دستور کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے نے تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جمہوریت اور اصول پسندی کی قلعی کھول دی ہے۔ صدارتی ریفرنس پر دیے گئے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو ذرا عوامی انداز میں کھولا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو وفاداریاں بدل کر‘ لوٹا ہوکر جتنا چاہے لڑھکے‘ عوام کے ووٹ نے اس کی ٹونٹی جس رخ پر لگائی ہے وہ اسے اپنی مرضی سے بدل کر کسی دوسرے کو سیراب نہیں کرسکتا۔ اصولی طور پراس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اب تک پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب حمزہ شہباز شریف کو تو فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہیے تھا کہ ان کے ساتھ دو درجن کے قریب خواتین و حضرات ہیں جنہوں نے ووٹ تو عمران خان کے نام پر لیے مگر وفاداریاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ نبھائیں۔ ایسا نہیں ہوا۔ وزیراعلیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک دستور انہیں اجازت دے گا وہ اپنے عہدے پر رہیں گے۔ ظاہر ہے دستور خود آکر تو انہیں کرسی سے نہیں ہٹا سکتا‘ اس لیے دستور کی اس بے بسی کو وہ اپنی طاقت بنا کر اپنی کرسی پر جمے رہیں گے۔ خواجہ سعد رفیق جیسے جید جمہوریت پسند بھی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک فرما گئے کہ اس کے بعد تو کسی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ممکن ہی نہیں ہوسکے گی۔ بہت خوب گویا پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ دستور میں عدم اعتماد کا فریضہ تو ہر صورت میں انجام دینا پڑے گا اور ظاہر ہے جب یہ سمجھ لیں تو پھر اسمبلیوں میں لوٹوں یعنی وفا داریاں بدلنے والوں کی موجودگی بھی لازم قرار پائے گی۔ تصور کیجیے کہ یہ استدلال کہاں تک جائے گا‘ یعنی کوئی نکاح اس لیے کرے کہ طلاق کا شوق پورا کرنا ہے‘ اس لیے رشتہ جیسا بھی ہو چلے گا۔ اس منطق پر سر دھننے کیلئے ضروری ہے کہ ایسا کرنے والا اسلام آباد میں تازہ وارد مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ ہو‘ کیونکہ حکومتیں اس طرح کے بے سروپا دلائل دیتی ہیں اور وزیر ہی ان پر واہ واہ کیا کرتے ہیں۔
اب ایک نظر ذرا اس نکتے پر بھی ڈال لیجیے کہ عدالتی رائے کے بعد وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد ممکن ہی نہیں ہوسکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ1973 ء کا دستور بنانے والوں کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 1985ء کے بعد منتخب ہونے والے پیسے یا کسی اور وجہ سے اپنی وفاداریاں بدل لیا کریں گے۔ اس لیے ان بزرگوں نے پارلیمنٹ کے اندر وفاداری نبھانے کو معززاراکین اسمبلی پر ہی چھوڑ دیا۔ بعد کے حالات میں جب ان معززین کی حرکتوں کے پیش نظر دستور میں 63 اے کا آرٹیکل شامل ہوا تو پھر تحریک عدم اعتماد کے دو راستے نکلے۔ پہلا تو یہ کہ مخلوط حکومت کی صورت میں اتحادی پارٹیاں الگ ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ حکومتی جماعت اپنے اندرونی نظام کے تحت وزیراعظم کے عہدے پر فائز شخص کو بدل ڈالے۔ اس کو یوں سمجھ لیجیے کہ اگر شہباز شریف کی حکومت ختم کرنا ہو تو ایک صورت اتحادیوں کے الگ ہوجانے کی ہے اور دوسری مسلم لیگ (ن) ہی اپنے کسی دوسرے امیدوار کو سامنے لاکر یہ کام کرسکتی ہے۔ ویسے بھی مادرِ پارلیمان کہلانے والے ملک برطانیہ میں بھی عدم اعتماد کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی نظام کے تحت ہی اپنا لیڈر بدل لیتی ہیں کیونکہ عدم اعتماد نظام کو اتنا غیر مستحکم کردیتا ہے کہ پھرالیکشن ہی کرانا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ( ن) اور پیپلزپارٹی کا عدالتی فیصلے پر ردعمل اور اس کے خلاف بے معنی دلائل دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ دستور میں آرٹیکل 63 اے جنرل مشرف نے ڈالا تھا یا جنرل ضیاالحق نے۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ کہ اسے 1997 ء میں دستور کی زینت تو بنایا ہی جناب نوازشریف نے تھا۔ اس وقت انہیں خوف لاحق تھا کہ ہیئت مقتدرہ کا کوئی فریق انہی کی پارٹی کے اراکین کوتوڑ کر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لے آئے۔ یہ خوف ایسا بے بنیاد بھی نہیں تھا کیونکہ وہ خود بھی ہیئت مقتدرہ کے ساتھ مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا چکے تھے۔ اس تحریک عدم اعتماد میں پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی کو خوف اور لالچ کا نشانہ بنا کر توڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ ملک میں عدم استحکام کی جن کوششوں کا وہ خود حصہ رہ چکے ہیں‘ کم ازکم اس طرح کی کوششوں کے تمام راستے بند کردیے جائیں۔ اس لیے انہوں نے دستور میں جو ترمیم کروائی تھی اس کے مطابق کسی رکن اسمبلی کیلئے اپنے لیڈر کے خلاف بات کرنا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ اس ترمیم کے 13 سال بعد جب اٹھارہویں ترمیم کا موقع آیا توتحریک انصاف کے سوا سبھی سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 63 اے کو کچھ نرم کر کے متفقہ طور پردستور میں دوبارہ شامل کیا لیکن اس کا اصل مقصد وہی رہا کہ اسمبلی میں کوئی رکن اپنی پارٹی نہ چھوڑ سکے۔ تحریک انصاف اس شق کی توثیق میں اس لیے شامل نہیں ہوسکی کہ یہ اس وقت اسمبلی یا سینیٹ میں موجود ہی نہیں تھی۔ اس پس منظر میں آج مسلم لیگ (ن) جب دستور میں خالصتاً اپنے مفاد میں اپنی ہی کی ہوئی آئینی ترمیم کی جانتے بوجھتے مخالفت پر ڈٹی ہوئی ہے تو اسے اپنے قول و فعل پر اتنی بھی ندامت نہیں جتنی انجانے میں کسی سے ٹکراجانے پر ہوتی ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے خیالات بدل چکے ہوتے اور ان بدلے ہوئے خیالات کی روشنی میں وہ اپنی ترمیم کی مخالفت کرتی تو بات بھی تھی۔ اس کا موجودہ موقف تو سیدھے سبھاؤ یہ ہے کہ فی الحال وفاداریاں بدل لینے والوں کو اجازت دی جائے کہ وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو قائم و دائم رکھیں‘ بعد میں چاہے کسی مناسب موقع پر انہیں لوٹا قرار دے کر نااہل کردیا جائے۔
پاکستان پیپلزپارٹی اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) سے کئی قدم آگے ہے۔ باوجود اس کے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ہارس ٹریڈنگ ہوئی لیکن اس نے دل پر لیے بغیر پورے شرح صدر کے ساتھ قومی اسمبلی میں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوالیا۔ پھراس کے طرّہ امتیاز کی بلندی مزید اس طرح بڑھی کہ سندھ ہاؤس میں وفاداریاں بدل لینے والوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں کھل کھیلنے کے مواقع بھی دیے۔ جناب آصف علی زردای کی سربراہی میں اس جماعت کا یہ اندازِ سیاست دیکھ کر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہ پروا ہی نہیں کہ کسی رکن اسمبلی کوپیسے یا کسی اور حربے کے استعمال سے توڑنے کی کوشش عوام کی نظر میں کیا ہے۔ لہٰذا اس جماعت کو یاد دلانا کہ اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر آرٹیکل63 اے کی دستور میں شمولیت کی تائید اس نے بھی کی تھی بالکل بے معنی لگتا ہے۔ کچھ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں کچھ کہنے سے حجاب آتا ہے کہ آنجناب کہیںوفاداری بدلنے کے عمل کو مباح‘ مستحب یا واجب نہ قرار دینے نکل پڑیں۔
آرٹیکل 63اے کی واضح تشریح کے بعد بھی وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کا قائم رہنا سیاست کی دنیا کا ایک عجیب و غریب تجربہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وجہ یہ کہ دنیا بھر میں سیاسیات پرلکھے ہوئے قدیم ترین مقالے پڑھ لیں یا جدید ترین تحقیق‘ سب ایک ہی بات کرتے ہیں کہ حکومتوں کی بقا کا ایک جواز قانونی ہوتا ہے اور دوسرا اخلاقی۔ حکومتیں قانونی طور پر مضبوط ہوں لیکن ان کی اخلاقی ساکھ باقی نہ رہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہاں قانونی جواز تو ماضی میں آمروں نے بھی اپنے لیے گھڑ لیے تھے۔ کوئی عدالتی فیصلے کواپنی وجۂ وجود بتاتا تھا تو کوئی اپنی ہی کی ہوئی آئینی ترمیم کا حوالہ دے کرخود کو جائز ثابت کرتا تھا۔ ایوب خان نے تو اپنی حکومت کیلئے آئین ہی نیا بنا لیا تھا تاکہ قانونی جواز ذاتی قانون بنا کر تراش لیا جائے۔ موجودہ حکومتی بندوبست بھی شاید قانون کے بکھیڑوں میں پڑا کچرا اکٹھا کرکے اپنے وجود کی کوئی قانونی دلیل فراہم کرسکتا ہے مگرمنحرف ارکان کے بارے میں عدالتی فیصلے کے بعد اس کا اخلاقی جواز ختم ہوچکا ہے۔ ایسی حکومتیں جتنی دیر قائم رہیں گی اپنے ساتھ ساتھ ملک کا بھی نقصان کرتی رہیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved