سیاست کا عمل بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے پانی میں آخر کار خس و خاشاک دھارے سے الگ ہو کر کناروں میں جمع ہو جاتے ہیں اور بیچ میں سے صاف اور شفاف پانی اپنا راستہ بنا کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے‘ اسی طرح سیاسی (تاریخی) عمل میں بھی کچھ عرصہ بعد جھوٹ، فریب اور محض مفروضوں پر مبنی بیانیے ایکسپوز ہو کر عوام کی نظروں میں اپنی قدرت کھو بیٹھتے ہیں اور سچ اور حقیقت نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (Friedrich Hegel) نے سب سے پہلے اس کا ذکر کرتے ہوئے اسے جدلیاتی عمل (Dialectical Process) کا نام دیا تھا۔ بعد میں نظریہ کمیونزم (communism) کے بانی کارل مارکس نے اسے (Dialectical Materialism) کی حیثیت سے پیش کیا۔ ہیگل نے اسے انسانی تاریخ، تمدن، تہذیب اور نظریات میں تبدیلی اور ارتقا کی وضاحت کیلئے پیش کیا جبکہ کارل مارکس نے اسے سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے بطور لا آف سوشل ڈویلپمنٹ(Law of Social Development) پیش کیا۔
پاکستان میں گزشتہ تقریباً دو ماہ سے ایک شدید سیاسی اور آئینی بحران چلا آ رہا ہے۔ تاریخی یا سیاسی عمل میں ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ تجزیے اور نتائج اخذ کرنے کیلئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کسی نے آج سے تقریباً 50 برس قبل عوامی جمہوریہ چین کے آنجہانی وزیر اعظم چو این لائی سے پوچھا تھا کہ 1779ء میں بپا ہونے والے انقلاب فرانس کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا؟ اس پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ It is too early to pass a judgement‘ یعنی اس واقعہ کو ابھی اتنا عرصہ نہیں گزرا کہ اس پر ایک بے لاگ، غیر جانب دارانہ تبصرہ کیا جائے۔ پاکستان کے موجودہ بحران کی عمر کا اگر انقلاب فرانس کی مدت سے موازنہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا تجزیہ کرنے یا کوئی حتمی نتیجہ نکالنے کی کوشش کتنی احمقانہ ہو سکتی ہے‘ لیکن راقم الحروف اس کے باوجود جسارت پہ اس لئے آمادہ ہے کہ آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے کی نسبت موجودہ دور میں تبدیلی کی رفتار بہت زیادہ تیز ہے اور تبدیلی کے اسی انتہائی تیز رفتار عمل کی وجہ سے گرد و غبار جلد بیٹھ جاتا ہے اور بحران کے اصل خدوخال کو ابھر کر سامنے آنے میں دیر نہیں لگتی۔
ان خدوخال کی بنیاد پر حتمی تو نہیں (یہ تو تاریخ فیصلہ کرے گی) لیکن عبوری طور پر نتائج اخذ کر کے قارئین کے نوٹس میں لایا جا سکتا ہے۔ سیاست کے اس معرکے میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار جنگجوؤں کے داؤ پیچ، دعووں اور بیانات کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مرکزی حیثیت چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے بیانیے کی ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے الگ کیا گیا ہے۔ یہ سازش بیرون ملک، امریکہ میں تیار کی گئی اور پاکستان سے اس میں شرکت کرنے والوں میں اپوزیشن پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ کے چند اراکین شامل ہیں۔ عمران خان نے اپنے اس الزام کو ہر جلسے میں دہرایا ہے اور اسی دوران انہوں نے ٹی وی چینلز کو جو انٹرویو دئیے یا پریس کانفرنسوں میں جو بیانات دئیے، ان کی روشنی میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ اگر یہ سازش تھی تو اس کا تعلق کسی بیرونی طاقت سے نہیں بلکہ یہ پاکستان کی اندرونی سیاسی چپقلش کا نتیجہ ہے۔
اس کی تائید مختلف مواقع پر جاری کئے گئے خود عمران خان کے اپنے اور پی ٹی آئی کے چند سرکردہ رہنماؤں کے بیانات سے ہوتی ہے۔ عمران خان نے اپنے ابتدائی بیانات میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کے ساتھ الوداعی لنچ کے موقع پر گفتگو کے بعد داخل کی گئی، یعنی سات مارچ کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایمبیسیڈر اسد مجید خان اور امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو کے درمیان ملاقات ہوئی اور اگلے دن یعنی 8 مارچ کو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جاتی ہے‘ مگر کیا اس سے امریکہ اور تحریک عدم اعتماد کے درمیان کوئی براہ راست تعلق ثابت ہوتا ہے؟
عمران خان صاحب کے ایک اپنے بیان میں اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے‘ جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں پچھلے سال جولائی میں پتہ چل گیا تھا کہ انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔ پاکستانی سفیر کے ساتھ امریکی اہلکار کی گفتگو کی بنیاد پر اول الذکر نے وزارت خارجہ کو جو ''نوٹ‘‘ بھیجا، اس کے مندرجات پر مبنی ''سازش‘‘ کے دعوے کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر کسی بھی حلقے کی طرف سے حمایت حاصل نہیں ہوئی بلکہ ''سازش‘‘ کے الزام پر امریکہ کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا، وہ عام روایت سے ہٹ کر زیادہ ترش اور سخت ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان کی طرف سے عمران خان کے اس دعوے کو پہلے بے بنیاد کہہ کر اس کی تردید کی گئی‘ اور اس کے بعد اس مہم کی مذمت کی گئی‘ اور تازہ ترین بیانات میں امریکی حکومت نے عمران خان پر ''جھوٹ‘‘ بولنے کا الزام لگایا۔
یہ صورتحال صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دور رسی سٹریٹجک مفادات کیلئے خطرناک بھی ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک شخص کی وجہ سے اتنا نقصان پہنچے۔ سازش کی بنیاد کیا ہے؟ عمران خان نے خود ہی اس پر سے یہ کہہ کر پردہ اٹھایا کہ عثمان بزدار اور آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کے مسئلے پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے اختلافات نے واقعات اور حالات کا وہ سلسلہ شروع کیا، جو بالآخر اقتدار سے ان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ اسی طرح عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اپوزیشن نے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پی ٹی آئی میں منحرفین کا ایک گروپ پیدا کیا‘ اور پھر ان کی مدد سے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی حکومتوں کو ختم کر دیا۔ قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد میں پی ٹی آئی کے نام نہاد منحرفین میں سے کسی کے ووٹ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کے ارکان اسمبلی کی ناراضی اور پی ٹی آئی سے راستے جدا کرنے کا عمل ایک سال پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اس کا کسی طرح سے بھی نام نہاد امریکی سازش سے تعلق نہیں بنتا۔
پی ٹی آئی کے صف اول کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کے بیان نے تو ''امریکی سازش‘‘ کے متعلقہ تمام دعووں کی نفی کر دی۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر تعلقات ٹھیک ہوتے تو آج بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی۔ امریکہ کے ایک تیسرے درجے کے سرکاری اہلکار کی غیر سفارتی زبان کو اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دے کر عمران خان اور ان کی پارٹی نے سیاسی فائدہ اٹھانے کی جو کوشش کی ہے، وہ کامیاب نہیں ہو گی، بلکہ میرے خیال میں اس کی وجہ سے پاکستان کو نامواقف معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved