آج کل سابق وفاقی سیکرٹری اور ادیب طارق محمود کی حال ہی میں چھپنے والی خودنوشت ''دامِ خیال‘‘پڑھ رہا ہوں۔ طارق محمود ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے ہمارے سرائیکی علاقوں بہاولپور‘ ملتان اور جھنگ میں بڑا عرصہ اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے طور پر کام کیا۔ مشرقی پاکستان کے المیے کو بڑے قریب سے دیکھا۔ بڑے عرصے بعد ایک شاندار خودنوشت پڑھنے کو ملی ہے کہ لگتا ہے پچھلے پچاس سال کی تاریخ آپ کی آنکھوں کے سامنے لکھی جارہی ہے۔ انہوں نے ''اللہ میگھ دے‘‘ جیسا ناول لکھ کر شہرت سمیٹی تھی۔ خیر کتاب پر مکمل تبصرہ تو اسے پورا پڑھ کر ہی کروں گا کیونکہ ''دامِ خیال‘‘بہت اہم کتاب ہے اور یہ توجہ مانگتی ہے۔
ملتان میں عمران خان نے اپنی تقریر میں مریم نواز کے بارے جو الفاظ کہے اس پر انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ ان کی تحریر سے لگتا ہے کہ انہیں توقع نہ تھی کہ عمران خان جو آکسفورڈ سے پڑھے ہیں وہ اس طرح کی زبان کسی خاتون بارے استعمال کرسکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ 80ء کی دہائی میں وہ ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے دو جلسے وہاں قریب سے دیکھے۔ایک اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کا تھا اور دوسرا بینظیر بھٹو کا۔ بینظیر بھٹو کا جلسہ بڑا امتحان تھا کہ ان کیلئے سکیورٹی تھریٹ جاری کیا گیا تھا۔ اُس وقت ایس ایس پی ملتان رانا مقبول تھے جو اب سینیٹر ہیں۔ طارق محمود اور رانا مقبول کولاہور بلا لیا گیا اور دونوں افسران کو سخت لفظوں میں خبردار کیا گیا کہ اگر وہاں پر سکیورٹی کا کوئی مسئلہ ہوا تو ان دونوں کی خیر نہیں۔ وہ واپس ملتان لوٹے اور خود جلسے کے اندر موجود رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس جلسے سے بینظیر بھٹو‘ ملک قاسم‘ معراج محمد خان اور نوابزادہ نصراللہ خان نے شاندار تقریریں کیں۔
لیکن اب برسوں بعد جب وہ عمران خان کی تقریر سن رہے تھے تو انہیں مریم نواز کے بارے کمنٹس پر جھٹکا لگا۔ وہ اس پر افسردہ ہیں کہ قومی لیول کے سیاستدان کس طرح کی گفتگو کررہے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب جلسہ گاہ میں خواتین اور لڑکیاں موجود تھیں اور کچھ اپنے گھروں میں ٹی وی پر سن رہی تھیں۔ طارق محمود کا کہنا تھا کہ انہیں لگا کہ آکسفورڈ کیمبرج چھوڑیں کیا ہمارے یہ لیڈرز میونسپل کمیٹی کے سکول بھی نہیں پڑھے جہاں دیواروں پراخلاقیات سکھانے کی باتیں تحریر ہوتی تھیں؟ وہ لکھتے ہیں یہ قوم معاشی بدحالی تو برداشت کر لے گی لیکن اخلاقی دیوالیہ پن اسے تباہ کر دے گا۔ یقینا وہ اس پرانی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جو ابھی بھی بچی کھچی روایات پر یقین رکھتی ہے۔ کبھی دور تھا کہ شرفا ایک دوسرے کی بہن بیٹی پر اس طرح تبصرہ نہیں کرتے تھے۔اگرچہ بہت سے لوگوں کے خیال میں سیاست میں عورتوں کے بارے نازیبا گفتگو اور ان کے خلاف پروپیگنڈا نواز شریف نے شروع کیا تھا یا جنرل ایوب خان دور میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایسا کیا گیا۔ نواز شریف نے بینظیر بھٹو کے خلاف جلسوں میں سخت الفاظ استعمال کرنے شروع کیے۔ بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی قابل ِاعتراض تصویریں چھپوائی گئیں اور جہازوںسے پمفلٹ بنا کر گرائی گئیں۔ ہمارے دوست انجم کاظمی کا کہنا ہے کہ جو کچھ عمران خان نے کہا ہے وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے لیکن شاید یہ مکافاتِ عمل ہے۔
جو کچھ ملتان میں کہا گیا اس پر افسوس تو ہوسکتا ہے‘ حیرانی نہیں۔ اب یہ پاکستان میں نارمل ہے‘ جو مریم نواز بارے کہا گیا یا نواز شریف کی پارٹی کے لوگ بشریٰ بیگم اور جمائما خان بارے کہتے رہے ہیں۔ بلکہ مریم نواز تو خود بشریٰ بیگم پر ایسے ذاتی حملے کرتی رہی ہیں جو نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ عمران خان کو پرانا دکھ ہے ان کی سابقہ بیوی کے خلاف مہم شروع کرائی گئی اور اب بشریٰ بیگم کے خلاف جاری ہے۔ اگرچہ کسر تحریک انصاف کے لیڈروں نے بھی نہیں چھوڑی۔ اب تو خود عمران خان میدان میں اُتر آئے ہیں۔ اب مخالف خواتین بارے ہر طرح کی گفتگو کی جاتی ہے اور عوام چسکے لیتے ہیں۔ مریم نواز اور عمران خان کی بیگم یا بہنوں کے خلاف غلیظ ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں۔ سارا دن یہی کھیل چلتا رہتا ہے۔ ایک دن ٹویٹر پر مریم نواز کی کردار کشی ہوتی ہے تو اگلے دن بشریٰ بیگم کی باری آ جاتی ہے۔ عمران خان اور مریم نواز ٹویٹر پر اپنے اپنے حامیوں کی کارکردگی سے بڑے خوش ہوتے ہیں۔ ہر وقت رائیونڈ اور بنی گالا‘ پاک پتن اور زمان پارک کے مکین برے لفظوں میں زیربحث رہتے ہیں۔ عمران خان اور مریم نواز اپنے حامیوں اور سوشل میڈیا ٹیموں سے خوش اور مطمئن ہیں۔ ویسے ان کا کیا جاتا ہے جو مریم نواز اور عمران خان کے بارے غلیظ ٹرینڈز چلاتے ہیں۔غلیظ ٹرینڈ چلانے والے تو مزے لیتے ہوں گے‘ بلکہ سوشل میڈیا ٹیموں کے ان نوجوانوں کو باقاعدہ تنخواہ بھی ملتی ہے اس کام کی۔ جو یہ ٹرینڈز چلاتے ہیں ان سب کی اپنی مائیں بہنیں عزت سے گھر بیٹھی ہیں لیکن مریم نواز اور بشریٰ بی بی ہر وقت برے لفظوں میں ٹویٹر پر زیر بحث آتی ہیں۔
حیران ہوتا ہوں اقتدار بندے کو کتنا گرا دیتا ہے یا ایکسپوز کردیتا ہے۔ انسانوں پر راج کرنے کی خواہش کہا ں تک لے جاتی ہے۔ جب مریم نواز کے جلسوں میں بشریٰ بی بی کے خلاف بات ہوتی ہے تو نواز لیگ کے حامی خوشی سے جھومتے ہیں جیسے ملتان کے جلسے میں عوام نے عمران خان کے مریم نواز پر کیے گئے ذاتی حملے پر خوشی سے نعرے مارے۔اسی سے اندازہ لگائیں ہمارے عوام کہاں کھڑے ہیں۔ ایک ملک کا سابق وزیراعظم ہے اور دوبارہ وزیراعظم بننے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے جبکہ دوسری خاتون وزیراعظم بننے کی امیدوار ہیں‘ مگر ان دونوں کی تقریریں اس وقت تک مکمل نہیں ہوتیں جب تک خواتین پر رکیک حملے نہ کیے جائیں۔
عوام ہمیشہ سے ایسے ہی رہے ہیں۔ عوام کا اخلاقی لیول اتنا ہی ہوتا ہے۔ یہ لیڈروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں یا معاشرے کی تربیت اپنے اچھے اخلاق سے کریں۔ وہ نسلوں کے رول ماڈل ہوتے ہیں‘ لیکن ان سب نے مل کر معاشرے میں زہر بھر دیا ہے۔ اب آپ کو شاید ہی کوئی نارمل بندہ ملے ورنہ ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر ایسا پاگل پن اور جنون طاری ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ یہ مخلوق سوشل میڈیا کی ایجاد سے پہلے کیسے صبر شکر کر کے گزارہ کرتی ہوگی۔ اب کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ سوشل میڈیا پر ایک ہی فارمولہ چل رہا ہے کہ عزت میری بھی نہیں ہے اور میں رہنے تمہاری بھی نہیں دوں گا۔ جو گالی نہیں دے سکتا اسے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو جتنا بدتمیز اور گلا پھاڑ کر بولنے والا ہے اتنا ہی لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔ اب کردار سے عزت کرانے کا دور گیا۔ اب بدتمیزی کا عروج ہے۔ وہ تصور نہ عوام میں ہے نہ ان کے سیاسی حکمرانوں میں کہ کچھ ہائی مورال گراؤنڈز بھی ہوتی ہیں۔ کتنی دفعہ ہم نے پڑھا ہے کہ رسول پاکﷺ پر ایک بڑھیا روز کوڑا پھینکتی تھی۔ دو دن نظر نہ آئی تو آپﷺ اُس کی خیریت پوچھنے تشریف لے گئے۔ اسی اعلیٰ اخلاق سے وہ مسلمان ہوگئی۔ طائف میںآپﷺ کو پتھر مارے گئے۔ زخمی ہوئے لیکن پھر بھی بددعا نہ دی۔ اسلام اور حضور پاکﷺ کی سیرت سے مثالیں دینا بڑا آسان ہے لیکن جب امتحان سر پر پڑے تو ان پہ پورا اترنا مشکل ہے۔
ایک دوست سے کہا تھا کہ یار! ان گندے ٹرینڈز پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ وہ بولا: کیوں؟ آدھے عوام عمران خان کی بیگم کے خلاف کمنٹس اور ٹرینڈز پر خوش ہوتے ہیں تو آدھے مریم نواز کے خلاف ٹرینڈز پر۔ تم اس تماشے اور گالی گلوچ کے شوقین لوگوں کو کیوں چھیڑناچاہتے ہو؟ اگر مریم نواز اور عمران خان کو اس سے مسئلہ نہیںتو تم کیوں بیگانی شادی میں دیوانے کی طرح ناچنا چاہتے ہو؟ لگے رہنے دو اس قوم اور ان کے لیڈروں کو۔ تم چپ رہو۔سو‘ میں اب چپ ہوں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved