تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-05-2022

فیصلے جو ہوئے، مگر جو نہ ہو سکے… (1)

اس میں اب کوئی شک باقی نہیں، نہ شبہ رہا ہے کہ یہ فیصلہ کُن مرحلہ ہے۔ پاکستان کی ریاست، سیاست، جمہوریت اور معیشت کا defining moment۔ ماسوائے سقوطِ ڈھاکہ کے ایسا وقت پاکستان پہ کبھی نہیں آیا۔ یہ کئی اعتبار سے اُس سے بھی زیادہ سخت وقت ہے، ایسا سخت جہاں لمحوں کی خطا والی غلطی کو صدیوں کی سزا میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ درست اور بروقت فیصلے کر کے۔
امپورٹ شدہ رجیم چینج کے سیاسی کردار اب تو کھل کر کہنے لگے ہیں کہ یہ سب نومبر میں ہونے والے کسی فیصلے کا prelude ہے۔ یہی لوگ اس سال 10 مارچ سے پہلے کہتے نہ تھکتے تھے کہ فوری الیکشن پاکستان کے سارے مسائل کا واحد حل ہے۔ جب عمران خان کی ایڈوائس پر ری پبلک کے صدر نے اسمبلی توڑی اور نئے الیکشن کا اعلان کر دیا تو فوراً الیکشن کو جمہوریت کی خوبصورتی کہنے والے الیکشن سے یُوٹرن لے گئے۔ کچھ دوسرے حلقے ایسے بھی ہیں، جو امپورٹڈ رجیم چینج کو کسی دوسری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق رجیم چینج کا مقصد ملک کی معیشت کی بہتری اور ڈالر کو مضبوط کرنا تھا تاکہ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے‘ مگر ڈالر کھڑا ہونے کے بجائے، ایس ایس سپیڈ سے ایسا دوڑا کہ 205 کی رفتار سے بھی کسی کے ہاتھ نہیں آرہا۔
محض 2 عدد شیروانیوں کا شوق پورا کرنے کے لیے اچھے خاصے کھڑے پاکستان کو رکوع اور سجدے کی درمیانی کیفیت پر پہنچا دیا گیا۔ ظاہر ہے سجدہ امریکی ڈِکٹیشن کے علاوہ اور کس کے کہنے پہ ہو گا؟ یقین نہ آئے تو اپنے 2 فارن منسٹرز میں سے ایک کی Antony Blinken کے سامنے تصویر دیکھ لیں۔ Antony Blinken یو ایس سیکرٹری آف سٹیٹ برائے خارجہ امور ہے۔ یہ اصلی پکچر، آقا اور بھکاری ریلیشن شپ کی منہ بولتی تصویر ہے جس میں ہمارے یکے اَز، وُزرائے خارجان، عبادت کے انداز میں پوری وارفتگی سے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ ایسی وارفتگی کا عالم، جس میں وہ اپنے پرچمِ ستارہ و ہلال کے سائے میں آنے کے بجائے امریکہ کے چورَنگے جھنڈے کی پناہ میں خاموش ہاتھ باندھے ہوئے ملے ہیں۔ نہ پاکستان والی چیخ چنگھاڑ، نہ للکار، بلکہ چوں بھی نہیں۔ آقا بولتا رہا، بولتا رہا، صرف آقا ہی بولتا رہا۔
روایتی پاکستانی فلموں کی کہانی کی طرح ایک اور سائیڈ سٹوری بھی Pre-November کے نام سے سیاسی سکرین پر چل رہی ہے۔ اس کا مرکزی خیال ہے فیصلہ سازی۔ تیزی سے کلائمیکس کی طرف بڑھتی ہوئی اِن دونوں کہانیوں کو 2 سادہ لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ فیصلے جو ہو گئے اور فیصلے جو نہ ہو سکے۔ پہلے چلتے ہیں اُن بڑے فیصلوں کی جانب جو ہو گئے۔
پہلا بڑا فیصلہ: پوسٹ رجیم چینج سب سے بڑا فیصلہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 63A پر آیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اِس آرٹیکل کی نہ صرف تشریح (interpretation) کی‘ عدالت نے اِسے محض عدالتی رائے (Judicial Opinion) یا ریمارکس (Obitor Dicta) نہیں رہنے دیا بلکہ زمینی حقائق اور اِس مقدمے کے شروع ہونے کی وجوہات دیکھتے ہوئے اپنے فیصلے کو مکمل انصاف یعنی Complete Justice کے رُتبے تک اُٹھا دیا۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین بڑے پیمانے پر Defectors بنائے جانے کی وجہ سے یہ ضروری تھا کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا اِبہام نہ رہے۔ آرٹیکل 187 کے ذیلی آرٹیکل 2 کو دیکھا جائے تو اس کی روشنی میں عدالتِ عظمیٰ نے یہ ابہام دور کر ڈالا۔
Article 187(2): Any such direction, order or decree shall be enforceable throughout Pakistan and shall, where it is to be executed in a Province, or a territory or an area not forming part of a Province but within the jurisdiction of the High Court of the Province, be executed as if it had been issued by the High Court of that Province.
اس آرٹیکل کے استعمال کے ذریعے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو ملک کی پانچوں ہائی کورٹس نافذ کرنے اور کروانے کی ذمہ دار بن گئیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے خریدے ہوئے ووٹ، کائونٹ سے نکل گئے۔ سادہ مطلب یہ ہوا کہ ایسے ووٹ کبھی کسی کے حق میں پڑے ہی نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیالِ خام یہ ہے، یا خواہش کہ یہ آرڈر کسی آنے والی ضمیر فروشی کو روکتا ہے‘ یعنی اس کا اثر prospective ہوگا۔ صدارتی ریفرنس اور پی ٹی آئی کی آئینی پٹیشن نے ووٹ فروشی کے واقعات لکھ کر کیس دائر کیے۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ اُنہی واقعات پر آیا ہے۔ اِس لیے اِس کے نتیجے میں Imported-2 کے 26 ووٹ اُڑ گئے اور پُلس مقابلہ ٹائپ، الیکشن کا ڈرامہ بھی ختم ہوگیا۔ سی ایم کے عہدے پرنیا الیکشن ہوگا۔
دوسرا بڑا فیصلہ: سپریم کورٹ نے حکومت میں بیٹھے ہوئے منی لانڈرنگ اور احتساب کے بڑے ملزموں کی مداخلتِ بیجا کا سوئوموٹو نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج (جسٹس سید محمد مظاہر علی اکبر نقوی) کے مصدقہ نوٹ پر اَز خود نوٹس کا آغاز ہوا ۔پہلا پہلو یہ کہ بڑے ملزموں کے تفتیش کار دبائو میں ہیں۔ ان مقدموں کے Evidences ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ نظام انصاف میں سرکاری مداخلت کاری اس نوٹس کی تیسری وجہ بنی۔ یہ زیرِ سماعت ہے، اِس لیے کمنٹس مناسب نہیں۔
ہاں مگر اتنا کہنا ضروری ہے کہ دونوں مقدمات اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے پانامہ کیس سے کہیں بڑے ہیں‘ جس کا ثبوت جمعرات کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں مقدمے کی کارروائی سے ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے وہ مقدمات جن میں ریاست کے بڑے ملوث ہیں اور اُن کے ریکارڈ غائب ہونے کا خدشہ ہے۔ بلا سبب پڑھے لکھے اور اَپ رائٹ ڈی جی ایف آئی اے ثنااللہ عباسی کا ٹرانسفر۔ ٹرائل کورٹس کے بارے میں مستعد ہونے کے ریمارکس۔ ای سی ایل کی فہرست میں سے بڑوں بڑوں کے نام نکالنے کی جلدی۔ ایف آئی اے کے ایک انتہائی قابل تفتیش کار ڈاکٹر رضوان کی مشکوک موت سمیت، نظامِ انصاف کو ڈی ریل کرنے کی برہنہ کوششیں اور گھر کے بندے پراسیکیوٹر لگا کر مقدمات ختم کرنے یا واپس لینے کی حرکت۔ یہ سب انتہائی سنگین معاملات ہیں، جن کے بارے میں ملک کی آخری عدالت کو فوری مداخلت کرنا پڑی۔
وہ فیصلے جو نہ ہوسکے، اُن کے سب سے بڑے دعوے کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ Suo Moto No.1 of 2022 کی سماعت کورٹ روم نمبر1 میں ہورہی تھی۔ روسٹرم پر لیفٹ کی جانب میں کھڑا تھا۔ اُسی روسٹرم پر میرے دائیں جانب کھڑے ہوکر امپورٹڈ حکومت کے سربراہ نے 2 یقین دہانیاں کروائیں۔ میں سپیڈ سے فیصلے کروں گا، اور معیشت کو فوراً سنبھال کر دکھا دوں گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں، جس امپورٹڈ کی ابھی تک پٹرولیم پرائسنگ پر ''کانپیں ٹانگ‘‘ رہی ہیں، اُس نے اپنے ہاتھوں ڈبوئی ہوئی معیشت کیا خاک سنبھالنی ہے؟ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved