یہ ڈرامہ چل نہیں سکتا، جتنی دیر جاری رہے گا حالات مزید خراب ہوں گے۔ اِن سطور کے لکھتے وقت ڈالر 195-196 تک پہنچ چکا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ معیشت کے ساتھ کیا تباہی ہو رہی ہے۔ جب ایک چیز چلنے والی ہی نہیں تو عقلِ سلیم کا تقاضا ہے کہ اُسے ختم کیا جائے۔ مخمصہ یہ ہے کہ حالات بڑے ہیں اور جن لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا ہے وہ بہت چھوٹے ہیں۔ بڑے فیصلے کرنے کے یہ قابل ہی نہیں‘ لہٰذا جس طریقے سے لائے گئے ہیں قومی مفاد میں یہی ہے کہ اُسی طریقے سے اِنہیں فارغ کیا جائے۔
ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ نواز شریف اور آصف زرداری وغیرہ نے وہ الیکشن نہیں کروانے جن کے نتیجے میں عمران خان اقتدار میں آئے۔ ویسے بھی اِن دونوں لیڈران کی ترجیحات اور ہیں۔ معیشت یا ملک بھاڑ میں جائے اِن کو اپنے مقدمات اور اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی پڑی ہوئی ہے۔ اِن سے بڑے فیصلوں کی توقع نہ کی جائے۔ یاد رہے کہ اپنے مفادات کے گرد گھومتے ہوئے یہ چھوٹے اور خود غرض لوگ ہیں۔
پہلے یہ دیکھ لیں کہ ہونا کیا چاہئے۔ ہونا یہ چاہئے کہ اِس ڈرامے کو ختم کیا جائے۔ شہباز شریف خود قومی اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے لیکن اُنہیں باور کرایا جائے کہ قومی مفاد میں یہی ایک راستہ ہے اور جتنا جلدی وہ یہ کریں قوم کیلئے یہی بہتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُنہیں سمجھائے کون؟ سمجھائیں وہی لوگ جو اِس ڈرامے کے پیچھے ہیں، جن کی مدد کے بغیر یہ سب کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔ یہ جو سوشل میڈیا میں کھلے خطوط چھپ رہے ہیں اور جو کھلی تنقید ہو رہی ہے ایسا پہلے کبھی دیکھا گیا تھا؟ موجودہ ٹینشن اور بحران شریف زادوں اور زرداریوں کے مفاد میں تو ہو گا قوم اور اداروں کے مفاد میں نہیں۔
اِس صورتحال میں لازمی بنتا ہے کہ جن کے دستخطوں سے کچھ ہونا ہے اُن کے مزاج اور ذہنوں کو تھوڑا درست کیا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی ہمارے دوست راجہ پرویز اشرف کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے استعفے فوراً منظور کئے جائیں، اِس امر میں اب کوئی لیت و لعل کی گنجائش نہیں۔ ساتھ ہی پنجاب اسمبلی کے حوالے سے منحرف ارکان کا جو کیس الیکشن کمیشن کے سامنے ہے اُس کا فیصلہ جلد سے جلد کیا جائے۔ منحرف ارکان تو شریف اصطلاح ہے، دراصل یہ لوٹے ثابت ہوئے جو پی ٹی آئی کو چھوڑ کر حمزہ شہباز کے ووٹر بن بیٹھے۔ اِن کی رکنیت ختم ہونی چاہئے اور جب ہوتی ہے تو چیف منسٹر پنجاب کا ڈرامہ خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔ یہ دو اقدام ہو جائیں تو شہباز شریف کا وزیراعظم رہنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ سمجھانے والوں کیلئے پھر آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آدھی قومی اسمبلی فارغ ہو اور حمزہ شہباز کی چیف منسٹری کا ناٹک ختم ہو تو پھر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔
اسمبلیاں تحلیل ہوں اور انتخابات کی تیاریاں ہوں۔ روایت یہاں رہی ہے کہ قائم مقام حکومتیں فالتو اور بیکار لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اِس دفعہ ایسا نہ کیا جائے اور تگڑی قائم مقام حکومتیں بنائی جائیں جو تین یا چار ماہ کے عرصے میں مشکل فیصلے لے سکیں۔ تیل اور ڈیزل کی قیمتوں کے بارے میں جو فیصلے کرنے ہیں وہ قائم مقام حکومت کرے۔ تنقید ہونی ہے اُس پر ہو، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہونے ہیں تو وہ کریں۔ اِن اقدامات میں دیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ قوم کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔
انتخابی اصلاحات اِس حد تک ہوں کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے۔ یہ کیسی عجیب صورتحال ہے کہ غیر ملکی پاکستانیوں کے ڈالروں پہ تو ملک چلے اور وہ ڈالر آنا بند ہو جائیں تو ہمارا دیوالیہ کچھ دیر بعد کے بجائے فوری ہو جائے لیکن اُن کو ووٹ سے محروم رکھا جائے۔ یہاں تو یہ ہونا چاہئے کہ جو باہر سے ڈالر بھیجتے ہیں اُن کے ایک ووٹ کے بجائے دو ووٹ ہونے چاہئیں اور ہم ہیں کہ اُن سے ڈرے ہوئے ہیں کہ پتا نہیں اُن کے ووٹ کس طرف جائیں گے اور کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔ وسوسوں سے ہمیں نکل آنا چاہئے دبنگ فیصلوں کا یہ وقت ہے‘ نہیں تو قوم کی کشتی جو بھنور میں ویسے ہی پھنسی ہوئی ہے کہیں ڈوبنے کی طرف زیادہ نہ چلی جائے۔ البتہ سمندرپار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے علاوہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے چکر میں پڑنے کا یہ وقت نہیں۔ یہ تجربہ بعد میں کیا جا سکتا ہے، فی الوقت انتخابات ہوں اور فوری ہوں اور اِن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں قبول اور برداشت کئے جائیں۔ عمران خان کی مقبولیت اِس وقت بہت اونچی جا چکی ہے‘ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی پارٹیاں ختم ہو گئی ہیں۔ اُن کا اپنا پنا حلقۂ نیابت ہے، ڈٹ کے مقابلہ کریں اور حصے میں جتنا کچھ آتا ہے‘ اُس پر گزارہ کریں۔ انتخابات کا یہ مطلب نہ ہوگا کہ سب کچھ حل ہو جائے گا۔ انتخابات تو ایک ذریعہ ہوں گے اِس بحران سے نکلنے کیلئے تاکہ آگے کی طرف قدم اٹھائے جاسکیں۔ ملکی مسائل وہیں کے وہیں رہیں گے اور ان کے بارے میں سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔ پتا نہیں اکثریت کس کے حصے میں آتی ہے لیکن جیسے قیاس کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی عوامی پوزیشن اچھی ہے حکومت بنانے میں وہ کامیاب ہوتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ اپنے تجربات سے اُنہوں نے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔ اقتدار میں تھے تو ان سے بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ غلطیاں دہراتے ہیں یا کچھ نئی بات کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ سب کچھ کھلا ہے، بہت کچھ ہو سکتا ہے اور یہ موقع ضائع بھی ہو سکتا ہے۔
تاریخ پاکستان کے مطالعہ سے البتہ امید پیدا نہیں ہوتی۔ ہماری قومی زندگی میں کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ فیصلوں میں دیر ہوئی یا جو فیصلے لیے گئے وہ حکمت اور دانائی سے عاری تھے۔1971ء میں حکمت کا تقاضا تھا کہ انتخابی نتائج کو تسلیم کیا جائے اور اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کیا جائے‘ لیکن مقتدر حلقوں اور بڑے سیاسی لیڈروں نے ایسا نہ کیا جس کی بھاری قیمت قوم کوچکانا پڑی۔ 1977ء میں حکومتِ وقت اور اِس کی مخالف سیاسی قوتیں بروقت فیصلے نہ لے سکیں جس کے نتیجے میں قوم کو ایک طویل مارشل لا کا عذاب بھگتنا پڑا۔ اُس دوران قوم کو جو ٹیکے لگے اُن کے اثرات سے اب تک ہم نکل نہیں سکے۔ قومی کم عقلی کی یہ محض دو مثالیں ہیں‘ فہرست بنائی جائے تو بہت لمبی ہو جاتی ہے۔ اِس تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ جن ہاتھوں میں فیصلہ سازی کا عمل ہے وہ درست فیصلے لے سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مفادات ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ دل و دماغ بغض اور کدورتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسے میں جسے ہم قومی قیادت کہتے ہیں اُسے کون صحیح راستے کا بتائے گا؟ لیکن یہ بھی عیاں ہے کہ قوم کیلئے موجودہ وقت میں تاخیر کوئی آپشن نہیں۔ تباہی کے بادل ہمارے سامنے ہیں اور طوفان سے بچنے کے بجائے طوفان کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔
یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ چھوٹے لوگ بھی ہمت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جو اپنے وجود میں سکڑ کے رہ گئے ہیں اور ہر طرف تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اُنہیں بھی اپنے آپ کو جھنجھوڑنا چاہئے تاکہ ملک و قوم کی بہتری ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved