منحرف اراکین کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر عدالتِ عظمیٰ کی تشریح نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کر دیا ہے۔ اس کا موجودہ حکومت کو کیا فرق پڑے گا‘ اس بارے میں کوئی رائے دینا قبل از وقت ہے لیکن اعدادوشمار کے مطابق پنجاب اور وفاق کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وفاق میں منحرف اراکین نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے تھے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز197ووٹ لے کر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تھے، ان کو ملنے والے 197 ووٹوں میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان کے ووٹ بھی شامل تھے۔ حالیہ فیصلے کے بعد 25 منحرف ارکان کے ووٹ اب شمار نہیں ہوں گے، 25 منحرف ارکان کے ووٹ ختم ہونے سے حمزہ شہبازکے پاس 172ووٹ رہ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس پنجاب اسمبلی میں 183 ارکان ہیں، 25 ارکان کے منحرف ہونے سے پارٹی کے پاس 158 ارکان رہ گئے۔ مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی میں 10 سیٹیں ہیں۔پرویز الٰہی کے پاس اس وقت 168 جبکہ حمزہ شہباز کے پاس 178 ارکان کی حمایت موجود ہے، وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کیلئے 186ووٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اکثریت ووٹ رکھنے والی جماعت کے حکومت بنانے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ بظاہر وفاقی حکومت بھی مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ اتحادیوں کے ساتھ مشاورت میں ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کا عزم کیا گیا ہے اور جلد انتخابات کے آپشن کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ حوصلہ افزا ہے۔ حکومتوں کو مستحکم ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ فوراً نتائج کی توقع کرنا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کے پاس الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑنے سے مسائل کا حل نکل آئے۔ دیرپا کامیابی کے لیے حکمت عملی طے کرنا پڑتی ہے۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مضبوط ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس وقت ایک ماہ کی حکومت پونے چار سال کی معاشی پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ جس کا اقرار عمران خان اور شیخ رشید بھی جلسوں سے اپنے خطاب میں کر چکے ہیں۔ دونوں احباب اسے تحریک انصاف کی خوش قسمتی سمجھتے ہیں جو تشویش ناک بات ہے۔ ذاتی مفاد اور اَنا سے باہر نکل کر ہی مل کر ملک و قوم کے لیے فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ جہاں ملک کو میثاق معیشت کی ضرورت ہے‘ وہاں حکومتی جماعت کو سرعام چور کہنا، سابق وزیراعظم اور سابق وزرا کی جانب سے کرائم منسٹر جیسے الفاظ استعمال کرنا تشویش ناک ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف حکومت پر قانون شکنی اور غداری کے الزامات لگا رہی ہے لیکن وزار تیں ختم ہو جانے کے بعد سرکاری گاڑیاں واپس نہ کرنا اور اس پر یہ جواز پیش کرنا کہ ہم اس امپورٹڈ حکومت کو سرکاری گاڑیاں نہیں دے سکتے‘ انتہائی نامناسب رویہ ہے جو قانون شکنی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ اس طرح کے موقف اپنانے کے بعد فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر وفاق اور پنجاب کی حکومت کو اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ جب ان کے دور میں تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبرز پورے ہو گئے تھے تو اس وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ وزیراعظم کو اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ ماضی میں اچھی روایات ڈالنے ہی سے مستقبل میں اچھی روایت کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما قومی اداروں پر ڈھکے چھپے الفاظ میں جانب دار ہونے کا تاثر دیتے رہے اور رات کے بارہ بجے عدالتیں کھولنے کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے رہے اور اب اسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو انصاف پر مبنی بہترین فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ اپنی مرضی کا فیصلہ آنے پر عدالتوں کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عدالتوں کو متنازع بنانے کی کوشش کرنے کی روایت کا ختم ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملکی استحکام اداروں کے احترام کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ امید ہے کہ سابق وزیراعظم اس معاملے کی نزاکت کو سمجھیں گے اور اگر مستقبل میں کوئی فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو اس وقت بھی وہ عدلیہ کا کھلے دل سے شکریہ ادا کرکے نئی روایت ڈالیں گے۔
تیسری دنیا کی جمہوریت میں سیاسی اور آئینی مسائل وقت کے ساتھ چلتے رہتے ہیں لیکن اصل توجہ معیشت کو درکار ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت ملکی مسائل کو لے کر سنجیدہ ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف سے دوحہ میں مذاکرات شروع کر دیے گئے ہیں‘ دوسری طرف سابق وزیرخزانہ حفیظ شیخ صاحب پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ ممکنہ طور پر حفیظ شیخ ملک کے اگلے وزیر خزانہ ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک حکومت کی جانب سے ایسا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا ہے لیکن ماضی کے پیش نظر عوامی سطح پر یہ رائے قائم ہوتی دکھائی دی رہی ہے کہ آئی ایم ایف حفیظ شیخ کے ساتھ کمفرٹیبل رہتا ہے۔ مفتاح اسماعیل حساب کتاب کے ماہر دکھائی دیتے ہیں لیکن شاید آئی ایم ایف کے لیے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے‘ اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن مفتاح اسماعیل کے حالیہ چند فیصلے حوصلہ افزا دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں یوریا کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دو لاکھ میٹرک ٹن یوریا پر سبسڈی اور چین سے یوریا درآمد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ چین سے مالی مدد کے معاملات بھی تقریباً طے ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے تقریباً 55 بلین روپوں کی ادائیگی کی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق یہ رقم آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو مئی کے پندرہ دنوں کی سبسڈی کی مد میں دی گئی ہے۔ حکومت کے مطابق اس وقت پٹرول پر 47 اور ڈیزل پر 85 روپے فی لیٹر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ جب تحریک انصاف نے یکم مارچ سے سبسڈی دینے کا اعلان کیا تھا اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت تقریباً 86 ڈالر فی بیرل تھی جو آج تقریباً 109 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے جس کے باعث ملکی خزانے پربوجھ بڑھ گیا ہے۔ حکومت فی الحال یہ بوجھ عوام پر منتقل کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دے رہی۔ اس وقت عوام کو ریلیف مل رہا ہے جس پر وہ خوش ہیں لیکن یہ مہنگی سہولت شاید زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکے۔
اس کے علاوہ امپورٹ بل کم کرنے کے لیے درآمدات پر پابندی لگانے پر بھی غور کیے جانے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ میں نے پچھلے کئی کالموں میں لگژری آئٹمز کی درآمدات پر پابندی لگانے کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ اس وقت تقریباً 15 ارب ڈالرز کی لگژری آئٹمز پر بہ آسانی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ان میں مہنگی چاکلیٹس، بیگز، پنیر، گاڑیاں اور موبائل وغیرہ شامل ہیں۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے عوام کو بھی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق‘ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ پابندی لگانے کے بجائے ان اشیا پر ٹیکس بڑھا دیا جائے۔ مگر ماضی میں یہ تجربہ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوا۔ ایلیٹ کلاس اپنی عادتیں بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ مہنگی اشیا بھی درآمد کرنے سے گریز نہیں کرتی لہٰذا پابندی ہی بہترین حل ہو سکتا ہے۔ بروقت اور درست فیصلے درآمدات کے بل کو جون میں 65 ارب ڈالرز سے 75 ارب ڈالرز تک بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وزارتِ خزانہ اور سٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹوں کو جلدی بند کرنے کی بھی تجویز زیرِ غور ہے۔ اس سے بجلی کی بچت ممکن ہو گی جس سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں کمی آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ درآمدی مشینوں پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔ لیکن اس فیصلے پر تاجر اور صنعتی برادری کے تحفظات ہو سکتے ہیں۔ کورونا کے بعد کاروبار اب جا کر دوبارہ چلنے لگے ہیں‘ نئی پابندیاں معاشی ترقی کی رفتار کو کم کر سکتی ہیں لیکن مجبوراً کہیں تو قربانی بھی دینا پڑے گی۔ اس وقت کرنٹ اکائونٹ خسارہ تقریباً 13 بلین ڈالرز ہے۔ اگر عوامی سطح پر قربانی دینے میں ہچکچاہٹ دکھائی گئی تو مالی سال کے اختتام پر یہ خسارہ 16 سے 17 بلین ڈالرز ہو سکتا ہے۔ یہ میثاق معیشت کا وقت ہے اور ہر مکتبِ فکر اور شعبے کے افراد کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved