کسی کو بھی یاد نہیں رہا ہو گا۔ کروڑوں لوگوں کے ذہنوں کے کسی حصے میں بھی اس کی یاد کی ہلکی سی جھلک بھی نہیں ہو گی۔ وہ اسے ایک بھولے بسرے خواب کی مانند کب کے بھول چکے ہوں گے۔ نہ کسی کو اس کی جرأت اور بہادری کے وہ لمحات یاد رہے ہوں گے اور نہ ہی ایک عام شہری پرکیے جانے والے طاقتوروں کے ظلم کی کمر توڑنے والے اس کے کارنامے کی خبر رہی ہو گی۔ وہ اس قدر دلیرتھا کہ اس نے ایک ظالم و جابر سے ٹکر لی۔ ایک بے بس و لاچار اور غریب استاد کی فریاد پر اس کی مدد کرنے اور اس مظلوم کو انصاف دلانے کیلئے اس نے اپنی ملازمت اور اپنے خاندان سمیت سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا۔ علاقے کے بعض بااثر اور طاقتوروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے اس نے اپنا آپ علاقے کی وڈیرے اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران کی آتشِ انتقام میں جھونک دیا تھا۔ 2012ء کا وہ دن اہالیانِ سرگودھا کو آج بھی یاد ہو گا جب اس دلیر پولیس افسر نے قائداعظمؒ کا دیا گیا سبق یاد کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو کر ظالم کا ہاتھ روکا تھا۔ تمام عمر ظلمت کے اندھیروں کے پردے چاک کرتا ہوا وہ اب مثل نجم آسمان پر روشن ہو گیا ہے۔ وہ بھولا بسرا نام‘ ایک دبنگ و بہادر افسر کی صورت میں‘ ایک زندہ جاوید رہنے والی مثال کی صورت میں آج ہر گھر‘ ہر جگہ اچانک اور پراسرار موت کی خبروں کے باعث ایک بار پھر گونج رہا ہے۔
یہ 2012ء کا آغاز تھا جب اس وقت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک انتہائی تکلیف دہ اور دکھ بھری خبر نے ہر انسان کو دکھی اور رنجیدہ کر دیا۔ ہر ماں کے کلیجے اور باپ کی آنکھوں میں اولادکیلئے دیکھی جانے والی چمک کو اس خبر نے اپنی مٹھی میں لے لیا تھا۔ وہ خبر کیا تھی‘ وہ منا ظر کیا تھے‘ جس نے سنا‘ جس نے دیکھا‘ وہ اپنی جگہ سُن ہو کر رہ گیا۔ ہمارے بچوں‘ ہمارے مستقبل اور ہماری آنے والی نسلوںکو علم کی دولت سے مالا مال کرنے والے ایک باریش اور انتہائی محترم اور اچھی شہرت کے حامل ایک استاد کو سزا دینے کیلئے وقت کے جابر نے لاٹھیاں اور ڈنڈے برساتے ہوئے اس کی ٹانگیں توڑ دی تھیں۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے جاگیردار کو کچھ برا بھلا کہا تھا مگر قصور صرف یہ نہ تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے وڈیروں‘ جاگیرداروں اور بدمعاشوں کے دامن میں سکول کھولنے کی کوشش کی تھی تاکہ غریب مزدوروں‘ کسانوں‘ مزارعوں اور کم تنخواہ پانے والوں کے افراد کے بچوں کو‘ جو دور دراز اور مہنگے سکولوں میں جانے کی سکت نہیں رکھتے تھے‘ گھروں کے نزدیک تعلیم کے نور سے منور کیا جا سکے۔ اس نے ان بچوں کو ایک ایسا سکول مہیا کر نے کی ہمت کی تھی جہاں وہ پانچ روپے فیس دے کر پڑھ سکتے تھے۔
قانون‘ انتظامیہ اور عوام کے سامنے وہ باریش استاد چیخیں مارتا ہوا‘ درد کی انتہا سے ایڑیاں رگڑ رہا تھا مگر کوئی ان ظالموں کو روکنا تو کجا‘ ان کے ڈر اور خوف سے پانی کا ایک قطرہ بھی اس کے حلق میں اتارنے کیلئے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ اگر کسی نے ایسی کوئی کوشش کی بھی تو مقامی بااثر افراد اور ان کے کارندوں نے اس پر تھپڑوں اور ڈنڈوں کی بارش کر دی۔ وہ استاد‘ جو قوم کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے مقدس مشن پر گامزن تھا‘ اس کی چھوٹی چھوٹی بیٹیوں اور بیوی کو پتا چلا تو روتی چیختی ہوئی اس کی طرف بھاگیں۔ پورے علاقے کے سامنے ان چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی تھپڑ مارے گئے‘ ان کی ماں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ مقامی پولیس اپنے تمام اختیارات اور اپنی آنکھیں بند کر کے سوتی رہی کیونکہ شاید بیشتر افراد کے گھروں کے اخراجات انہی افراد کے ذمے تھے جو ہر قسم کے قانون اور اخلاقیات سے ماورا ہو کر ایک استاد پر علم کی شمع روشن کرنے کی پاداش میں ظلم ڈھا رہے تھے۔ اس وقت دین کا ایک سپاہی‘ فرزند پاکستان‘ قائداعظم کے پاکستان کے انتظامی افسران کو دیے گئے سبق کی ایک ایک سطراور ایک ایک حرف سمیت اپنے حلف کو دہراتا ہوا آگے بڑھا اور اس مظلوم استاد کو انصاف دلانے کیلئے میدانِ عمل میں کود پڑا۔ یہ دراز قد اور خوبصورت انسان‘ جس کا ظاہر ہی نہیں بلکہ باطن بھی خوبصورت تھا‘ اپنی پُرکشش ملازمت‘ اپنی زندگی اور اپنا مستقبل دائو پر لگاتا ہوا قانون کی کتاب کی عظمت بحال کرنے کیلئے ظالموں کے گھروں تک جا پہنچا۔ وہ دہلیز جو مقامی انتظامی افسران صرف سلام کرنے کیلئے پار کیا کرتے تھے‘ وہاں ڈاکٹر رضوان اپنے فرض منصبی کا حق ادا کرنے اور مجرموں کے ہاتھوں میں قانون کا شکنجہ ڈالنے کیلئے جا پہنچا اور اس وقت تک وہاں ڈیرے ڈال کر بیٹھا رہا جب تک علم کے زیور سے آراستہ کرنے والے باریش استاد کی ٹانگیں توڑنے والے افراد قانون کے سامنے پیش نہ ہو گئے۔
جس طرح ڈاکٹر رضوان عام انسانوں سے قد میں تھوڑا اونچا تھا‘ اسی طرح وہ اپنی فرض شناسی اور انسانیت میں بھی سب سے بلند تھا۔ اس فرض شناس اور نڈر افسر نے اس جاگیردار کو اپنے ہاتھوں سے ہتھکڑی لگائی۔ وہ جاگیر دار جس کے عزیز ایم پی اے، ایم این اے، وزیر اور اعلیٰ سیاسی عہدوں پر براجمان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی تو کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ لوگوں نے تو ہمیشہ سرکاری افسران کو ان زمینداروں کی حویلیوں اور ان کے محلوں میں جوتے اتار کر جاتے دیکھا تھا۔ ان کے ڈیروں پر ہاتھ باندھ کر افسران کو باادب کھڑے دیکھا تھا۔ ہر طرف ایک شورمچ گیا‘ اگلے دن جب اس مقامی زمیندار کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر عدالت میں پیش ہونے کیلئے لے جاتے دیکھا تو عوام کا ایک جم غفیر دور دور سے یہ ناقابل یقین مناظر بلکہ انہونی دیکھنے کو امڈ پڑا۔ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کہاں ایک غریب اور لاچار استاد اور کہاں اس کی ٹانگیں توڑنے والا علاقے کا بااثر شخص جس کی سیاسی قوت اور دہشت دور دور تک کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر رضوان جب اپنی ملازمت کے ابتدائی سالوں میں تھے‘ ان کو ان کی اس جرأت اور بے نام عوام‘ جن کا کام صرف ووٹ دینا ہے‘ کو انصاف دلانے اور مظلوم کی مدد کرنے کی فوری سزا دی گئی۔ لاہور سے نادر شاہی حکم آ گیا کہ اس شخص کی یہ جرأت کہ وہ ہمارے آدمی کو گرفتار کرے‘ اس کی ہمت کیسے ہوئی؟ اسے کھڈے لائن لگانے سے پہلے ڈانٹا گیا پھر اس کی بے عزتی کرتے ہوئے‘ دور دراز جگہ پر تبادلہ کرنے کا خوف دلاتے ہوئے اسے کہا گیا کہ اس زمیندار سے معافی مانگتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ فوری طور پر ختم کر دو لیکن ڈاکٹر رضوان قانون کی عظمت کیلئے ڈٹ گئے اور پھر انہیں نہ صرف کھڈے لائن لگا دیا گیا بلکہ نوکری سے برطرف کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن وہ اپنے پورے قدموں سے ظالموں کے ظلم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے۔
جیسے ہی ان کے تبادلے کی خبر عام ہوئی تو نجانے کہاں سے سرگودھا کی عوام کو حوصلہ ہوا‘ نجانے کہاں سے انہیں جرأت ملی کہ ہر فرد‘ ہر گھرانہ اس تبادلے پر آگ بگولہ ہو گیا۔ ہر ماں تڑپ اٹھی۔ سکولوں اور کالجوں کے بچے بچیاں سراپا احتجاج بن گئے اور حالات اس قدر بگڑ گئے کہ حکومت گھبرا گئی۔ اسے توقع ہی نہ تھی کہ سرگودھا کے اس علاقے کے مکین‘ جو کل تک جاگیردارو ں اور زمینداروں کی جنبشِ ابرو کے محتاج تھے‘ ایک پولیس افسر کے تبادلے پر اپنے سروں پر کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوں گے۔ بالآخر عوام اور میڈیا کی طاقت کے آگے ان عناصر کو ڈھیر ہونا پڑا اور ڈاکٹر رضوان کو دوبارہ سرگودھا میں تعینات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
9 مئی 2022ء کو ملک بھر کے عوام کے کانوں تک پہنچنے والی اس خبر نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا کہ ڈاکٹر رضوان کی شکل میں ایک دبنگ افسر‘ پاکستان کا ایک روشن ستارہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے چند ہی لمحوں میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ دس برس قبل سرگودھا میں تعینات ایک مظلوم استاد کو انصاف دلانے والا‘ ایف آئی اے میں تعینات فرض شناس پولیس افسر‘ ملکی دولت لوٹنے والوں کو اس زمیندار کی طرح قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے جدو جہد کرنے والا ڈاکٹر رضوان ہم سب سے انصاف مانگتا ہوا ہمارے ضمیر اور انصاف کے ترازو کی تلاش میں قبر میں اتر گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved