فیض صاحب کی رومان پرور طبیعت بھی محبوب کے حسنِ دل آویز سے نظریں چرانے لگی کہ غمِ روزگار اس سے زیادہ دل فریب تھا۔ ساحر محبوب سے ملنا چاہتا تھا مگر تاج محل سے دور کہ سطوتِ شاہی کی یہ علامت اسے تاریک مکانوں کی یاد دلاتی تھی۔ وہ مکاں جہاں ہر روززندگی کے چراغ گل ہوتے ہیں اور موت کی تاریکی مزید گہری ہو جاتی ہے۔ میرا معاملہ مگر ان سے مختلف ہے۔
میری تو آنکھ ہی غمِ روزگار میں کھلی ہے۔ محبوب کی حسن سے پہلے، غربت کے آنچل میں چھپی وہ زندگی دیکھی ہے جس کا زرد چہرہ حسن و جمال سے بیگانہ رہتا ہے۔ قدرت حسن عطا کرتی ہے مگر اسے سنوارنے کا ہنر نہیں دیتی۔ میں نے وہ بڑھاپا دیکھا جس کی لاٹھی کو عوارض کی دیمک چاٹ جاتی ہے۔ وہ بچپن دیکھا جس کی آنکھیں یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ حسین سپنے کیا ہوتے ہیں۔ بڑا ہوا تو معلوم ہواکہ اس دنیا میں وہ حسن بھی ہوتا ہے جس کی جستجو جینے کی امنگ دیتی ہے۔ وہ آنکھیں بھی ہوتی ہیں‘ جن کے بارے میں آدمی گمان کرے کہ زندگی ان میں ڈوب جانے کا نام ہے۔ وہ نغمے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ترنم قطرہ قطرہ آبِ حیات بن کر کانوں میں ٹپکتا رہتا ہے۔
دل نے یہی چاہا کہ غمِ روزگار سے نجات ملے اورکسی زلفِ سیاہ کے سائے میں زندگی بیت جائے۔ غربت و افلاس کے بستی سے ہجرت کی جائے اور کسی مترنم شہر میں جا بسیرا کیا جائے، جہاں پرندے نغمۂ حیات گاتے ہوں اور بادِ صبا انہیں کندھے پہ اٹھائے قریہ قریہ پھرتی ہو۔ جہاں بڑھاپے کو دیمک زدہ لاٹھیوں کی ضرورت نہ ہو۔ اسے وہ جوان ہاتھ میسر ہوں جو اپنی توانائی اس کے قدموں میں ڈال دیں اور ان میں حرکت پیدا ہو جائے۔ سیاست کی زبان میں کہیں توایک فلاحی ریاست جواستحصال پر نہیں، احسان کی بنیاد پرکھڑی ہو۔ وہ ریاست جو زندگی بخش ہو۔ یہ فیض صاحب سے مخالف سمت میں جانے کی کوشش تھی۔ محبوب کے خیال سے غمِ روزگار کی طرف نہیں، غمِ روزگار سے خیالِ یار کی طرف۔
اس خواب کی تعبیر کیلئے ریاست ہی کیوں؟ مجھے یہی بتایا گیا تھاکہ زندگی کو تبدیل کرنے کی باگ ریاست کے پاس ہے۔ ایسی ریاست جہاں صالحین کا اقتدار ہو۔ جہاں قصرِ شاہی کے باہر ایک زنجیرِ عدل لٹک رہی ہو۔ مظلوم اسے چھیڑے اور اگلے لمحے انصاف اس کی جھولی میں آگرے۔ جہاں قانون کا اطلاق یکساں ہو۔ ایسی ریاست چونکہ یہاں موجود نہیں، اس لیے برپا کرنا پڑتی ہے۔ میں بھی اس جدوجہد میں جت گیا۔
ایک مدت کے بعد مگر یہ معلوم ہوا کہ سیاست میں خوابوں کا گزر نہیں ہوتا۔ یہ تو حقائق کی سنگلاخ زمین کا سفر ہے۔ یہاں زندگی اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ برہنہ کھڑی ہوتی ہے اور اسے ستر پوشی کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ یہاں پوشاک فروش نہیں ہوتے جو اس برہنگی کو ڈھانپ لیں۔ یہاں خواب ہوتے ہیں مگر جنسِ بازار کی طرح۔ یہاں خوابوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ سادہ لوح جنہیں عوام کہتے ہیں، ان کے خریدار ہوتے ہیں۔ کبھی انقلاب کے نام پر، کبھی تبدیلی کے عنوان سے، کبھی آزادی... یہ اہلِ سیاست کی لغت ہے‘ جس میں انہوں نے تمام خوابوں کو نام دیے ہوئے ہیں۔ جو سچ بولتا ہے، اس کا کاروبار نہیں چلتا۔ کتنے آئے جواپنی دکان بڑھا گئے۔ وہ محبوب یہاں نہیں رہتا جس کی زلفوں کی گھنی چھاؤں میں، میں سفرِ حیات طے کرنا چاہتا ہوں۔
پھر وہ کہاں رہتا ہے؟ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں خواب فی الواقع تعبیر بنتے ہوں؟ جہاں تمنائیں مشہود ہوتی ہوں؟ اہلِ علم سے پوچھا‘ کتابوں کو کھنگالا تو ان سوالوں کے جواب کسی حد تک مل سکے۔ ایک تویہ انکشاف ہواکہ اس زمین پر کوئی وادی ایسی نہیں جہاں خواب کی پوری تعبیر ملتی ہے۔ یہ زندگی اس نہج پراستوار ہی نہیں ہوئی۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ خواب کی کوئی ایک آدھ جھلک دکھائی دے جائے۔ کوئی تعبیر مشہود ہوجائے۔ ریاضی کی زبان میں اس کو ادا کریں تو دس، بیس یا تیس فیصد خواب حقیقت بن جائے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خواب کے تعبیر بننے کا عمل، سیاست میں نہیں، معاشرت میں ہوتا ہے۔ یہ ریاست نہیں، معاشرہ ہے جہاں خوابوں کی تعبیر کو واقعہ بنانے کاکام ہوتا ہے۔ یہاں وہ سانچے بنتے ہیں، اہلِ سیاست اگر ان میں ڈھل جائیں توریاست، ان خوابوں کوتعبیر دینے کیلئے مددگار بن سکتی ہے۔ سیاست کوکچھ اقدارکا پابند بنانا لازم ہے تاکہ ریاست عوام کی خادم بن سکے۔ اقدار سازی معاشرے کا وظیفہ ہے۔
اقدار سازی کا کام مصلحین کرتے ہیں جو سماجی اخلاقیات پر پہرہ دیتے ہیں۔ وہ دانشور جو اجتماعی سوچ کے زاویوں کو درست کرتے ہیں۔ وہ استاد جو فرد کے اخلاق کی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ والدین جواپنی آغوشِ تربیت میں جواہر ڈھالتے ہیں۔ وہ درسگاہیں جن کا مطمحِ نظر رجالِ کار تیارکرنا ہو۔ وہ خانقاہیں جہاں تزکیہ نفس کا اہتمام ہوتا ہو۔ انہی اداروں سے نکلنے والے جب سیاستدان بنتے ہیں تو ریاست خوابوں کی تعمیر کیلئے جت جاتی ہے۔
ہمارے ہاں ترتیب الٹ گئی۔ ہم نے ریاست کے بطن سے معاشرہ جنم دینا چاہا۔ اب بیٹی کی کوکھ سے ماں کیسے پیدا ہو؟ ہم لیکن اسی پر تمام توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ کبھی کسی حکیم سے رجوع کرتے ہیں کہ اس کا نسخہ اس انہونی کو ہونی کردے۔ کبھی کسی پیر سے تعویذ لینے جاتے ہیں کہ کاغذ کاکوئی پرزہ ماورائے اسباب حاجت روا ئی کردے۔ کبھی کسی جدید ڈاکٹر تک رسائی چاہتے ہیں کہ علمِ جدید سے کوئی کرشمہ سرزد ہوجائے۔ کبھی کسی سائنسدان کا ہاتھ تھامتے ہیں کہ 'کلوننگ‘ سے کوئی کرامت دکھادے۔ کاش ہم 'پیرِ رومی‘ ہی کی سن لیتے جو اس کارِ لاحاصل کے بارے میں برسوں پہلے متنبہ کرگئے تھے:
دستِ ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
(نااہل کے ہاتھ میں شفا کہاں کہ وہ مزید بیمار کرتا ہے۔ ماں سے رجوع کرو کہ وہی تیمارداری کا ہنر جانتی ہے)
سیاست ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ جب سیاسی ادارے موجود ہیں تو انہیں جیسے تیسے چلنا بھی ہے۔ انہیں اہلِ سیاست ہی نے چلانا ہے۔ اہلِ سیاست انہیں اپنی تربیت اور صلاحیت کے مطابق ہی چلائیں گے۔ ان کی تربیت کیلئے اگر سماجی ادارے موجود نہیں یا اگر ہیں مگر اپنے اصل فرائض سے غافل ہیں تو پھر سیاست ویسے ہی ہوگی جیسے ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ اہلِ سیاست میں مسیحا نہیں تلاش کیا جاتا۔ یہاں وہ دستِ ہنر ڈھونڈا جاتا ہے جو موجود میں بہترہو اورمعاشرے کو سیاسی اعتبار سے زندہ رکھ سکے۔ اس سے زیادہ کی طلب کا حاصل صرف مایوسی ہے۔
آج مایوسی پھیل رہی ہے۔ ہم نے ساری توقعات سیاست اور اہلِ سیاست سے وابستہ کر لیں۔ ہمارے خواب ہماری نظروں کے سامنے بکھررہے ہیں۔ ہماری کیفیت وہی ہے جو غالب نے بیان کی: 'نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہیں رکاب میں‘۔ کچھ نہیں کہاں جا سکتاکہ رخشِ زندگی کہاں جا رکے۔ مایوسی سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ توقعات کا مرکز تبدیل ہوجائے: سماج نہ کہ ریاست۔
میرے جیسے عام پاکستانی کا معاملہ فیض صاحب کی طرح یا ساحر جیسا نہیں۔ میرا غم ان سے سوا ہے۔ میرے پاس محبوب ہے نہ محبوب کی آنکھیں کہ ان سے بڑھ کر غمِ روزگار دلفریب ہو۔ میں غمِ روزگار سے نکلنا چاہتا ہوں۔ میں اس وادی میں بسیرا کرنا چاہتا ہوں جہاں محبوب کی گھنی زلفوں کے سائے میں زندگی بیت جائے۔ مگر... 'یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved