اس مرحلے پر ہمارے سیاستدانوں کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے ملک بچانا ہے یا اپنی سیاست۔اگر آپ نے میری رائے لینی ہے تو میں اسلام آباد میں چوبیس سال گزارنے اور ان سب لوگوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب ملک نہیں اپنی سیاست بچا رہے ہیں۔ ملک بچانا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ذہن میں رکھیں جو بندہ اقتدار کا خواہاں ہے یا پاور چاہتا ہے وہ کسی کا خیرخواہ نہیں۔ پاور اسے ہر قیمت پر چاہیے جس کیلئے اسے لاشوں کے انبار لگانے پڑیں یالوگوں کو استعمال کرنا پڑے‘ وہ اس کیلئے کسی بھی حد تک جائے گا۔ جو بھی اس کے اقتدار تک پہنچنے میں مدد دے گا وہ اسے گلے لگائے گا ورنہ وہ اسے روند کر نکل جائے گا۔
اس وقت یہ سب سیاسی کھلاڑی بے چین ہیں۔ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو تیار ہیں۔ ڈیڑھ ماہ تک تو شہباز شریف ‘ زرداری اور دیگر پارٹیاں یہ فیصلہ نہ کرسکیں کہ انہوں نے کرنا کیا ہے۔ پہلے کابینہ نہ بن پائی اور بن گئی تو پتہ نہ تھا کہ اب کتنے دنوں تک حکومت کرنی ہے۔ ابھی زرداری کہہ رہے ہیں کہ ڈھول گلے پڑگیا ہے تو اسے بجائیں گے‘ مطلب اب مدت پوری کریں گے۔ اس فیصلے نے عمران خان کو مزید فرسٹریٹ کر دیا ہے اور ان کے لہجے میں مزید تلخی آگئی ہے۔ اب تو انہوں نے ایک قدم آگے جا کر کہہ دیا ہے کہ ان کے احتجاجی مارچ میں فوجی خاندانوں کے لوگ بھی شامل ہوں گے۔ یوں وہ یہ پیغام وزیراعظم شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو بھیج رہے ہیں کہ ہمارے لانگ مارچ کے خلاف کارروائی سے پہلے ذہن میں رکھنا ہے کہ کن کن گھرانوں کے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔ کہا جارہا تھا کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے زور دیا جارہا تھا کہ ملک میں جو حالات ہیں بہتر ہے کہ نیا الیکشن کرالیا جائے تاکہ نئی حکومت فیصلے کر سکے لیکن اب زرداری اور شریف نہیں مان رہے کہ ہم کیوں عمران خان کے پسندیدہ وقت اور مقام پر سیاسی جنگ لڑیں۔ لڑیں گے تو اپنے وقت پر اور میدان کا فیصلہ خود کریں گے۔ یوں سارے اتحادی اب اس حق میں ہیں کہ نئے الیکشن کرانے کے بجائے ان اسمبلیوں کی مدت پوری کی جائے۔ اب نواز لیگ بھی تیار ہوگئی ہے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اس صورتحال کا یہ نقصان ہوا ہے کہ شہباز شریف کا جو برانڈ نواز لیگ نے بنایا ہواتھا وہ بری طرح خراب ہوا ہے۔ لوگوں کو لگا ہے کہ وہ اہم اور بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں اپنی سیاست اور پاپولرٹی کی فکر ہے۔ وہ اپنے ووٹ سے آگے نہیں سوچ رہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شہباز شریف کے پائوں نہیں جم سکے۔ ایک تو وہ وزیراعظم اس وقت بنے جب ایک وزیراعظم کو ہٹا کر انہیں لایا گیا اور انہیں گیارہ پارٹیوں کے ووٹوں کی ضرورت پڑ گئی‘ لہٰذا وہ اب ہر پارٹی کے ذاتی طور پر شکرگزار ہیں۔ ان کی کابینہ میں اپنی پارٹی کے چند وزیروں کے علاوہ باقی باہر کے لوگ ہیں اور ایسی کابینہ کو چلانا اتنا آسان نہیں۔بہت سے اہم فیصلے شہباز شریف عمران خان کے ڈر کی وجہ سے نہیں کر پارہے جس سے حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں۔ ڈالر دو سو روپے تک پہنچ گیا۔ سٹاک مارکیٹ کئی دفعہ گر چکی اور سرمایہ کاروں کے اربوں ڈوب چکے‘ لگتا ہے اس ملک میں کوئی حکومت نہیں‘ سب کچھ آٹو پر چل رہا ہے۔وجہ وہی ہے کہ ملک کا فائدہ دیکھ کر فیصلے نہیں کیے جارہے صرف ووٹ بینک بچایا جارہا ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے حکومت کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر جلسے کررہے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے جلسوں میں لانے میں کامیاب ہورہے ہیں جس سے حکومت بڑی حد تک نروس ہو چکی ہے۔ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ بھی کمزور پڑ گئے ہیں ‘وہ جو بیانات دے رہے تھے ان میں خاصی کمی آگئی ہے۔ اگر انہوں نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو عدالتوں نے انہیں روک دیا جس سے عمران خان کی پارٹی کے حوصلے بڑھے ہیں۔ حالیہ دو تین فیصلے ایسے ہیں جن سے سیاست کا رخ پلٹ رہا ہے اور اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ پہلے تو یہ فیصلہ ہوا کہ منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جائے گا جس سے یقینا پنجاب میں حمزہ شہباز پر شدید دبائو پڑا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے ان خبروں کا سوموٹو لیا ہے کہ حکومت شاید احتساب قوانین میں تبدیلی کا سوچ رہی ہے اورحکمرانوں کے خلاف انکوائری کرنے والے افسران کو بھی پریشر میں لایا جارہا ہے۔یقینا ان دونوں فیصلوں سے حکومت خوش نہیں ہو گی۔
یہ طے ہے کہ حمزہ شہباز شریف اور شہباز شریف باپ بیٹے کی جوڑی خوش قسمت نہیں نکلی۔ پہلے دن سے ہی باپ بیٹا مشکل کا شکار ہیں۔ اس لیے شہباز شریف کی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں یہی سوال میں نے ان سے کیا تھا کہ وہ وزیراعظم نہ بنتے کیونکہ ان پر مقدمات ہیں اور ان کے مخالفین ان کا جینا حرام کر دیں گے کہ جو بندہ ایف آئی اے کی انکوائری بھگت رہا ہے اور ضمانت پر ہے وہ ملک چلا رہا ہے۔ رہی سہی کسر آپ نے بیٹے کو وزیراعلیٰ نامزد کر کے پوری کر دی۔ یہ فیصلہ ہی عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے کافی ہے کہ باپ بیٹا نیب اور ایف آئی اے کے ملزم اور ضمانت پر ہیں لیکن اب ملک چلا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر ٹھیک نہیں تھا کہ ملزم باپ بیٹا ملک چلائیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت نواز لیگ کے سارے اہم لیڈر ضمانت پر ہیں اور نیب میں گرفتاریاں بھگت چکے ہیں‘لہٰذا کوئی بھی وزیراعظم بنتا تو یہی الزام لگنا تھا۔کوئی ایک آدھ بھی ایسا نہیں بچ گیا جس پر کیس نہ ہو یا جیل نہ گیا ہو۔
بہرحال اب جنگ تیز ہوگئی ہے۔ عمران خان ہر آنے والے دن کے ساتھ دبائو بڑھاتے جارہے ہیں اور حکومت کہیں نظر نہیں آرہی۔ پنجاب اہم صوبہ ہے جہاں ابھی تک حکومت کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ یوں شہباز شریف کے ہاتھ وہاں باندھ دیے گئے ہیں جس کا فائدہ عمران خان اٹھا رہے ہیں اور خوب اٹھا رہے ہیں۔ وہ حکومت کی بدحواسی کو انجوائے کررہے ہیں۔ لگتا ہے عمران خان کے پاس ہر چیز کاتوڑ ہے کیونکہ لوگ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ وہ شریفوں کے مقابلے میں کم کرپٹ ہیں۔ لوگ عمران خان کے چودہ کروڑ کے تحائف بیچنے کو بھول گئے ہیں۔ وہ بزدار صاحب اور دوسروں کی دولت میں اضافے کو بھی بھول گئے ہیں۔ اب تو عمران خان کے قریبی ساتھی عون چوہدری کے سلیم صافی کے پروگرام میں سابق خاتون اول کے بارے کیے گئے خوفناک انکشافات کو بھی شاید کوئی سیریس نہ لے۔
میں بار بار کہتا رہا ہوں کہ اس عوام کا مسئلہ نہ کرپٹ ہیں نہ ہی کرپشن‘ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہمارا کوئی ناپسندیدہ بندہ حکمران بن جائے تو وہ ہمیں لٹیرا لگنے لگ جاتا ہے‘ پسندیدہ بندہ لگ جائے تو پھر کسی چیز کی فکر نہیں۔ پھر ہم خود اس کا دفاع کر رہے ہوں گے۔اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ ملک ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ جلتی پر تیل کا کام سری لنکا میں ہنگاموں نے کیا ہے اور فورا ًہی سب کو فکر پڑ گئی کہ یہی حشر ہمارا بھی ہوسکتا ہے۔ جس وقت لوگوں کو حکومت سے حوصلے اور اعتماد کی ضرورت تھی اس وقت وہ Panic کا شکار ہوگئی۔ اس وقت اسے اپنے ووٹ بینک کی فکر پڑگئی۔ جو حکومت چلارہے ہیں ملک کی فکر سے زیادہ انہیں اپنی اگلی حکومت کی فکر پڑ گئی۔ یہ بھی عجیب سیاست اور سیاستدان ہیں کہ جس حکومت میں وزیراعظم اور وزیر بنے بیٹھے ہیں اس سے زیادہ مستقبل کی حکومت کی پریشانی ہے۔ جوحکومت مل چکی ہے اسے چلانے کی فکر سے زیادہ مستقبل کی حکومت بارے پریشان ہیں ‘جو ہوسکتا ہے ملے ہی نہ۔ ان سیانوں کو کون سمجھائے کہ جو تیتر ہاتھ میں ہو وہ اس تیتر سے ہزار گنا بہتر ہے جو جھاڑی میں چھپا بیٹھا ہے۔ آپ ہاتھ میں آئے تیتر کو چھوڑ کر جھاڑی میں چھپے تیتر کو پکڑنے کیلئے ہلکان ہورہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved