ہم اس وقت دو دنیائوں میں رہ رہے ہیں۔ ایک وہ دنیا جس میں ہم سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے اور اپنے جسمانی افعال سر انجام دیتے ہیں اور ایک دنیا وہ ہے جس میں ہم ذہنی اور دماغی طور پر وقت گزارتے ہیں‘ جسے ہم ورچوئل دنیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ہی ہم موبائل فون یا کمپیوٹر استعمال کرنا شروع کرتے ہیں‘ ہم اس ورچوئل دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں جس کے بعد ہمارا رابطہ حقیقی اور زمینی دنیا سے تقریباً منقطع ہو جاتا ہے۔ اپنے طور پر ہم ایک دوسرے کے قریب ہونے اور دنیا کے حالات سے مزید باخبر رہنے کے لیے یہ سب کرتے ہیں لیکن حقیقی طور پر ہم ایک دوسرے سے مزید دور ہو جاتے ہیں اور اپنوں کے حالات و واقعات سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی اس دنیا میں ٹیکنالوجی کی کمپنیاں ہر آنے والے سال میں نئی سے نئی اختراعات اور آئیڈیاز لے کر آتی ہیں اور اربوں ڈالر صرف تجرباتی طور پر یہ جاننے کے لیے خرچ کر دیے جاتے ہیں کہ یہ آئیڈیا کیسا رہے گا۔ آئندہ کچھ برسوں میں باقاعدہ طور پر ایک نئی دنیا قائم ہونے جا رہی ہے جس کی ایک شکل ورچوئل انٹرنیٹ گیمنگ کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے کہ جس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بیٹھے کھلاڑی (پلیئرز) آن لائن ایک ایسی غیرحقیقی یا ورچوئل دنیا میں اتر کر آپس میں انٹرایکشن کرتے ہیں جس دنیا کو صرف وہی دیکھ‘ سن اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس آئیڈیا کو لے کر ہی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ذہن میں 'میٹا ورس‘ یعنی ایک الگ آن لائن دنیا بنانے کا خیال آیا۔ اس دنیا میں داخل ہونے کے لیے لوگوں کو ایک ڈیوائس‘ جسے وی آر ہیڈ سیٹ کہتے ہیں‘ پہننا ہو گی جس کے بعد ان کی آنکھوں کے سامنے ایک بالکل نئی دنیا ہو گی۔ وہ بیٹھے تو اپنے گھر میں ہوں گے لیکن اس ڈیوائس کے ذریعے وہ دنیا کے دوسرے حصے میں خود کو چلتا پھرتا‘ باتیں کرتا اور لوگوں سے انٹرایکشن کرتا دیکھ اور محسوس کرسکیں گے۔ وہ اس ورچوئل دنیا میں ہر وہ کام کر سکیں گے جس کی وہ خواہش کریں گے‘ ایسے ایسے لوگوں سے ملاقات کر سکیں گے جن سے ملاقات کا وہ کبھی خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہوں گے اور نہ صرف وہ یہ سب دیکھ سکیں گے بلکہ اس ماحول میں موجود لوگوں سے بھی باتیں کر سکیں گے۔ یہ تجربہ وڈیو دیکھنے سے بالکل مختلف ہے۔ وڈیو آپ کے سامنے سکرین پر چل رہی ہوتی ہے لیکن اس ڈیوائس کو آنکھوں پر پہننے کے بعد آپ خود کو جسمانی طور پر اس جگہ پر محسوس کرتے ہیں جہاں کے مناظر آپ کے سامنے چلتے ہیں۔ آپ اگر دائیں طرف گردن کرتے ہیں تو جس طرح عام دنیا میں آپ کو دائیں طرف کا منظر دکھائی دیتا ہے‘ اسی طرح آپ کو اس ورچوئل دنیا میں بھی دائیں طرف کی چیزیں بالکل حقیقی انداز میں نظر آئیں گی۔ آپ اپنے گھر کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے اپنے بچپن کی گلیوں میں چل پھر سکیں گے یا پھر لندن یا پیرس کے عوامی مقامات کی سیر کا مزہ لے سکیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دنیا کو بنانے کا مقصد کیا ہے؟ آخر اتنی بڑی دنیا کے ہوتے ہوئے مصنوعی دنیا بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ تو اس کا جواب ہے بے چینی! انسان بنیادی طور پر ایک بے چین روح ہے۔ اسے کسی حالت میں قرارنہیں۔وہ کسی ایک ماحول میں زیادہ دیر نہیں گزار سکتا۔ تبدیلی بنیادی طور پر اس کی طبیعت کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ وہ صبر اور جبر کے ذریعے خود کو ایک جیسے حالات‘ ایک جیسے کھانے‘ ایک جیسے لوگوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش جاری رکھ سکتا ہے لیکن اگر اسے اپنے فیصلوں میں آزاد کر دیا جائے تو وہ یکسانیت سے بیزار ہو جاتا ہے اور نئی دنیا کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔ میٹا ورس بھی ایسے ہی بے چین اور کاروباری ذہنیت کے حامل لوگوں کی اختراع ہے جنہیں ہر پل کچھ نہ کچھ نیا دیکھنا اور دوسروں سے مختلف کرنا ہے۔یہ دنیا اس لیے بھی بنائی جا رہی ہے کیونکہ اس میں لوگوں کا رِسپانس اور پیسے کی آمد روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے۔
دنیا کی آبادی آٹھ ارب کو جا پہنچی ہے۔ انٹرنیٹ ساڑھے چار ارب سے زائد افراد کی دسترس میں آ چکا ہے۔ چار ارب افراد گوگل استعمال کرتے ہیں۔فیس بک کے صارفین بھی تین ارب سے بڑھ چکے ہیں۔دنیا کی دس بڑی کمپنیوں یا دس امیر ترین افراد میں سے آٹھ کمپنیاں اور آٹھ افراد کا تعلق ٹیکنالوجی کی کمپنیوں ہی سے ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ اب ہماری زندگیوں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ یہی کمپنیاں اوریہی لوگ کیا کریں گے۔ پہلے ہم کھانا لینے‘ کپڑے خریدنے اور شاپنگ کرنے کے لیے بازار کا رخ کرتے تھے لیکن ٹیکنالوجی کے ان گروئوں نے خریداری کے انداز ہی بدل دیے۔ اب ہم گھر بیٹھے موبائل فون پر ایک ٹچ کے ذریعے لاکھوں روپے کی خریداری کرتے ہیں اور بھوک لگنے پر آدھی رات کو کھانا بھی آن لائن آرڈر کر دیتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی اس نئی دنیا نے ہمیں بہت سی پابندیوں کی قید سے آزاد کر کے نئی پابندیوں اور نئے اصولوں کے حوالے کر دیا ہے؛ تاہم میٹا ورس آنے کے بعد یہ نئی دنیا اگلے مرحلے میں قدم رکھ دے گی۔ اس دنیا میں سب کچھ تصوراتی ہو گا لیکن آمدن حقیقی ہو گی؛ یعنی آپ آنکھوں پر وی آر سیٹ ڈیوائس پہن کر ہاتھ میں موبائل‘ ریمورٹ یا کی بورڈ کی مدد سے اس دنیا میں داخل ہو کر مختلف افعال سر انجام دیں گے۔یہ دنیا بالکل نئے سرے سے شروع ہو گی۔ جس طرح ہم کمپیوٹر کی مدد سے کسی گھر‘ ہائوسنگ سوسائٹی یاپلازے کا نقشہ بناتے ہیں بالکل اس طرح ہم جب آنکھوں پر ڈیوائس پہنے اس دنیا میں داخل ہوں گے تو وہاں بھی نئی عمارات قائم کرنے کے لیے کام کریں گے۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں صارفین کے لیے نئے نئے ٹاسک تخلیق کریں گی۔ جس طرح پب جی جیسی گیموں میں ہمیں جنگ کے نئے میدان نظر آتے ہیں‘ وہ جہاز جہاں سے جنگجو گیمرز چھلانگ لگا کر اترتے ہیں اور جن عمارتوں میں داخل ہوتے ہیں‘ جنگلات‘ بیابانوں‘ ندیوں اور سڑکوں سے گزرتے ہیں‘ اس نئی دنیا میں بھی شہر بسائے جائیں گے جہاں مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے بھی نت نئے انداز اپنائے جائیں گے۔ کولڈ ڈرنکس اور چاکلیٹس وغیرہ جو ہم اس دنیا میں کھاتے‘ پیتے ہیں اور جن کے اشتہارات ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں‘ ایسی کمپنیاں وہاں بھی اربوں روپوں کے اشتہارات جاری کریں گی اور یوں اس جسمانی دنیا سے نکل کر ہم نئی مصنوعی اور غیر حقیقی دنیا میں داخل ہو جائیں گے اور ایک دن آئے گا کہ یہ سب ہمارا اوڑھنا بچھونا بن جائے گا‘ بالکل اسی طرح جس طرح آج سے بیس پچیس سال قبل جب سمارٹ فون اور انٹرنیٹ نہ تھا اور ہماری زندگی قطعی مختلف تھی لیکن آج موبائل فون ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اب ہم صبح آنکھ کھلنے سے وٹس ایپ اور فیس بک چیک کرنے سے لے کر رات آنکھیں بند ہونے تک مسلسل ان سے جڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہی حال میٹا ورس یا نئی ورچوئل دنیا کی ایجاد اور اس کے عام ہونے کے بعد ہو گا۔ جس طرح ہم فیس بک پر جا کر وال پر دوسروں کی مصروفیات دیکھتے ہیں اسی طرح ہم نئی ورچوئل میں جا کر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آج فلاں کی ورچوئل دنیا میں کیا کچھ نیا ہو رہا ہے اور یہ سب کرتے ہوئے ہمیں وقت کا گزرنے‘ بالکل اسی طرح کوئی احساس نہیں ہو گا جس طرح آج موبائل استعمال کرتے ہوئے محسوس نہیں ہوتا اور شاید اس نئی اور مصنوعی دنیا کی سب سے بڑی ناکامی اور نقصان یہی ہو گا کہ ہم اپنوں سے مزید دُور ہو جائیں گے۔ وقت ہمیں اتنی تیزی کے ساتھ بہا کر لے جائے گا کہ ہم ہاتھ بھی نہیں مل سکیں گے؛ چنانچہ یہ دنیا‘ جس میں ہم رہ رہے ہیں‘ ختم ہونے والی ہے اور ایک ورچوئل اور مصنوعی دنیا کا آغاز ہونے کو ہے اور وہاں بھی اس دنیا کی طرح سب کا مطمح نظر پیسہ کمانا‘ وقت گزاری اور انٹریٹنمنٹ ہی ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved