنگ کی بہار آئی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دِل کی فضا کب بدلے گی؟ کب ہمارے دِل کی فضا میں قومی پرچم ہمیشہ کے لیے لہرائے جانے کا آغاز ہوگا؟ دِل کی دیوار کب تک خالی رہے گی؟ اِس دیوار پر رہبرانِ ملت کی تصاویر کب آویزاں ہوگی؟ ہم نوشتۂ دیوار نہیں پڑھتے یا پڑھنا نہیں چاہتے تو کم از کم نوشتۂ دِل ہی کا اہتمام کرلیں۔ دِل پر کچھ ایسا لِکھیں اور کچھ ایسا آویزاں کریں جو دیرپا ہو اور وطن سے محبت کے جذبے کو نئی بلندیوں سے آشنا کرتا رہے۔ فیصلے کی گھڑیاں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں۔ ہم سوچتے ہیں اور پھر سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے کھیلنے کا یہ طریقہ سنگین نتائج پیدا کرتا ہے۔ اور کر رہا ہے۔ ہم ہر اہم لمحے کو ایک روایت سمجھ کر گزارنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ماہِ صیام بھی اب تزکیۂ نفس کی راہ پر گامزن ہونے کے موقع سے بڑھ کر محض ایک روایت بن چکا ہے۔ یعنی ایک خاص سیزن کو آنا ہے اور گزر جانا ہے۔ عیدالفطر بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوکر رہ گئی ہے۔ اور جشنِ آزادی بھی۔ دیواروں پر تصاویر چِپکانے سے کہیں آگے جاکر اب ہمیں اپنے دِل کی دیوار پر کچھ چِپکانا ہے، چند ایسے نقش قائم کرنے ہیں جو تادیر اور تازہ رہیں۔ اور جنہیں دیکھ دیکھ کر ہم کچھ کرنے کی، کچھ کر گزرنے کی تحریک پاتے رہیں۔ ماہِ صیام ہو، عیدالفطر یا جشنِ آزادی … اب ہر معاملہ ہم سے غیر معمولی روایت شِکنی کا طالب ہے۔ ماہِ صیام عید کی شاپنگ کے لیے نہیں ہوتا، بالکل اِسی طرح جشنِ آزادی بھی محض وطن کے گیت سُننے اور کچھ دیر سرخوشی کے عالم میں رہنے کے لیے نہیں ہوتا۔ ہر اہم موقع ہم سے ہمارے پورے وجود کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم انفرادی اور قومی سطح پر ترجیحات کا حتمی تعین کریں اور اُن ترجیحات کے مطابق خود کو بدلیں؟ اب نوشتۂ دیوار سے کچھ ہٹ کر نوشتۂ دیوارِ دِل کے بارے میں سوچنا ہے۔ نوشتۂ دیوار تو اوروں کی طرف سے ہوتا ہے، نوشتۂ دیوارِ دِل کا اہتمام ہمیں خود کرنا ہے۔ اِسی سے اندازہ ہوگا کہ ہم کیا دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved