جب روس نے یوکرین پر لشکر کشی کی تب امریکا اور یورپ نے بہت شور مچایا اور روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ امریکی قیادت نے یوکرین کے حوالے سے شور مچانے پر اکتفا کرتے ہوئے عملاً کچھ بھی کرنے سے گریز کیا۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ روس بھی جوہری طاقت ہے اور کچھ بھی کرسکتا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے انتباہ کیا کہ اگر کسی بھی مغربی طاقت نے یوکرین کے قضیے میں کودنے کی کوشش کی تو اُس کا بھی بہت بُرا انجام ہوگا۔ یہ انتباہ امریکا اور یورپ دونوں کے لیے کافی تھا۔ امریکی قیادت نے سوچا کہ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے بات بن جائے گی‘ کام ہو جائے گا۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی کہ روس ایک بڑی معیشت ہے جس کے ڈانواں ڈول ہونے سے بہت سی معیشتوں کے لیے خرابیاں پیدا ہوں گی۔ روس نے بہت پہلے واضح کردیا تھا کہ اُسے ڈبونے کی کوشش کی گئی تو وہ بہت سوں کو ساتھ لے کر ڈوبے گا۔ یورپی طاقتیں اس بات کو سمجھتی تھیں اس لیے روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ دکھائی نہ دیں۔ یورپ کے ایک بڑے حصے کو روس گیس فراہم کرتا ہے۔ روس کی طرف سے گیس کی سپلائی روک دی جائے تو یورپ بھر میں موسمِ سرما کی سختی جھیلنا ناممکن ہو جائے۔
جب یوکرین کے معاملے میں روس پر مغربی طاقتوں کا دباؤ بڑھا تو چین نے سامنے آکر روس کو کسی حد تک سہارا دینے کی کوشش کی۔ مغربی طاقتوں نے چین کو متنبہ کیا کہ وہ روس کی حمایت اور مدد سے باز رہے۔ یہ چین کے لیے بھی بڑی آزمائش تھی کیونکہ روس سے اُس نے رواں سال کے ابتدائی دنوں میں دوستی‘ تعاون اور اشتراکِ عمل کا وسیع البنیاد معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی رُو سے دونوں ممالک کو مختلف مشکل لمحات میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینا ہے۔ چینی قیادت روس کی بھر پور حمایت و مدد سے مجتنب نہیں رہ سکتی تھی۔ اب سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ روس کا ساتھ کس طور دیا جائے۔ ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی روس کی مدد بھی ہو جائے اور مغربی طاقتیں عالمی اداروں میں چینی قیادت کے خلاف کچھ کر بھی نہ سکیں!
چینی قیادت نے کورونا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر اس طور عمل شروع کیا کہ مغربی طاقتوں کے لیے اپنے آپ کو متوازن رکھنا دشوار ہوگیا۔ ایک ایسے وقت میں چین میں کورونا کی وبا نے سر اٹھایا ہے جب باقی دنیا میں کورونا نام کی کوئی چیز باضابطہ طور پر نہیں پائی جاتی۔ چین میں اومیکرون ویرینٹ کے بڑھتے ہوئے کیسز کو بنیاد بناکر شنگھائی سمیت 40 سے زائد شہر بند کردیے گئے ہیں۔ ان شہروں کی مجموعی آبادی 33 کروڑ سے زائد ہے۔ لاک ڈاؤن اس قدر سخت ہے کہ متعلقہ شہری زندگی سے بیزار ہوگئے ہیں مغربی طاقتیں اس پر کچھ خاص ردِعمل بھی ظاہر نہیں کرسکتیں کیونکہ وہ خود ہی شور مچاتی رہی ہیں کہ کورونا کی وبا چین نے پھیلائی ہے۔ اب اگر چین کورونا کی وبا کو صفر کی سطح پر لانے کی پالیسی کے تحت لاک ڈاؤن کا طریقہ بروئے کار لارہا ہے تو مغربی طاقتوں کے لیے واویلا کرنے کا جواز نہیں بچا۔ چینی قیادت کہتی ہے کہ کورونا کی وبا کے مکمل خاتمے تک شنگھائی سمیت 40 شہر نہیں کھولے جائیں گے۔
شنگھائی چین کا سب سے بڑا صنعتی‘ تجارتی اور مالیاتی مرکز ہے۔ اس ایک شہر کی مجموعی خام پیداوار (خام آمدن) 1390 ارب ڈالر کے مساوی ہے۔ شنگھائی کو بند کردیجیے تو دنیا بھر میں بہت کچھ بند ہو جاتا ہے۔ چین نے باقی دنیا کو باور کرادیا ہے کہ اگر اُسے کسی معاملے میں گھسیٹ کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ کسی بھی حد سے گزر جائے گا۔
چین نے روس کا ساتھ دینے کے نام پر ہتھیار اٹھائے نہ سفارتی سطح پر کوئی بڑا کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔ اُس نے اپنی معیشت کی رفتار کم کی ہے تو امریکا اور یورپ کی چُولیں ہل گئی ہیں۔ شنگھائی میں 70 ہزار سے زائد کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔ دنیا کی 400 سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر بھی شنگھائی میں ہیں۔ صرف جاپان کی 121 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چین کے صدر دفاتر شنگھائی میں ہیں۔
شنگھائی کا سٹاک ایکسچینج اس وقت مارکیٹ کیپٹل کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی سٹاک مارکیٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ شنگھائی میں دو انٹر نیشنل ایئر پورٹ ہیں۔ ان دونوں ایئر پورٹس کا شمار دنیا کے 10 جدید ترین اور مصروف ترین ایئر پورٹس میں ہوتا ہے۔ یہی نہیں‘ شنگھائی کو بند کرنے کا مطلب پوری دنیا کی معیشتوں کو ہلانا ہے۔ شنگھائی پر دنیا کے تمام خطوں کے ممالک کا کس حد تک مدار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ شنگھائی کی بندر گاہ سے ہر سال 4 کروڑ 70 لاکھ سے زائد کنٹینر دنیا بھر میں روانہ کیے جاتے ہیں۔ ان کنٹینرز میں کم و بیش تمام ہی اقسام کی اشیائے صرف ہوتی ہیں۔ ایک ماہ سے بھی زائد وقت سے شنگھائی کی بندر گاہ بند ہے یعنی شپمنٹس رکی ہوئی ہیں۔ صرف ایک ماہ میں 40 لاکھ سے زائد کنٹینر روانہ نہیں کیے جاسکے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کنٹینرز کے نہ پہنچنے سے کتنے ممالک میں کس کس طرح کی مشکلات نے جنم لیا ہوگا۔ امریکا اور یورپ میں مہنگائی کی خطرناک لہر آئی ہوئی ہے۔ اشیائے صرف کی واضح قلت محسوس کی جارہی ہے۔ لوگ مہنگائی سے تنگ آکر تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ تو ہے امریکا اور یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشروں کا حال۔ چھوٹے‘ کمزور اور پسماندہ ممالک کا کیا حال ہوا ہوگا؟ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ سے سری لنکا اور نیپال جیسے درجنوں ممالک کو انتہائی نوعیت کے حالات کا سامنا ہے۔
امریکا اور یورپ نے مل کر روس کی معیشت کو دھچکا پہنچانے کی خواہش ظاہر کی تھی اور اس حوالے سے کوشش بھی کی مگر کچھ نہ ہوا۔ چین نے صورتحال کی نزاکت دیکھتے ہوئے ایک طرف ہٹ کر محض شنگھائی اور چند دوسرے شہروں کو بند کرکے امریکا اور یورپ دونوں کو خاموشی سے دھول چٹادی۔
شنگھائی ایک ایسا کاروباری مرکز ہے جس سے امریکا اور یورپ کے علاوہ بھی کئی خطوں کی معیشتیں جُڑی ہوئی ہیں۔ شنگھائی کو بند کرنے کا مطلب ہے کئی ممالک میں شدید نوعیت کے معاشی بحران کی راہ ہموار کرنا۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر لاک ڈاؤن نافذ کرکے چین نے پوری دنیا کو بالعموم اور امریکا و یورپ کو بالخصوص بتادیا کہ اُسے اب کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چینی قیادت نے چار عشروں کے دوران صرف ایک گُر سیکھا ہے‘یہ کہ عسکری مناقشوں سے دور رہتے ہوئے کچھ ایسا کیا جائے کہ کام بھی ہو جائے اور الزام بھی نہ آئے۔ اس کے لیے کاروباری معاملات کو بہترین ہتھکنڈے کی صورت بروئے کار لانے کی ذہنیت پروان چڑھائی گئی ہے۔
شنگھائی سمیت 40 شہروں کو لاک ڈاؤن کرکے پوری دنیا کی معیشتوں کو ہلانے کا مقصد چین کی طرف سے یہ نکتہ ثابت کرنا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق چلے گا اور اگر وہ کسی کا ساتھ دینا چاہے تو اُسے روکنے کی کوشش نہ کی جائے۔ امریکا اور یورپ نے روس کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تو چین نے دوستی نبھاتے ہوئے اُن دونوں کو معاشی محاذ پر دیوار سے لگانے کا عمل شروع کردیا۔ سیاسی تجزیہ کار برملا کہہ رہے ہیں کہ اب چین کو کسی بھی معاملے میں رگڑا دینے کے بارے میں سوچنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ چین ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آنکھیں چُرائی نہیں جاسکتیں۔ لازم ہے کہ معاملات کو درست کرنے کے لیے حقیقت پسندی سے کام لیا جائے‘ متعدل سوچ بروئے کار لائی جائے۔ محض جذباتیت کی بنیاد پر کسی بھی بڑی طاقت کو سائڈ لائن نہیں کیا جاسکتا۔ چین نے روس کے ساتھ مل کر امریکا اور یورپ کو عالمی سیاست و معیشت میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے روکنے کی طرف اپنا سفر کامیابی سے شروع کیا ہے۔ یورپ واماندہ لگ رہا ہے۔ امریکا بڑھکیں مارنے تک محدود ہے۔ تجزیہ کار کہنے لگے ہیں کہ روس کو یوکرین منہ نہیں دے رہا بلکہ روس اس جنگ کو طول دے کر یورپ کو غیر مستحکم رکھنے کے درپے ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved