کس کو معلوم یہ آگ کہاں تک پہنچے؟ کیسے کیسے طبل جنگ بجائے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو للکارتے‘ دھمکاتے بات جنازوں تک آن پہنچی ہے۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ میرے مخالفین اکٹھے ہیں‘ ان کا جنازہ بھی اکٹھا ہی نکلے گا۔ اف خدایا! یہ کون سا معرکہ ہے جو یہ سبھی سماج سیوک نیتا ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے دکھائی دیتے ہیں۔ بربادی و تباہی ایک دوسرے کو ورثے میں دینے کے بعد کس طرح دودھ کے دھلے بن کر دھمال ڈالے چلے جارہے ہیں۔ کئی دہائیاں شوقِ حکمرانی پورے کرنے والے ہوں یا حالیہ ساڑھے تین سال حکمرانی کے جوہر دکھانے والے‘ سبھی کے دامن میں ناکامی‘ بدنامی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ جلسوں میں جو آگ لگائی جارہی ہے‘ اس کے شعلے اخلاقی قدروں سے لے کر رواداری اور باہمی احترام سمیت نجانے کیا کچھ بھسم کیے چلے جارہے ہیں۔ اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار ملک کو دیوالیہ کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ جب قائدین ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے مرنے‘ مارنے کی ترغیب دیں گے تو سننے والے اسے اپنے لیڈر کی ہدایت سمجھ کر وہ آگ لگا سکتے ہیںجو خود اُن سے بھی نہیں بجھے گی۔
مقامِ سبق ہے ان کے لیے جو سری لنکا کے حالات سے عبرت حاصل کرسکیں۔ کون سا صدر اور کہاں کا وزیراعظم۔ سڑکوں پر وزیر آگے آگے اور عوام جوتے ڈنڈے لے کر ان کے پیچھے پیچھے۔ قصرِ اقتدار سے لے کر لگژری گاڑیوں اور وسیع و عریض رہائشگاہوں تک‘ وہ آگ لگائی گئی ہے جو عوام کے سینوں میں نجانے کب سے بھڑک رہی تھی۔ ٹھاٹ باٹ‘عیش و آرام‘تام جھام‘ پروٹوکول تو درکنار‘ عوام پر شوق حکمرانی پورے کرنے والوں کو جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کس کے کیا کام آیا ؟ کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ خدارا! ہوش کے ناخن لیں۔ مملکتِ خداداد سیاسی اشرافیہ کی کوئی جاگیر نہیں ہے جس کے لیے یہ لڑ رہے ہیں۔ اس پر حق جتانے سے پہلے اپنے دورِ حکمرانی کو ضرور یاد کریں۔ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ شعلہ بیانیوں سے عوام کا لہو گرمانے سے پہلے اس کارکردگی کا بھی ذکر کریں جس کا وعدہ کیا گیا تھا مگر درحقیقت وہ جھانسہ ثابت ہوا۔ محض بیانیوں کو ٹاپ ٹرینڈ بنانے سے بھیڑ چال میں اضافہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن ناکامیوں‘ بدنامیوں اور جگ ہنسائی کا باعث بننے والی طرزِ حکمرانی کے داغ نہیں دھوئے جاسکتے۔
برطانوی اور امریکی شہریت کے حامل مشیروں اورمصاحبین کے جھرمٹ میں 'امریکا کا جو یار ہے‘ غدار ہے‘ کے نعرے لگوا کر کسے بیوقوف بنایا جارہا ہے؟ ذرا معلوم تو کریں امریکا مخالف بیانیے کو ٹاپ ٹرینڈ بنانے والوں کی امریکا سے کیا وابستگیاں ہیں۔ ان کا مستقل ٹھکانا تو امریکا اور برطانیہ ہی ہیں۔ ان کی نوکریاں وہاں‘ بیوی بچے وہاں‘ بینک بیلنس وہاں‘ جینا مرنا وہاں۔ پاکستان تو وہ بس شوقِ حکمرانی سے مجبور ہوکر آتے ہیں۔ جس مہنگائی اور بربادی کا بھاشن جلسوں میں دیا جارہا ہے‘ اس میں سبھی برابر کے شریک اور ذمہ دار ہیں۔ حالاتِ پریشاں کی جو پنیری لگا کر حکمرانوں نے اپنی دنیا سنواری تھی‘ وہ پنیری آج جنگلی بیل بن کر عوام کو اس طرح جکڑے ہوئے ہے کہ معاشی اصلاحات اور بڑے بڑے اقدامات بھی ناکام اور نامراد ہی نظر آتے ہیں۔ جوں جوں حکمران سنورتے چلے گئے‘ توں توں عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ حکمرانوں کے اللے تللے ہوں یا کنبہ پروری‘ مصاحبین کو نوازنے سے لے کر پیداواری عہدوں کی بندر بانٹ تک‘ سارا بوجھ سرکاری وسائل اور قومی خزانے پر ہی رہا ہے۔
مفادِ عامہ کے منصوبے جب حکمرانوں کے شوق اور بندہ پروری کی بھینٹ چڑھ جائیں تو عوام کی حالت بدسے بدتر اور قابلِ رحم کیوں نہ ہو۔ صفر کارکردگی‘ شرمسار گورننس اور تارتار میرٹ کے طوق گلوں میں ڈالے کس دیدہ دلیری سے عوام کو اچھے دنوں کے سنہرے خواب دکھا رہے ہیں۔ جنہیں اپنے مستقبل کا کچھ اتا پتا نہ ہو‘ وہ عوام کے تابناک مستقبل کے بارے میں لمبی لمبی چھوڑے چلے جارہے ہیں۔ پون صدی سے وعدوں دعووں‘ترانوں اور بیانیوں پر سر دھننے والے عوام کو بھی شاید انہی حکمرانوں کی لت پڑ چکی ہے۔ بار بار ڈسے جانے اور ہر بار دھوکے پہ دھوکا کھانے کے باوجودآج بھی آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کی ڈیوٹی خوب نبھا رہے ہیں۔ ان کے جلسوں کی رونق بڑھانے والے عوام کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ان سماج سیوک نیتائوں کے پھیلائے ''اجالوں‘‘ نے انہیں تاریکی کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ نسل در نسل حکمرانی کرنے والے عوام کی کتنی ہی نسلیں برباد کرچکے ہیں۔ آج بھی وہی وعدے‘ وہی دعوے‘ وہی جھانسے‘ وہی دھوکے عوام کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اپنا مقدر بگاڑنے میں عوام خود پیش پیش نظر آتے ہیں۔ آزمائے ہوئوں کو کئی بار آزما کر بھی نہ سبق حاصل کرتے ہیں نہ نصیحت۔ نجانے یہ کیسے لوگ ہیں کہ ایک ہی سوراخ سے تواتر سے ڈسے جاتے ہیں۔
عوام کو پُرتشدد کارروائیوں پر اکسانے سے لے کر انتقامی حکمت عملی کے لیے تیار رہنے تک کا اشارہ دینے والے عوام کو ایک ایسی آگ کا ایندھن بنانے جارہے ہیںجس کے شعلے آنے والی نسلوں کو بھی سلگاتے رہیں گے۔ عوام اس انگار وادی کا ایندھن بننے کے لیے جوق در جوق جلسوں کی رونق بڑھانے جاتو رہے ہیں لیکن یاد رہے! سیاسی اشرافیہ ہویا ان کے بینی فشری مصاحبین‘ یہ سب اپنے اپنے اہداف اور اپنے اپنے ایجنڈے پر فوکس کیے ہوئے ہیں۔ نہ انہیں عوام کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی عوام کی حالتِ زار سے کوئی سروکار۔ انہیں عوام کو استعمال کرنے کی عادت پڑ چکی ہے تو عوام کو ان سماج سیوک نیتائوں کی لت پڑ چکی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ تو بالکل کلیئر ہے اور انہیں معلوم ہے کہ وہ عوام کوکل بھی بیوقوف بنا رہے تھے اور آج بھی بیوقوف بنا رہے ہیں۔ جب تک عوام بیوقوف بنتے رہیں گے‘ یہ اسی طرح عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔ عوام کو تحقیر کا ایسا نشہ لگ چکا ہے جو چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جانتے بوجھتے ان سبھی کے طرزِ حکمرانی سے لے کر ان کی نیت اور ارادوں کے بھید بھائو جاننے کے باوجود ہر بار خود کو پیش کرڈالتے ہیں۔ شاید خود اذیتی کا نشہ ان کی رگوں میں اس طرح سرایت کرچکا ہے کہ نسل درنسل منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب تک یہ نشہ عوام کی رگوں میں موجود ہے‘ سیاسی اشرافیہ کی موجیں اسی طرح لگی رہیں گی اور عوام کی حالت بد سے بدتر ہی رہے گی۔ عوام کی معلومات میں ایک اور اضافہ کرتا چلوں کہ مملکتِ خداداد کی سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے منہ کو رعایا پر حکمرانی کا خون لگ چکا ہے۔ اس تناظر میں حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی خون شریک بھائی ہیں۔ کوئی دانت گاڑے ہوئے ہے تو کوئی پنجے جمائے ہوئے ہے۔ عوام کو تقسیم کرنا ہو یا انہیں انگار وادی کا ایندھن بنانا ہو‘ یہ سب سیاسی شعبدہ بازی کے آئٹمز ہیں‘ گینگ وار کا حصہ بننے کے بجائے عوام کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف الیکشن یا سخت معاشی فیصلوں کا آپشن لے کراپنے اتحادیوں سے مشاورت کررہے ہیں۔ سخت معاشی فیصلوں کی تلوار عوام کے سر پر ہر دو صورتوں میں لٹکتی رہے گی۔ الیکشن ہونے کے بعد اس تلوار کی دھار مزید تیز بھی ہوسکتی ہے؛ تاہم الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے سے عوام کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی ہتھکڑی عوام کے لیے مزید سخت اور اذیت میں اضافے کاباعث ہوگی جبکہ حکمرانوں کے اللے تللوں‘ لوٹ مار‘ عیش و آرام‘ ٹھاٹ باٹ اور تام جھام اس لیے یونہی جاری و ساری رہیں گے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط صرف عوام پر ہی لاگو ہوتی ہیں۔ عوام کا خون نچوڑ کر ہی تو حکمرانوں کی موجیں اور آئی ایم ایف کی قسطیں ادا ہوتی ہے۔ چلتے چلتے یادکراتا چلوں کہ سری لنکا کے مناظر مقامِ عبرت ہیں‘ اگر کوئی حاصل کرنا چاہے تو...
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved