تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     16-05-2022

سودا مہنگا پڑے گا!

پنجاب میں مسلم لیگ نون میں دم خم تھا۔ سیاسی خاندانوں کی وفاداریاں‘ میاں نواز شریف صاحب اور ان کی صاحبزادی کا پُر زور ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اور سب سے بڑھ کر عثمان بزدار کی برکتیں سیاسی میدان ان کے حق میں ہموار کر چکی تھیں۔ پنجاب تحریکِ انصاف او ر عمران خان کی گرفت سے صاف نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اسی صفحہ پر کئی بار لکھا بھی کہ اگر عمران خان صاحب کو سیاسی خود کشی کرنا ہی تھی تو وزیر اعلیٰ تو کسی ڈھنگ کا لگاتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کسی تجزیہ کار نے بزدار صاحب کے حق میں یا عمران خان کے اس‘ اور بہت سے دوسرے فیصلوں کے بارے میں کلمۂ خیر لکھا ہو۔ مہنگائی کا طوفان‘ سرمایہ کاری میں کمی اور بیروزگاری پہ تحریکِ انصاف کی حکومت قابو نہ پا سکی۔ ماضی کی پالیسیوں‘ معیشت کو سیاسی تقاضوں کے مطابق چلانے کی روش اور عالمی وبا کے عالمگیراثرات نے بھی ان کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ کوئی بھی تحریکِ انصاف کے بارے میں بات کرتا یا تقریر کرتا... اگرچہ ہمارے ہاں باہمی بات چیت اور تقریر جھاڑنے میں کوئی نمایاں فرق نہیں... ناکامی‘ نااہلی‘ عجیب و غریب نوعیت کے اراکینِ کابینہ اور کپتان کی ہٹ دھرمیاں بنیادی نکتے ہوتے۔ ان کا اپنا بیانیہ کارکردگی کی مثبت تصویر کشی اور کئی بڑے اور اچھے کاموں کی تشہیر بھی چل رہی تھی‘ مگر زور حزبِ اختلاف کے دھڑوں میں سے نون لیگ کا تھا۔ ان کے پاس حکومت نہیں‘ کہیں بھی حصہ دار نہیں تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں ناقص اور کرپٹ حکمرانی کی علامت سمجھی جا رہی تھی۔ وہاں بھی ایسا معلوم ہورہا تھاکہ نون لیگ ماضی کی دھڑے بندی کی سیاست کو آئندہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے امکانات کے سہارے زندہ کرنے کی کسی حد تک استعداد حاصل کرے گی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی‘ نہ لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں اس کے روایتی حلقوں میں عوامی سطح پر دراڑیں پڑی تھیں۔ جب بھی عام سیاسی‘ غیر سیاسی لوگوں اور دانشوروں کو نون لیگ‘ تحریکِ انصاف اور نواب شاہ کے بادشاہوں کی بادشاہت کا موازنہ کرتے سنا یا دیکھا‘ نونیوں کا پلڑا بھاری نظر آتا۔ اب معلوم مجھے تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی جیتی بازی غلط فیصلہ کرکے ہار بیٹھے ہیں۔ زمینی حقائق اتنا برق رفتاری اور سونامی کی صورت اچانک تبدیل ہو جائیں گے‘ اس کا اندازہ تو کچھ تھا‘ مگرجو ہو چکا ہے‘ اور ہو رہا ہے‘ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ زمین اب تیرہ جماعتی اتحاد کے پائوں سے صحرا کی ہردم سرکتی ریت کی طرح اتنا نکل چکی ہے کہ دوبارہ قدم جما کر کھڑا رہنے کی سکت بھی جواب دیتی نظر آ رہی ہے۔
دیگر جماعتوں اور سیاسی موسموں کے ساتھ رنگ بدلتے موقع پرست سیاسی دھڑوں کو جو نقصان ہوا وہ قومی سطح کی سیاست میں شاید اتنا محسوس نہ ہو‘ مگر نون لیگ نے وقتی اقتدار کی لالچ میں آ کر اپنا دھڑن تختہ کر لیا ہے۔ حیرت ہے کہ اس جماعت میں سب سے زیادہ تجربہ کار‘ ہر نوع کے پختہ ذہن اور سیاست کے بے شمار نبض شناس ہیں‘ مگر نہ جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی کہ شہباز شریف کی باتوں سے لندنی قیادت مسحور ہو گئی۔ ممکن ہے کہ پس پردہ بندوبستی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات میں مستقبل کے سنہرے وعدوں نے انہیں اپنے دام میں لے لیا ہو کہ وقتی اقتدار کی لالچ کے سامنے ڈھیر ہو گئے ہوں۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوںکہ ان کا اندازہ یہ تھا کہ عدم استحکام‘ معاف کرنا‘ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد عمران خان شاید میانوالی بھی جانے کے قابل نہ رہیں‘ اور بنی گالہ کی چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پہ بیٹھ کر ہلکی پھلکی بیان بازیاں کرنے تک محدود ہوجائیں۔ آصف علی زرداری‘ کے پی کے جدی پشتی سیاسی حکمران گھرانے اور ضمیر جگانے کی جادوگری کے کرشماتی نتائج پارلیمان کے اندر اور میڈیا کے ان حلقوں میں‘ جو کپتان کی فکری اور عملی سیاست کے خلاف نظریاتی مخاصمت پالے بیٹھے تھے‘ نونیوں کو دریا میں چھلانگ لگانے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بیانیہ یہ تراشاکہ جادوگری آئینی تھی‘ عمران خان عوام کا اعتماد کھو چکے تھے‘ سہارے والی آہنی بیساکھیاں‘ اور ایک صفحہ ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ اب ہزیمت خوردہ دھکے سے نکالا ہوا غیر روایتی سیاسی کھلاڑی دور سے ایوانِ اقتدار کو کسی پہاڑی سے دیکھ تو سکے گا‘ مگر قریب نہیں آنے دیا جائے گا۔ اب بھی یہی بات ''آزاد‘‘ میڈیا کے نامور اور موروثی سیاسی گھرانوں کے ہرکارے روزانہ سکرینوں پر دہراتے رہتے ہیں۔
ان کے سب تجزیے‘ اندازے اور سازشیں‘ اور کپتان کو گرانے کی منصوبہ بندی کا وہی انجام نظر آتا ہے‘ جو ہمیشہ مصنوعی تبدیلیوں اور کٹھ پتلی سیاسی تماشوں میں ہم دیکھتے آئے ہیں۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ عوام کس کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ''میں چھوڑوں گا نہیں‘‘ کا نعرہ اب نیا رنگ اور ولولہ اختیار کر چکا ہے۔ جس تعداد میں لوگ‘ جو لائے نہیں جا رہے‘ خود آ رہے ہیں‘ اور ظاہر ہے کہ جن مقامی رہنمائوں نے تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے ہیں‘ وہ بھی ان کو لانے میں متحرک ہیں۔ اتنے بڑے تاریخی جلسے صرف پاکستان نہیں‘ اس پورے خطے کی تاریخ میں نہیں ہوئے۔ جو خواتین و حضرات ہمیشہ موروثیوں کی ''سیاسی بصیرت‘‘ عملیت پسندی اور سیاسی ہیرا پھیریوں کی تعریفوں میں منہ سے جھاگ اگلتے رہتے تھے‘ اور اب بھی اپنا خون پسینہ ایک کرنے میں لگے ہوئے ہیں‘ نوشتہ دیوار پڑھنے کی افتاد ہی نہیں رکھتے‘ مگر موروثیوں اور ان کے افلاطونوں کی بند کمروں میں مشاورتوں کا کیا ہوا۔ مانتا ہوں کہ ہر جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حالات کا بے لاگ تجزیہ اور متبادل سوچ کی صلاحیت اور آزاد رائے کی جرأت رکھتے ہیں‘ مگر حتمی فیصلے ہر ایسی جماعت میں چند لوگ کرتے ہیں‘ اور آخری لفظ سب سے بڑے کا ہوتا ہے۔ اگر میں ماضی کے ان کے فیصلوں اور سیاسی جوڑتوڑ سے لے کر مری‘ چھانگا مانگا اور حکومت گرائو پالیسیوں کا ذکر کروں تو کئی صفحے درکار ہوں گے۔ کیا حاصل کیا‘ کیا ملک کو دیا‘ اور کس نیک نامی اور شہرت سے زندہ ہیں۔ خیر جہاں زرودولت اور بے پیندہ خزانوں کی دیوی کے پجاریوں کا ملکی سیاست اور معیشت پہ نصف صدی سے غلبہ ہو‘ وہاں ایسی باتوں کو کون خاطر میں لاتا ہے۔
بات تو میں عملی سیاست کی کر رہا ہوں کہ میدان کپتان نے مار لیا ہے‘ اور ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ وقت کم اور معاملات روزانہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ معیشت ڈوب رہی ہے‘ مہنگائی کا جن بے قابو ہے اور اتحادی حکومت کے پاس نہ کوئی منصونہ بندی ہے اور نہ کوئی ایسا لائحہ عمل کہ بگڑی صورتحال کو قابو میں لایا جا سکے۔ ان کے لیے خصوصاً نونیوں کے لیے بہتر تھا کہ اقتدار کا بھاری ''ٹوکرا‘‘ جس کیلئے ان کی اپنی ہی محترمہ نے جو لفظ استعمال کیا ہم تو ضبطِ تحریر میں نہیں لا سکتے‘ سر پر اٹھانے کے بجائے انتخابات کے بارے میں سمجھوتہ کر لیتے۔ اب بھی شاید انہیں ایسا ہی کرنا پڑے‘ مگر اب پلوں کے نیچے سے پانی بہت زیادہ گزر چکا ہے۔ کراتے ہیں تو خسارے میں ہیں‘ تاخیر سے کام لے کر اقتدار میں رہتے ہیں‘ تب بھی۔ ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ رائے ونڈ اور نواب شاہ والے اپنے خلاف مقدمات اور کئی برسوں سے جاری انکوائریوں کو ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں‘ اور انتخابی اصلاحات کی آڑ میں زمین اپنے حق میں ہموار بھی کرنا چاہتے ہیں‘ مگر حالات بدل چکے ہیں اور اس تیزی سے خوفناک آندھی کی صورت قومی افق پر اندیشوں اور گمانوں کا گردوغبار ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ جو بات واضح ہے یہ ہے کہ نونیوں کو سودا مہنگا پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved