ایک فلسفی ایک عرب بدو سے ملا۔ رگِ ظرافت کی طرح‘فلسفی کی رگِ فلسفہ ہوتی ہے۔ فلسفی اس کی ظاہری حالت دیکھ کر افسوس کرنے لگا اور بدو سے کہا: کیا تمہیں کچھ چیزیں بتائوں جن کو ادا کرنے یا سرانجام دینے سے تم ہمیشہ خوش رہو گے ؟ بدو بولا: نہیں!
آج کل سراج الدولہ اور دو سپہ سالاران میر جعفر اور میر صادق سیاسی گفتگو میں بہت زیرِ بحث ہیں۔ مقبول آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے جو کچھ بھی وہ کہتا ہے تو اس پر بحث مباحثہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک جلسے میں عمران خان نے ان تین لوگوں کا نام لیا تو ایک بحث چھڑ گئی اور پوچھا جانے لگا کہ روے سخن کس کی جانب ہے ؟ اب اگر عمران خان کو شعر فہمی کی لت ہوتی تو وہ مرزا نوشہ کا شعر
روئے سخن کسی کی طرف ہو‘ تو رو سیاہ
سودا نہیں‘ جنوں نہیں‘ وحشت نہیں مجھے
سنا کر بات گول کر سکتے تھے کیونکہ اسی قصیدے کا‘ جو مرزا نوشہ نے ابوالمظفر شہنشہاہِ ہند کی شان میں لکھا تھا‘ کا ایک اور شعر عمران خان کے حسبِ حال بھی تھا کہ
مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
اب چونکہ وہ نہ شاعر ہیں اور نہ شعر فہمی کا لپکا ہے بلکہ ایک غیر ملکی دورے میں انہوں نے ایک شاعر کو شعر سنانے سے منع کر دیا تھا اور ارشاد کیا کہ کچھ کام کی باتیں کر لیں‘ شعروشاعری بعد میں بھی ہوتی رہے گی۔ حالانکہ خود ان کا پسندیدہ شعر:
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں‘ لڑا دے کسی بلا سے مجھے
ہے۔ اس شعر کے خالق عدیم ہاشمی ہیں۔ کمال کا شاعر! اس کے ہم عمر اس جیسا شعر کہنے کی حسرت لیے کفن لپیٹ کر چل دیے۔ اس سا ایک شعر نہ کہہ سکے۔ جو ان کے ہم عصر تھے اور زندہ ہیں‘ وہ شعری کفن لپیٹے پھرتے ہیں‘ ان کو کوئی پوچھتا نہیں۔ اس شاعری میں عزتِ سادات بھی گئی۔ گویا اس شعر کے خالق کی سوچ اور عمران خان کی سوچ میں بہت مماثلت ہے۔ عمران خان اصل میں ہمارا ''پیروکار‘‘ہے کہ ہم ایوولوشن کے بجائے ریوولوشن کے قائل ہیں۔ اب عمران خان کو کوئی انقلاب والا راستہ سوجھتا نہیں تو وہ سراج الدولہ اور میر صادق و میر جعفر کا نام لے کر گزارہ کر لیتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن
اب معاملہ یہ ہے کہ دہلی میں پیدا ہونے والا میر محمد جعفر بنگال کیسے پہنچا اور اتنے اہم عہدے پر کیسے فائز ہو گیا؟
سراج الدولہ کا لقب 'ہیبت جنگ‘ تھا۔ تھوڑا سا پیچھے چلنا چاہیے تا کہ خود سراج الدولہ کے بارے میں اڑائی گئی گرد صاف کی جا سکے۔ اورنگزیب کیا‘ ہر مغل بادشاہ کی وفات کے بعد جنگوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ بھائی بھائی کی گردن کاٹ رہا ہوتا تھا بلکہ پنجابی زبان میں کہا جائے تو 'اپنے ہی بہن بھائیوں کے گاٹے اتار رہا ہوتا تھا‘۔ اس میں کسی کو کسی کی پہچان نہیں تھی۔ کون چھوٹا‘ کون بڑا‘ کون بھانجا اور کون بھتیجا۔ تلوار تو خون کی طالب ہوتی تھی‘ اسے کیا پتا کس کا 'گاٹا‘ اترا ہے اور کس کا ابھی اترنے والا ہے۔ یہی تلوار اورنگزیب کے ہاتھ میں تھی تو اس قدر بھاری تھی کہ کوئی اس کو اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ اس کے بعد نمائشی تلواریں بننا شروع ہوگئیں۔ جیسے کاغذ کی تلواریں‘ جیسے بچوں کے کھلونوں جیسی تلواریں۔ کم ذات‘ سازندے‘ ڈھول بجانے والے بادشاہ کے وزیر‘ مشیر بن گئے بلکہ اہلِ حَکم بھی بن گئے۔ ایک بادشاہ کی بیوی لال کنور تو بہت مشہور ہے‘ ایسے لوگ کاوبارِ حکومت میں دخیل ہو گئے۔ پرانے خاندان اور شرفا‘ وزرا گوشہ گیر ہو گئے۔ ایک جگہ اس تلوار کی تابش اور ہیبت اب بھی باقی تھی۔ اس تلوار میں ابھی مغلیہ سطوت موجود تھی۔ وہ تلوار سراج الدولہ کی تھی جو بنگال (جس کو اس وقت بنگالہ کہا جاتا تھا) کا حاکم تھا۔ یہ تلوار اسی میر جعفر نے ہمیشہ کے لیے ٹکڑے ٹکڑے کر دی تھی۔ دہلی تو اس وقت طوائف الملوکی کا شکار تھا‘ مرہٹوں کی طاقت بڑھ رہی تھی ‘ستم یہ ہوا شمال سے نادر شاہ آ دھمکا۔ اورنگزیب کے زمانے میں ستر چھکڑے اشرفیاں اٹھانے اور یہاں سے وہاں لے جانے کے لیے ناکافی ہوتے تھے۔
مغربی اقوام کی آپس میں جنگ و جدل، سیاست اور قلعہ داریاں سب بنگالہ تک تھیں۔ سراج الدولہ کے پیشروئوں ہی نے انگریز کو کلکتہ میں قلعہ بنانے کی اجازت دی تھی۔ اس جگہ کا پرانا نام چٹنا نوٹی تھا‘ یہیں کلکتہ آباد ہوا اور یہیں سترھویں صدی کے آخری سال میں ایک قلعہ فورٹ ولیم میں تبدیل ہو گیا۔ اب آگے آپ خود سمجھ دار ہیں کہ یہاں تاریخ انگریز نے اپنی مرضی کی لکھوائی اور اس کی اس طرح تشہیر کی کہ یہی اصل تاریخ ہے۔ اقبال نے میر جعفر کو ادب میں شعر کے ذریعے متعارف کرایا تھا‘ وگرنہ وہ تو کسی کاٹھ کباڑ میں گل سڑ گیا تھا۔ ان کے سامنے جب سراج الدولہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: قوم نے اس کو پہچانا نہیں‘ ورنہ مرشد آباد دوسرا اجمیر (مرجع خلائق)بن جاتا۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ موجودہ دور کے میر جعفروں کو بھی ادب میں داخل کر دیا اور کہا کہ
الاماں از روحِ جعفر الاماں
الاماں از جعفرانِ این زماں
کے شبِ ہندوستاں آید بروز
مُرد جعفر زندہ روحِ او ہنوز
جعفر اندر ہر بدن ملت کش است
این مسلمانے کہن ملت کش است
ویسے سراج الدولہ اور میر جعفر کی آپس میں پرانی دشمنی تھی‘ دونوں علی وردی خان کے کمانڈر تھے۔ میر جعفر کی کمان کئی دفعہ سراج الدولہ کو دی گئی۔ بنگال میں انگریزوں سے زیادہ علی وردی اور سراج الدولہ کو مرہٹوں اور افغانوں سے خطرہ رہا اور زیادہ عرصہ انہی سے جنگ و جدل میں گزرا۔ تاریخ پڑھتے ہوئے سراج الدولہ سے زیادہ جھانسی کی رانی مجھے ہمیشہ پسند آئیں۔ انہوں نے اپنے آخری وقت کہا تھا کہ انگریز کو میرا مردہ جسم بھی نہیں ملنا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ بائیس سالہ رانی‘ اصل رانی تھی۔ اب اس عہد کے میر جعفر کون ہیں‘ عمران خان نے اپنے بیان کو جہلم کے جلسے میں واضح کر دیا۔
ابھی گزشتہ روز وائٹ ہائوس میں آسیان ممالک کا اکٹھ ہوا۔ سب کو چین سے خطرہ ہے‘ جس کا انہوں نے برملا اظہار کیا۔ ان ممالک میں بھارت‘ جاپان‘ انڈونیشیا اور جنوبی کوریا‘ سارے چین کے خلاف ایک ہو گئے ہیں‘ اسی طرح جیسے ساری جماعتیں عمران خان کے خلاف ایک ہو گئی ہیں۔ جیسے ان ممالک کو خطرہ ایک ملک سے ہے ویسے ہی ان پارٹیوں خطرہ ایک عمران خان سے ہے۔ دوسری طرف میر صادق نے ٹیپو سلطان کو دھوکا دیا تھا۔اصل بات تو جلیل کہہ گئے
ہم بھولے ہوئے راہ ہیں اے کعبہ نشینو
جانا تھا کہیں اور نکل آئے کہیں اور
لہٰذا ایسے حوالوں سے اجتناب بہتر ہے۔ سراج الدولہ کو میر جعفر کے سترہ سالہ بیٹے میرن نے بیدردی سے قتل کیا تھا اور اس کا خون آلود سر قلی خان کے گھر کے سامنے لٹکایا بھی تھا۔ اس سر سے اس وقت بھی خون کے قطرے گر رہے تھے۔ ویسے ایک بات ہے کہ تقسیمِ ہندوستان یعنی انگریزوں کے کوچ کرنے تک مرشد آباد کی مسند پر میر جعفر کی اولاد قابض تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved