تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-05-2022

ماحول کے لیے کچھ سوچیے!

دنیا بھر میں موسموں کا پیٹرن تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ قدرت کے کھاتے میں ڈال کر سکون کی چادر تان لینے کا رجحان عام ہے۔ ہم غور نہیں کرتے کہ قدرت نے ہمارے لیے جو سختیاں اور نرمیاں رکھی ہیں وہ ہمارے مزاج اور سکت کو دیکھتے ہوئے رکھی ہیں مگر جب ہم اپنے لیے مشکلات کا انتخاب کرتے ہیں تو قدرت کا پیدا کردہ توازن بگڑ جاتا ہے۔ ہمارا پیدا کیا ہوا بگاڑ پورے ماحول کو خرابیوں سے دوچار کرکے دم لیتا ہے۔
ہر دور کے انسان نے قدرت کے خلق کردہ ماحول کو محض بگاڑنے سے غرض رکھی ہے۔ لوگ قدرتی ماحول سے خوب استفادہ کرتے ہیں مگر اُس میں پیدا ہونے والی کمی یا خامی کو دور کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ اللہ نے ہمیں جتنے بھی قدرتی وسائل عطا کیے ہیں وہ سب ہمارے لیے ہیں مگر اُنہیں پائیدار بنائے رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لایا جائے‘ خرابیوں کو دور کیا جائے۔ محض بگاڑ پیدا کرتے رہنے کی ذہنیت نے آج پورے کرۂ ارض کو انتہائی نوعیت کی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے۔ زمین سے فصلیں حاصل کرنے پر تو خوب توجہ دی جاتی ہے مگر زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے یا بڑھانے کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ اِسی طور بہت سا کچرا جہاں تہاں پڑا رہنے دیا جاتا ہے۔ لوگ سوچتے نہیں کہ کچرا پڑے پڑے خرابیوں ہی کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ کچرے کے ڈھیر وباؤں کو جنم دیتے ہیں۔ پس ماندہ علاقوں میں لوگ ماحول کو صاف رکھنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے اور پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ سوچے سمجھے بغیر آگ لگاتے رہنے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ کہاں جاتا ہے؟ دھواں کسی دوسرے سیارے کا رخ نہیں کرتا۔ وہ ہمارے ماحول ہی میں سرایت کرتا رہتا ہے۔ ہمارا پیدا کردہ دھواں دوسرے علاقوں کو خراب کرتا ہے اور دوسروں کا پیدا کردہ دھواں ہمارے ماحول کو گندا کرتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، خرابیاں پنپتی رہتی ہیں مگر لوگ اصلاحِ احوال پر مائل نہیں ہوتے۔ ہر ملک، مذہب، نسل، ثقافت اور طبقے کے لوگ ایک بدیہی حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں‘ یہ کہ باقی تمام معاملات تو اپنی اپنی جگہ مگر ماحول کا معاملہ ایسا ہے جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ماحول سب کا مشترکہ اثاثہ اور میراث ہے۔ کرۂ ارض کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہم سب کا مقدر ہے۔ اِس میں ہم سب کا حصہ ہے۔ ہم سبھی مل کر پورے کرۂ ارض کے ماحول کو خرابیوں سے دوچار کر رہے ہیں۔ یہ خرابیاں چونکہ پلٹ کر ہماری طرف آتی ہیں اور ہماری زندگی میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں اس لیے اِن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔
پوری دنیا کے انسانوں نے ماحول سے جو کھلواڑ کیا ہے‘ اُس کے منطقی نتیجے کے طور پر موسموں کا پیٹرن تبدیل ہوگیا ہے۔ جہاں بارشیں نہیں ہوتی تھیں وہاں بے حساب بارشیں ہو رہی ہیں۔ جہاں کبھی برف نہیں گرتی تھی وہاں خوب برف باری ہو رہی ہے۔ کہیں ایسی گرمی پڑ رہی ہے کہ انسان پگھل جائے اور کہیں خون منجمد کردینے والی سردی پڑ رہی ہے۔ ہر معاملہ اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ موسمی تبدیلیاں اِتنی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہیں کہ تمام تنازعات کو ایک طرف ہٹاکر دنیا بھر کی حکومتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آجانا چاہیے، زمین کو بچانے کا پلیٹ فارم! زمین کو پہنچنے والا نقصان سب کا نقصان ہے۔ یہ سوچ جب تک عام نہیں کی جائے گی تب تک بات نہیں بنے گی۔ ہم یومیہ بنیاد پر ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو ماحول کو زیادہ سے زیادہ گندا کرتا رہتا ہے۔ عام آدمی کو ماحول کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ سکھانے کی ضرورت ہے۔ اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اُس کی سرگرمیوں سے ماحول کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے‘ جو پہنچ رہا ہے۔ جب نقصان کا اندازہ ہوگا تو انسان ماحول کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے سوچ کو بھی پروان چڑھائے گا اور اس حوالے سے کچھ کرنے پر کمربستہ ہوگا۔
ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی کئی جہتیں ہیں۔ دنیا بھر میں جاری صنعتی عمل بھی ماحول کو گندا کرتا رہتا ہے۔ بڑے ادارے اپنی فیکٹریوں اور پلانٹس سے نکلنے والے کچرے کو ڈھنگ سے ٹھکانے نہیں لگاتے۔ قوانین موجود ہیں کہ صنعتی کچرا معقول حد تک ٹریٹمنٹ کے بعد ٹھکانے لگایا جائے گا مگر بالعموم ایسا کیا نہیں جاتا کیونکہ سب کو اخراجات کا گراف نیچے رکھنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچت کے چکر میں ماحول کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ یہ تو ہوا صنعتی اداروں کا معاملہ۔ تجارتی ادارے بھی اپنا کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے نہیں لگاتے۔ سارا کچرا جمع کرکے یا تو آگ لگادی جاتی ہے یا پھر اِدھر اُدھر، کسی خالی پلاٹ پر یا کھیل کے میدان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ سڑک پر ہی کچرا پھینک دیتے ہیں۔ جن تجارتی مراکز کا ہر دکاندار یومیہ دس‘ بارہ ہزار تک کماتا ہے اُن مراکز کے دکاندار بھی مل کر کوئی ایسا انتظام نہیں کرتے کہ کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے لگایا جاتا رہے اور صفائی کا معاملہ درست رہے۔ صرف پیسہ کمانے پر توجہ رہتی ہے۔ بعض دھندوں میں کچرا اچھا خاصا پیدا ہوتا ہے مگر اُسے خاصی بے عقلی اور بے حسی کے ساتھ ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ لکڑی کے کارخانے بہت بڑے پیمانے پر بُرادہ پیدا کرتے ہیں۔ برادہ اڑ‘ اڑ کر آس پاس کے گھروں، دکانوں اور دیگر عمارتوں کے مکینوں کو شدید متاثر کرتا رہتا ہے۔ جہاں زیادہ آرا مشینیں لگی ہوں وہاں کے لوگ سانس لینے میں دشواری محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بہت سے ٹھیلے والے اپنا مال بیچنے کے بعد کچرا وہیں چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ اس طرح کا کچرا سڑک کو گندا کرنے کے ساتھ ساتھ صحتِ عامہ کے مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔ بعض ٹھیلے والے پھل بیچنے کے بعد سڑے ہوئے پھل وہیں پھینک کر چل دیتے ہیں۔ یہ بہت چھوٹے معاملات ہیں مگر جب ہزاروں افراد ہر روز ایسا کریں تو ماحول کو خراب ہونے سے بچایا نہیں جاسکتا۔ ماحول کی ابتری ہی کے نتیجے میں موسموں نے انتہائی شکل اختیار کی ہے۔ انسانوں میں پائی جانے والی انتہا پسندی اب موسموں میں بھی در آئی ہے۔ وہ بھی حد سے گزر جانے پر آمادہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
دنیا بھر کی حکومتوں کو اس حوالے سے فوری طور پر کچھ کرنا ہے۔ ماحول کو مزید خراب ہونے سے روکنا اور اب تک پیدا ہونے والی خرابیوں کا ازالہ لازم ہے۔ یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ سوال صرف وسائل کا نہیں‘ سوچ کا بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سوچ پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ ماحول کو جتنا بھی نقصان پہنچا رہا ہے‘ وہ پلٹ کر آئے گا اور اُسے بھی نقصان سے دوچار کرے گا۔ بڑے صنعتی اور تجارتی اداروں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے نہ لگانے کی صورت میں پورے کرۂ ارض کو نقصان پہنچتا ہے۔ دیہی علاقوں میں ایندھن کے طور پر لکڑی جلانا عام ہے۔ یہ عمل بہت بڑے پیمانے پر تو بہت سے علاقوں بلکہ ممالک کے لیے مسائل کھڑے کرتا ہے۔ بھارتی صوبوں پنجاب اور ہریانہ میں ہر سال نئی فصل کی بُوائی کے لیے پُرانی فصل کے کچرے کو آگ لگانے کے عمل سے اتنے بڑے پیمانے پر دھواں پیدا ہوتا ہے کہ دُھند کے ساتھ مل کر یہ دہلی اور لاہور تک قیامت کا سماں پیدا کردیتا ہے۔ پنجاب میں ہر سال سردیوں میں لوگوں کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ یہ سب فضا کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ زمین پر پایا جانے والا کچرا بھی کم ستم نہیں ڈھاتا۔ صفائی کا انتظام ناقص ہونے کے باعث پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیائے خور و نوش کے کچرے سے اٹھنے والا تعفن بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔
وقت آگیا ہے کہ ماحول کے بارے میں سنجیدہ ہوا جائے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے حالات اچھے نہیں۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں صفائی کا ناقص اور غیر معیاری انتظام ماحول کو آلودہ کرکے صحتِ عامہ کے مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ کراچی کنکریٹ کی عمارتوں کے جنگل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جہاں درخت ہوا کرتے تھے وہاں لوگوں نے پان کے کیبن وغیرہ لگاکر دھندا شروع کردیا ہے۔ اب آنگن ختم کرکے ایک آدھ کمرا بناکر کرائے پر چڑھانے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ ایسے میں بہتری کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved