جنگ کو پسندیدہ سرگرمی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، لیکن یہ عالمی سیاست کی ایک صفت یا خصوصیت ہے۔ قومیں کئی وجوہات کی بنا پر جنگ کی راہ اختیار کرتی ہیں‘ البتہ انسان کے اختراعی ذہن، ہتھیاروں کے نظام میں تبدیلیوں اور جدید مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجیز کے ذریعے پیدا ہونے والے نئے مواقع کی وجہ سے جنگ کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ اب یہ ممکن ہے کہ کسی ریاست کی علاقائی حدود میں فوجیں بھیجے بغیر کسی مخالف ملک کو عاجز کر دیا جائے۔ اسے غیر فوجی طریقے سے جنگ کرنا کہتے ہیں۔
روایتی طور پر، ایک طاقت ور حکمران اپنی ریاست کے معاشی وسائل اور فوجی طاقت کو پڑوسی ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کرنے، کسی دوسری ریاست کو فوجی آپریشن سے روکنے یا کسی دوسرے حکمران کو علاقائی معاملات میں اپنے مشورے پر عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ دراصل فوجی آپریشن یا اس کے خطرے کو اکثر دوسری ریاست کے پالیسی آپشنز کو تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر، با اثر لوگ اور جاگیردار حکمران کو سپاہی فراہم کرتے تھے جو پڑوسی ریاست کے خلاف لڑنے یا کسی دوسری ریاست کے فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے حکمران کے اپنے فوجیوں میں شامل ہوتے تھے۔ 19ویں صدی کے آغاز میں یورپ اور دیگر ممالک کے حکمرانوں نے ایک تربیت یافتہ تیار فوج کا تصور اپنانا شروع کیا تاکہ ملک کے اندر اشرافیہ اور جنگجوؤں پر انحصار کم کیا جا سکے۔ پیشہ ورانہ طور پر تیار فوجوں کو یورپی ریاستوں نے غیر یورپی ممالک پر اپنے نوآبادیاتی تسلط کو بڑھانے کیلئے بھی استعمال کیا۔ بعد میں، انہوں نے نوآبادیاتی ممالک میں پیشہ ور فوجیں تیار کیں جو نوآبادیاتی ملک اور اس کی مسلح افواج کے کنٹرول میں کام کرتی تھیں۔ ان فوجیوں کا استعمال نوآبادیاتی علاقوں میں کنٹرول کو بڑھانے اور انہیں وسعت دینے، علاقائی حدود کی حفاظت، امن و امان قائم رکھنے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے شہری انتظامیہ کی مدد کیلئے کیا جاتا تھا۔ نوآبادیاتی ریاست کے مقامی دستوں کو نوآبادیاتی ریاست کی خارجہ پالیسی کے اہداف کی تعاقب میں نوآبادیاتی ریاست کے علاقوں سے باہر فوجی مہمات کیلئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
20 ویں صدی میں جنگی ٹیکنالوجیز میں بہت تبدیلی آئی، خاص طور پر دو عالمی جنگوں کے دوران، جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والی بندوقوں کا استعمال، ٹینک سسٹم، بمباری اور دھماکہ خیز مواد اور ہتھیاروں کے لیے ہوائی جہازوں کا استعمال۔ اگست 1945 میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر سب سے پہلے دو جوہری ہتھیار استعمال کیے تھے۔ سوویت یونین، چین، برطانیہ اور فرانس نے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سالوں میں‘ سرد جنگ کے زمانے میں حاصل کی تھی۔ اسرائیل، بھارت اور پاکستان نے یہ صلاحیت بہت بعد میں حاصل کی۔ بیشتر مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شمالی کوریا نے بھی جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت اور اس کا میزائل ڈلیوری سسٹم حاصل کر لیا ہے۔
جنگی تکنیکوں میں بڑی تبدیلی نئی انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز، خاص طور پر انٹرنیٹ پر مبنی مواصلاتی نظام اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی دستیابی کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ ٹی وی، اور ریڈیو، سیٹلائٹ اور ریگولر موبائل فون سسٹمز کی آمد کے ساتھ آئی۔ ان ٹیکنالوجیز اور انٹرنیٹ پر مبنی پلیٹ فارم اور سائبر سپیس کو ریاست اور نان سٹیٹ ایکٹرز‘ دونوں اپنے نظریاتی اور سیاسی ایجنڈوں کے فروغ اور اپنے مخالف کو زیر کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ آج کل کسی مخالف ملک کو زیر کرنے کیلئے سخت فوجی طاقت کے استعمال کے علاوہ، ملٹری ایجنڈے کے حصول کیلئے کئی نان ملٹری طریقے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ غیر فوجی ذرائع کسی ملک کو اپنی ملکی یا خارجہ پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جنگ اب غیر فوجی طریقوں سے کی جا سکتی ہے لیکن یہ غیر فوجی ذرائع اس صورت میں کارآمد ہو سکتے ہیں جب یہ معلوم ہو کہ متعلقہ ملک کے پاس بھی روایتی ہتھیاروں کا نظام موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جنگ چھیڑنے کے نئے طریقوں نے روایتی جنگی طریقوں کی جگہ نہیں لی ہے۔ نئے طریقوں نے سیاسی اور فوجی ایجنڈے کے آپشنز کو بڑھا دیا ہے۔
جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کو کسی ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈے یا مخصوص سیاسی مطالبات کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بیرونی طاقتیں اپنے مفاد کے لیے اندرونی نسلی، لسانی، مذہبی اور علاقائی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر کچھ ایسے گروہوں کی حمایت کر سکتی ہیں، خاص طور پر ان کی جو حکومت اور ریاست کو چیلنج کرتے ہیں۔ اندرونی انتشار اور خانہ جنگی کو جنم دینے والی ایسی سرگرمیوں پر زور دینے کے لیے آسانی سے نقد رقوم فراہم کی جا سکتی ہیں۔ جعلی خبروں کو ملک میں اندرونی انتشار بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پراکسی وار کا طریقہ کسی ملک میں کچھ مخالف گروہوں کی حمایت کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری ریاست مخالف اور علیحدگی پسند گروپوں کو مادی، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتی ہے۔ پڑوسی ممالک ہدف ریاست کو کمزور کرنے کے لیے وہاں ریاست مخالف گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔
بڑی طاقتوں نے دوسرے ممالک میں حکومتیں تبدیل کرنے کیلیے فوجی اور غیر فوجی‘ دونوں طریقے استعمال کیے ہیں۔ امریکہ‘ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک اور ایران (ڈاکٹر مصدق حکومت‘ 1953میں) اور عراق میں مختلف طریقوں سے حکومتوں کی تبدیلی کو متاثر کرنے کیلئے جانا جاتا ہے۔ وہ اپنی پسند کی حکومتی اور سیاسی تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے دوسری ریاستوں کے اندرونی تنازعات میں اپنی پسند کے گروہوں کی حمایت بھی کرتا رہا ہے۔
حکومت کی تبدیلی کی پالیسی کا پہلا مرحلہ سرکاری سفارتی ذرائع سے حکومت کی پالیسیوں پر سخت تحفظات کا اظہار ہے۔ دوسرا مرحلہ سرکاری ذرائع کے ساتھ ساتھ امریکی تھنک ٹینکس اور میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اس ملک کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہے۔ اس کا مقصد انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ سلوک اور بدعنوانی کے بارے میں مسائل کو اٹھا کر ہدف بننے والی حکومت کو پریشان کرنا اور الجھانا ہے۔ اس کے ساتھ ہدف ریاست کی حکومت کی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت میں اضافہ ہوتا ہے اور اپوزیشن کو حکومت کے خلاف مضبوط پوزیشن لینے کی ترغیب ملتی ہے۔ سیاسی ایجی ٹیشن پھوٹ پڑے تو کوئی بڑی طاقت اپوزیشن کی حمایت کر سکتی ہے‘ اگر حکومت کی تبدیلی بڑی طاقت کا ہدف ہو۔ اقتصادی امداد کی معطلی اور فوجی امداد کی بندش بھی پابندی کی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر معروف طریقے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے حالیہ تعلقات کے معاملے میں، واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سے ملاقات میں امریکی اہلکار کے کمنٹس اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کیلئے روس اور چین کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرنے کے تناظر میں ایک سمجھ میں نہ آنے والا معمہ تھے۔ فروری‘ مارچ میں اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے لوگوں اور حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں کے درمیان مبینہ طورپر کچھ محدود بات چیت بھی ہوئی‘ جس نے ملکی اپوزیشن پر واضح کر دیا کہ پی ٹی آئی حکومت امریکہ کی خیر سگالی کھو چکی ہے۔ امریکہ کی پہلے مرحلے کی حکمت عملی نے کام دکھایا، اور عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے باہر کر دیا گیا جو کہ ملکی معاملہ تھا تاہم امریکی پالیسی نے حزب اختلاف کو پی ٹی آئی حکومت کا زیادہ استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ترغیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved