قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اترنے والی آخری کتاب ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جبرائیل امین کے ذریعے نبی کریمﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے سورۃ الشعرا کی آیات نمبر 192 تا 196 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور بیشک وہ نازل کیا ہوا ہے سب جہانوں کے رب کا۔ اترا اس کو (لے کر) امانت دار فرشتہ۔ آپ کے دل پر تا کہ آپ ہو جائیں ڈرانے والوں میں سے۔ واضح عربی زبان میں۔ اور بیشک وہ (یعنی اس کا ذکر) یقینا پہلے لوگوں کی کتابوں میں (بھی موجود) ہے‘‘۔ قرآن مجید کا نزول تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا واقعہ ہے اور اس نے تاریخ انسانی پر جس انداز میں اثرات مرتب کیے‘ اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ قرآن مجید نے بتوں کی پوجا کرنے والوں کو ایک اللہ کی عبادت کا خوگر بنا دیا، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو بیٹیوں کی عزتوں کا محافظ بنا دیا، شراب کے نشے میں دھت رہنے والوں کو شب زندہ دار بنا دیا، بات بات پہ قتل کرنے والوں کو عاجزی اور انکساری کے راستے پر چلا دیا، معمولی سی انا پر دوسروں کی گردن کاٹنے والوں کو اخوت، محبت اور مودت کی لڑی میں پرو دیا۔ قرآن مجید نبی کریمﷺ کے قلب اطہر پہ نازل ہوا اور آپﷺ اس کی تفسیر اور تشریح فرما کر لوگوں کو یہ بات بتلاتے رہے کہ قرآنِ مجید پر عمل کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہم سب لوگوں کیلئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے؛ چنانچہ کوئی بھی شخص جو راہِ ہدایت پہ رہنا چاہتا ہو‘ اس کو کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنتِ رسول ہاشمیﷺ کی اتباع کی بھی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ کے تلامذہ اور آپﷺ کے اصحاب قرآن مجید کی آیاتِ بیّنات کے حوالے سے نبی کریمﷺ سے دریافت کرتے رہتے اور نبی کریم ان کو آیات کی تفسیر سے آگاہ فرماتے رہتے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کے اقوال کو ہم تک منتقل کیا اور جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات کے حوالے سے آپﷺ کی قیمتی اور بیش قیمت نصیحتیں ہم تک پہنچی، وہیں قرآن مجید کی تفسیر و توضیح کے حوالے سے بھی آپﷺ کے ارشادات عالیہ امت تک منتقل ہوتے رہے۔ نبی کریمﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال اور آرا کو علم تفسیر کے ماہر اپنی اپنی تفاسیر کے اندر جگہ دیتے رہے اور خدمت قرآن مجید کے حوالے سے مختلف انداز میں کام جاری و ساری رہا۔ تفسیر طبری، تفسیر ابن کثیر، تفسیر جلالین اور بہت سی دیگر تفاسیر کے ذریعے قرآن مجید کے مفہوم کو امت تک منتقل کرنے کی کوششیں مختلف ادوار میں جاری و ساری رہیں۔ جب اسلام ان علاقوں میں داخل ہوا‘ جہاں لوگ عربی زبان سے ناآشنا تھے تو بہت سے لوگوں نے قرآن مجید کے ترجمے کو عامۃ الناس کے استفادے کیلئے پیش کیا۔ اس حوالے سے برصغیر کے لوگوں کو قرآن مجید کے تراجم سے آگاہ کرنے کیلئے بہت سے علماء اپنی اپنی خدمات کو انجام دیتے رہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرآن مجید کا سب سے پہلا فارسی ترجمہ کر کے قرآن مجید کی خدمت سرانجام دی۔ آپ کے بعد اردو زبان میں بھی قرآن مجید کے تراجم مختلف ادوار میں جاری و ساری رہے۔ شاہ عبدالقادرؒ نے اس حوالے سے ایک بنیاد کا کردار ادا کیا۔ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے بھی اس حوالے سے اپنی خدمات کو نہایت احسن انداز میں انجام دیا۔ بعد ازاں مختلف ترجمہ کرنے والے اپنے اپنے انداز میں قرآن مجید کا ترجمہ کرکے اس کی خدمت کو سرانجام دیتے رہے۔ ترجمہ قرآن کے حوالے سے مولانا محمد جونا گڑھیؒ، مولانا فتح محمد جالندھریؒ، مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور دیگر بہت سے ترجمہ کرنے والوں کو اپنے اسلوب کی وجہ سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ جب اس کے ترجمے، معانی اور مفاہیم پر غور کیا جاتا ہے تو انسان اپنے قلب اور دماغ کو روشن اور معطر ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے مفاہیم اور شرح کو بھی اپنے دل میں اتارنے کی بھرپور انداز میں جستجو کی جائے۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں کے تراجم اور تفاسیر بھی وقفے وقفے سے منظر عام پر آتے رہے جن سے اہل علم و دانش کے ساتھ ساتھ طلاب علم احسن طریقے سے استفادہ کرتے رہے۔ 2018-2019ء میں مجھے انگلستان جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں پر مجھے قرآن مجید کا ایک منظوم ترجمہ پیش کیا گیا۔ یہ ترجمہ نہایت خوبصورت اور احسن انداز میں مرتب کیا گیا تھا۔
حالیہ ایام میںاس حوالے سے ایک اور منفرد کاوش میرے سامنے آئی۔ میرے قریبی ساتھی حافظ محمد علی یزدانی نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے یہ بات بتلائی کہ ڈاکٹر طاہر مصطفی صاحب اپنے غیر منقوط ترجمہ قرآن کومجھے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید کی خدمت کے حوالے سے کی جانے والی ہرکاوش یقینا قابل ستائش اور قابل قدر ہوتی ہے؛ چنانچہ میںنے فوراً سے پیشتر حافظ محمد علی کو ڈاکٹر طاہر مصطفی سے ملاقات کا عندیہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب اتوار کی رات حافظ یزدانی اور مولانا صادق علی کے ہمراہ میرے آفس تشریف لائے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے غیر منقوط ترجمۂ قرآن کو میرے سامنے پیش کیا۔ یقینا یہ ایک منفرد کاوش ہے اور اس میں قرآن مجید سے لگاؤ اور وابستگی کا غیرمعمولی اظہار ہے۔
ڈاکٹرطاہر مصطفی ایک صاحب علم و دانش، صاحب فہم و فراست اور صاحب نکتہ دان اور نکتہ بین انسان ہیں۔ آپ کی یہ کاوش یقینا ہر اعتبار سے منفرد تھی۔ مولانا جونا گڑھیؒ کے خوبصورت ترجمے کے ساتھ ڈاکٹر طاہر مصطفی نے غیر منقوط تفصیلی ترجمہ کرکے قرآن مجید سے اپنی محبت اور عقیدت کا ایک منفرد انداز میں اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جس وقت قرآن مجیدکا ہدیہ مجھے پیش کر رہے تھے، ان کی آنکھوں میں قرآن مجید سے محبت اور وابستگی کی ایک جھلک اور چمک نمایاں تھی۔ میں نے بڑی محبت و عقیدت اور احترام کے ساتھ اس ترجمہ قرآن مجید کو تھاما اور اس کی ورق گردانی شروع کی۔یقینا ڈاکٹر صاحب نے یہ کام انتہائی عرق ریزی، محنت اور لگن کے ساتھ کیا ہے۔ قرآن مجیدکی خدمت کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر مصطفی ہر اعتبار سے لائق تحسین ہیں۔ اِس موقع پر میرے ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ بطور مسلمان قرآن مجید سے اپنی وابستگی کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں، ہمیں ان کو بطریق احسن نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان حقوق کی پاسداری کیلئے وقف رہنا چاہیے جن کا ادا کرنا ہرمسلمان پر لازم ہے۔ اس ضمن میں مَیں اپنی چند گزارشات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ قرآن مجید کے ہم پر چند اہم حقوق درج ذیل ہیں!
1۔ قرآن مجید پر ایمان لانا: قرآن مجید پر ایمان لانا ہم سب پر لازم ہے اور قرآن مجید پر فقط ایمان لانے کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے گناہوں کو معاف کر دیتے اور ان کے معاملات کو سنوار دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور وہ ایمان لائے اس (قرآن) پر جو نازل کیا گیا محمدﷺ پر‘ اور وہی حق ہے ان کے رب کی طرف سے، (اللہ نے) دور کر دیں ان سے ان کی برائیاں اور ان کے حال کی اصلاح کر دی‘‘۔
2۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا: قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ایک ایک حرف کی ادائیگی کے بدلے10 نیکیاں عطا فرماتے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 121 میں ارشاد ہوا ''وہ لوگ جنہیں دی ہم نے کتاب (تورات یا انجیل)، وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جو اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے، وہی لوگ ایمان لاتے ہیں اس (قرآن) پر، اور جو انکار کرتا ہے اس (قرآن) کا تو وہی لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔
3۔ قرآن مجید پر تدبر کرنا: قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پہ تدبر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمدکی آیت نمبر 24 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگ گئے ہیں‘‘۔
4۔ قرآن مجید پر عمل کرنا: قرآن مجید پر عمل کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الصّف کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم (خود) نہیں کرتے‘‘ اسی طرح سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 44 میں ارشاد ہوا ''کیا لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔
5۔ قرآن مجید کی تبلیغ: جہاں قرآن مجید پر عمل کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے‘ وہیں قرآن مجید کی تبلیغ کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ یٰسین میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کی طرف تین نبیوں کو مبعوث کیا گیا تھا۔ اُن نبیوں نے بستی والوں کو سیدھے راستے کی دعوت دے کر یہ کہا تھا: وما علینا الالبلاغ المبین''اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے‘‘۔
6۔ قرآن مجید کا قیام: جہاں قرآن مجید پر عمل کرنا اور اس کا ابلاغ کرنا انتہائی ضروری ہے وہیں قرآن مجید کے احکامات کی تنفیذ ہم سب لوگوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ بہت سے لوگ قرآن مجید کے احکامات کو سمجھنے کے باوجود اس کی تنفیذ کے معاملے میںکوتاہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم سب کو اس کی تنفیذ کیلئے کوشاں رہنا چاہیے اور اس بات کو اپنے دل میںجگہ دینے کی ضرورت ہے کہ قرآن مجید کے قیام کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ معاشی معاملات کو بھی سنوار دیں گے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 66 میں ارشاد فرماتے ہیں''اور اگر یہ لوگ تورات و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لو گ اپنے اوپر اور نیچے سے رزق پاتے اور کھاتے‘‘۔
چنانچہ ڈاکٹر طاہر مصطفی صاحب کی منفرد کاوش کی تحسین کے ساتھ ساتھ میں نے اس بات کو بھی ضروری سمجھا کہ قارئین کے سامنے قرآن مجید کے حوالے سے بعض اہم ذمہ داریوں کو پیش کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved