وفاقی حکومت میں شامل اتحادی پارٹیوں کے ایک حالیہ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قائم ہونے والی وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت اپنی آئینی اور قانونی مدت پوری کرے گی اور آئندہ انتخابات اپنے وقت پر یعنی آئندہ سال اگست میں ہوں گے۔ اس پر سابق وزیر اعظم عمران خان کا کیا ر د عمل ہو گا؟ وہ سب پر عیاں ہے۔ موصوف 'فوری الیکشن‘ کے یک نکاتی ایجنڈے کو لے کر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں‘ جن میں وہ حاضرین کو اپنی کال پر اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ مارچ کے شرکا کا پہلے انہوں نے 20 لاکھ کا تخمینہ لگایا تھا لیکن جلسوں کی رونق دیکھ کر انہوں نے 20 لاکھ کے بجائے 30 لاکھ افراد کو اسلام آباد کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ وہ عمران خان کے جلسوں کی پروا کیے بغیر اپنی آئینی مدت پوری کرے گی‘ ممکن ہے عمران خان 40 لاکھ یا 50 لاکھ سپورٹرز کو اسلام آباد پہنچنے کا کہیں؛ تاہم حکومت میں شامل اتحادی پارٹیوں کے سربراہوں نے وہی فیصلہ کیا ہے‘ جو ایک جائز ‘ آئینی اور قانونی حکومت کو کرنا چاہیے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے کچھ دوست اسے شریفوں‘ زرداریوں اور مولانا حضرات کی ہوسِ اقتدار‘ کرسی سے چمٹے رہنے کی خواہش اور ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے کے مزے لینے سے تعبیر کریں گے‘ لیکن عوامی نمائندوں پر مشتمل ایک ایسی حکومت جسے آئین کے تحت عوام کی فلاح و بہبو د کیلئے ریاست کے تمام اختیارات استعمال کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے‘ اپنے فرائض سے کیوں پہلو تہی کرے؟ اور اقتدار سے محض اس لیے کیوں الگ ہو جائے کہ مخالف جذباتی نعروں کے ساتھ ہجوم کو اکٹھا کرکے دھمکیاں دے رہے ہیں؟
سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی‘ دونوں حکومتیں مستعفی ہو جائیں ‘ کیونکہ وہ اپنے اپنے ایوان میں اکثریت کھو چکی ہیں۔ کیا سابق وفاقی وزیر یہ بتا سکتے ہیں کہ انہیں یہ اس وقت کیوں یاد نہیں آیا‘ جب ان کی اپنی حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکی تھی‘ جب ان کی اپنی پارٹی کے دو درجن اراکین نے مرکزی قیادت کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور ان کے اتحادی‘ جن کی حمایت سے ان کی حکومت قائم تھی‘ پی ٹی آئی سے الگ ہو چکے تھے۔
اتحادی پارٹیوں کا یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے‘ جب ہر طرف سے ایک ہی آواز آ رہی تھی کہ موجودہ بحران‘ جو دراصل عمران خان کے بڑے بڑے جلسوں کا پیدا کردہ ہے‘ سے نکلنے کا واحد راستہ فوری انتخابات ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت میں شامل سب سے بڑی پارٹی یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن)کا بھی شروع سے یہی موقف تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اسمبلیاں تحلیل کرکے فوری انتخابات کروائے جائیں گے‘ بشرطیکہ ان کی شفافیت اور غیر جانبداری کی ضمانت دی جائے۔ پیپلز پارٹی کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیجنے کو تیار تھی مگر اسمبلیاں تحلیل کرنے اور وقت سے پہلے انتخابات کے حق میں نہیں تھی۔ اس کا اب بھی موقف یہی ہے‘ یعنی پی پی پی‘ پی ٹی آئی کی حکومت کی چھٹی کروانے کے بعد اسمبلیوں کی باقی ماندہ مدت پوری کرنے پر اصرار کرتی رہی ہے۔
دو سال قبل اسمبلیوں سے استعفے دینے کے مسئلے پر پی پی پی کی پی ڈیم ایم سے علیحدگی کے پس پردہ یہی محرک کار فرما تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جمعرات کو شہباز شریف حکومت کی جانب سے فوری انتخابات کی طرف جانے کے بجائے اسمبلیوں کی باقی ماندہ مدت پوری کرنے کے فیصلے کو (ن) لیگ کے مقابلے میں پی پی پی کے موقف کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بدگمانی اور اختلافات کو فروغ دینے کیلئے اس تاثر کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے جمعرات کو گوجرانوالہ میں جلسہ سے خطاب میں ''زرداری (ن ) لیگ پہ بھاری‘‘ کہہ کر اسی تاثر کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن اس سے قطع نظر کہ انتخابات کے بجائے اسمبلیوں کی باقی ماندہ مدت پورے کرنے کا فیصلہ پی پی پی کی فتح ہے یا (ن) لیگ کی شکست‘ فوری انتخابات پر عمران خان کے پریشر کو مسترد کرکے شہباز شریف کی حکومت نے خوب سوچ سمجھ کر اور دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے سے اس نے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو ٹوٹنے سے بچا لیا ہے۔ دوسرے اس موقع پر انتخابات کی تاریخ نہ دے کر شہباز حکومت نے عمران خان کو یہ کہنے کے موقع سے محروم کر دیا ہے کہ ملک کی گیارہ سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد‘ اس اکیلے کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
اپوزیشن اتحاد کو یہ بھی معلوم ہے کہ ایک ایسے موقع پر‘ جب ملک کی معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے اور عمران خان اس کا پورا فائدہ اٹھا کر شہباز حکومت کے خلاف عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتے نظر آ رہے ہیں‘ انتخابات کا انعقاد اس کے حق میں نہیں ہے‘ اور سب سے اہم یہ کہ اگر عمران خان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے‘ فوری انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر بھی دیا جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عمران خان اس کے نتائج تسلیم کریں گے۔ اب تک ان کا جو سیاسی رویہ سامنے آیا ہے اس سے تقریباً تمام با اثر حلقے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح خان صاحب اقتدار کے بغیر چین سے نہیں رہ سکتے۔ اب تک پی ٹی آئی نے سیاسی جلسوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بیانیہ پیش کیا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ اقتدار پر صرف اور صرف عمران خان کا حق ہے اور اپوزیشن میں سے کوئی پارٹی بھی اپنے طور پر اس کی حق دار نہیں۔
2014ء سے عمران خان کی سیاسی سوچ کا محور یہی ایک نکتہ رہا ہے‘ حالانکہ ملکی اور غیر ملکی مبصرین کی نظر میں 2013ء کے انتخابات 1988ء میں بحالی جمہوریت کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں سب سے زیادہ صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے۔ اس لیے میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت ہر لحاظ سے جائز‘ نمائندہ اور آئینی حکومت تھی‘ لیکن عمران خان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور الزام لگایا کہ 2013ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کرکے ان کے منڈیٹ کو چرایا گیا۔ انتخابات کے صرف ایک سال بعد یعنی 2014ء میں عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد ''آزادی مارچ‘‘ کے نام سے نواز شریف حکومت کے خلاف ریلی نکالی اور وفاقی دارالحکومت میں 126 دن کا دھرنا دیا۔ اس کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے نکالنے اور تاحیات نا اہل کرنے تک کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے‘ ان سے عام و خاص سب واقف ہیں۔ وہی داستان پھر سے دہرائی جانے جا رہی ہے اور مختلف تناظر میں‘ لیکن کچھ نئے اندرونی اور بیرونی عوامل کی موجودگی میں۔ ایک بات یقینی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے فوری انتخابات سے انکار کے جواب میں عمران خان کا سخت رد عمل آرہا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم کو سیاستدانوں کے دو دھڑوں‘ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک بڑے تصادم کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved