باکمال استاد شاعر حضرت احسان دانش بھی کیا منفرد سخن ور تھے۔ ظاہر ہے کہ میں نے ان کا بہت بعد کا زمانہ دیکھا‘ لیکن خوش قسمتی رہی کہ میرے والد جناب محمد زکی کیفی کے دوست ہونے کے ناتے ان سے ان کی وفات (22 مارچ 1982) تک انہیں دیکھنے، پڑھنے، سننے اور ملنے کا سلسلہ جاری رہا۔ 1972 میں میری بڑی ہمشیرہ کی شادی احسان صاحب کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر فیضان دانش سے ہوئی تو احسان صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ملنے کا ایک اور دروازہ کھل گیا۔ انار کلی کے ایک بالا خانے میں احسان صاحب کی رہائش تھی جس کی بیٹھک کا دروازہ نوواردوں اور اجنبیوں کے لیے بھی کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔آپ تنگ، عمودی سیڑھیاں چڑھیں اور ان کی بیٹھک میں پہنچ جائیں جہاں ہر قبیل کے ادیبوں، شاعروں، شاگردوں کا آنا جانا مستقل لگا رہتا تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی سامنے ایک دیوان پر گاؤ تکیوں کی ٹیک لگائے احسان صاحب بیٹھے ہوتے۔ ان کے پیچھے غنی کاشمیری کا شعر جناب خورشید قلم کی عمدہ خطاطی میںایک چوکھٹے میں جڑا ہوا تھا:
ہم چو سوزن دائم از پوشش گریزانیم ما
جامہ بہرخلق می دوزیم و عریانیم ما
(ہم سوئی کی طرح ہمیشہ خود لباس سے گریزاں رہتے ہیں۔ خلق کے لیے ہم لباس سیتے ہیں لیکن خود عریاں ہیں)
احسان دانش صاحب کی یادیں بہت سی ہیں اور انہیں ان شاء اللہ کسی وقت قلم بند کرنے کا ارادہ بھی ہے‘ لیکن اس وقت میرے سامنے سری لنکا میں وزیر اعظم، صدر، وزیروں اور امرا کی رہائشگاہوں اور دفتروں کو آگ لگائے جانے کی تصویریں ہیں۔ گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کی ویڈیوز ہیں۔ بپھرے ہوئے لوگوں کے ہجوم ہیں‘ اور عام آدمی کے ہاتھوں اشرافیہ کی درگت ہے۔ ایسے میں احسان صاحب کی وہ نظم مسلسل ذہن میں گونج رہی ہے:
یہ جنتیں منہ کے بل گریں گی، یہ تخت و ایواں نہیں رہیں گے
مسہریوں پر پڑے گا ملبہ، یہ سازوساماں نہیں رہیں گے
یہاں جو انسان اینڈتے ہیں، یہاں وہ انساں نہیں رہیں گے
وفا کی مہلت نہ مل سکے گی، جفا کے امکاں نہیں رہیں گے
مگر کہاں توبہ توبہ کیجے نظر کسی کی ادھر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
یہ نظم ان کے آخری زمانے کے شعری مجموعے 'فصل سلاسل‘ میں شامل ہے۔ ایک بار میرے پوچھنے پر احسان صاحب نے بتایا تھا کہ یہ نظم انہوں نے پچاس کی دہائی میں مارشل لا سے پہلے لکھی تھی اور پہلی بار کمشنر لاہور کی موجودگی میں ایک جلسے میں پڑھی تھی۔ اس نظم میں جو تند و تیز جذبات ہیں وہ اس شدت کا پتا دیتے ہیں جن کا شاعر کو سامنا تھا اور سری لنکا میں تخت گرائے جانے اور تاج اچھالے جانے والے واقعات کی عملی تصویریں ہیں:
مجھے تو تاریخ کے تقاضے عجیب منظر دکھا رہے ہیں
کہیں دھواں دے رہے ہیں سورج، کہیں فلک لڑکھڑا رہے ہیں
نگاہ میں ارتقا کے خونی چراغ چکر لگا رہے ہیں
جو یہ سماں دیکھتے نہیں ہیں، وہ طنز سے مسکرا رہے ہیں
مگر وہ کس طرح مسکرائے، سکوں جسے رات بھر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
سکوں کسے بخشتی ہے دنیا، سکوں کا کیا انتظار کیجے
یہاں نہیں غمگسار کوئی، یہاں کسے غمگسار کیجے
ہے عقل چکر میں اس فضا سے شعار کیا اختیار کیجے
اتار دیتا ہے دل میں خنجر جسے ذرا دل سے پیار کیجے
کہاں کا رشتہ، کہاں کا ناطہ یہاں کوئی معتبر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے، کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
جب اشرافیہ بھی سمٹ کر ایک خاندان تک محدود ہونے لگے، اس ایک خاندان کے افراد نمائندہ اور اہم عہدوں پر نظر آنے لگیں۔ جب ان کی شان و شوکت، اثاثے اور تکبر آسمانوں کو چھونے لگیں۔ جب ملک کے خزانے ذاتی خزانوں کے سامنے حقیر نظر آنے لگیں اور جب ذاتی خزانے بیرون ملک کی تجوریوں میں منتقل ہوجائیں تو ڈرو اس وقت سے جب کسی بھی ایک چنگاری سے خس و خاشاک کا ڈھیر آگ پکڑ لے‘ اور یہ آگ کسی پانی سے بجھنے والی نہ ہو۔
نہ جانے کس دن عوام بگڑیں، خواص ظلم و ستم بڑھا دیں
نہ جانے کس دن یہ جھونپڑوں کے مکین محلوں کو لڑکھڑا دیں
نہ جانے کس دن غریب گاہک دکانداروں کا زعم ڈھا دیں
نہ جانے کس دن خموش فوجیں نظام نو کا علم اٹھا دیں
نظام نو کا جو سیل روکے مجال دیوار و در نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے، کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
ایسا لگتا ہے کہ سری لنکا میں وہ وقت آگیا ہے جس کی خبر اس نظم میں دی گئی تھی۔ وزیر اعظم مہندا راجا پاکسا نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن ان کے سگے بھائی، صدر گوباٹیا راجا پاکسا نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ صاحب سارے مظاہروں کا محور ہیں اور مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وہ فوراً استعفیٰ دیں۔ انہوں نے ممبر پارلیمنٹ رانیل وکرما سنگھے کونیا وزیر اعظم مقرر کردیا ہے‘ لیکن حالات قابو میں نہیں ہیں۔ مشتعل ہجوم وزیروں کی گاڑیاں نہروں میں پھینک رہے ہیں‘ سرکاری رہائش گاہوں کو آگ لگا رہے ہیں اور وہ ویڈیوز پھیل رہی ہیں‘ جن میں صدر کے زیر استعمال قیمتی گاڑیاں جل رہی ہیں۔ سری لنکا پہلے ہی دیوالیہ ہونے کا اعلان کر چکا ہے‘ اور اس کا ہاتھ پکڑنے والا فی الحال کوئی نہیں۔ خوراک اور روزمرہ کی اشیا کی سخت گرانی ہی نہیں، نایابی بھی ہے۔ ایسے میں ایک عام آدمی کی حالت زار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بات صرف سری لنکا کی نہیں، بات صرف کسی خاندان کی بھی نہیں۔ بات ہوس اقتدار کی ہے اور ہوس زر کی۔ ظاہر ہے کوئی بھی حکمران یہ اقرار نہیں کرے گا کہ میں چوری کرنے اور ڈاکے ڈالنے کے لیے اقتدار میں ہوں۔ سب کے پاس لیبل ایک ہی ہے۔ ملکی مفاد اور عوام کی خدمت۔ یہی لیبل ہر سیاستدان کے پاس بھی ہوتا ہے اور ہر ڈکٹیٹر کے پاس بھی۔
سری لنکا میں جو کچھ ہورہا ہے۔ وہ عبرت خیز ہے۔ یہ سبق ہے اشرافیہ کے لیے جو سالہا سال اپنی جیبیں بھرتی رہتی ہے‘ اور بالآخراس کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ وفا کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی گنجائش ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ اور تو اور جفا اور ستم کے بھی تمام امکان ختم ہوجاتے ہیں‘ اور یہ سبق اور خبر ہے پاکستان کے اہل اقتدار اور فیصلہ سازوں کیلئے‘ اور یہ خبر دینے والے کو داد کبھی نہیں ملتی۔
میں خوب واقف ہوں شاعری کی ملے گی دانش جو داد مجھ کو
گلی گلی میں کریں گے رسوا یہ صاحبان مفاد مجھ کو
قرار دے دیں گے چند نااہل مل کے اصل فساد مجھ کو
مگر خدا ہے گواہ میرا نہیں کسی سے عناد مجھ کو
مرے تصور میں اس بڑھ کر اصول عرض ہنر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے، کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved