تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-05-2022

سیلف ایمپلائمنٹ کا گورکھ دھندا

ایک زمانہ تھا کہ لوگ پکی نوکری ڈھونڈا کرتے تھے۔ پکی نوکری دل کو سکون عطا کرتی تھی۔ ذہن مطمئن رہتا تھا کہ کام تلاش نہیں کرنا پڑے گا اور لگی بندھی تنخواہ تو ملتی رہے گی۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب سرکاری نوکری کو پکی نوکری کا بہترین ذریعہ تصور کیا جاتا تھا اور لوگ سرکاری نوکری کے لیے خطیر رقوم بطور رشوت دینے کے لیے بھی تیار رہا کرتے تھے۔ یہ کیفیت تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اب بھی پائی جاتی ہے مگر اب کرنے کو اِتنا کچھ ہے کہ لوگ نوکری کی ذہنیت ترک کرتے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہو رہا ہے۔ نوکری‘ بالخصوص پکی نوکری کے زمانے گزر گئے۔ آجر بھی سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی کو بھی طویل مدت تک لازمی طور پر اپنے پاس نہ رکھا جائے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ اب کسی بھی شعبے میں مجموعی کیفیت بہت تیزی سے بدل جاتی ہے۔ بہت کچھ راتوں رات اس طور بدل جاتا ہے کہ کسی بھی آجر کے لیے اُس سے لاتعلق یا بے نیاز رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے میں وہ اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ مستقل ملازمین کم سے کم رکھیں اور کام اس طور لیں کہ اخراجات کا گراف نیچے لانا ممکن ہو۔
اخراجات کم کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ بہت سے آجر غیر ضروری یا کم اہم اخراجات سے گلو خلاصی پر توجہ دے کر اپنے اداروں کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ افرادی قوت معقولیت کے دائرے میں ہو تو ادارے کو منافع بخش بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بڑے ادارے انسانی وسائل کا شعبہ (ایچ آر ڈیپارٹمنٹ) رکھتے ہیں۔ اس شعبے کا بنیادی کام ادارے کے لیے معیاری افرادی قوت کا اہتمام کرنا ہے۔ بڑے اداروں کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹس غیر معمولی صلاحیت اور مہارت کے حامل افراد کے کوائف تیار رکھتے ہیں تاکہ ضرورت پڑتے ہی اُنہیں بلاکر کام پر لگایا جاسکے۔ ایچ آر کا شعبہ اچھی طرح چلانے والے افراد ادارے کے لیے غیر معمولی اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ معیاری افرادی قوت کے ذریعے ادارے کی کارکردگی بھی بہتر بناتے ہیں اور اخراجات کا گراف نیچے لانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ زمانہ اِتنی تیزی سے بدلا ہے کہ بہت سے بڑے اداروں نے اب مستقل ملازمت دینا ترک کردیا ہے۔ تیزی سے بدلتے یا بگڑتے ہوئے معاشی حالات بھی اداروں کو ایسی سوچ اپنانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صرف ضرورت کے مطابق ملازمین رکھے جائیں اور معاملات بگڑتے ہی چھانٹی سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
ایک طرف پکی نوکری کا حصول دشوار ہے اور دوسری طرف کچی ملازمت کے بھی ہاتھ سے جاتے رہنے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ ملک بھر میں آجروں کی سوچ اب یہی ہے کہ ضرورت کے مطابق اور ضرورت کے وقت ہی ملازمین رکھے جائیں۔ بیشتر کاروباری ادارے کسی بھی وقت چھانٹی کا مرحلہ شروع کردیتے ہیں۔ پھر چھانٹی کے دوران یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ کسے رکھنا ہے اور کسے چلتا کرنا ہے۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پِس جاتا ہے۔ بسا اوقات طویلے کی بلا بندر کے سر آجاتی ہے یعنی کیا دھرا کسی اور کا ہوتا ہے اور بجلی کسی اور پر گرادی جاتی ہے۔ اداروں میں کام پر رکھنے اور فارغ کرنے کا معاملہ اب اِتنا پیچیدہ ہوچکا ہے کہ لوگ سیلف ایمپلائمنٹ کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ سیلف ایمپلائمنٹ یعنی کسی کی ملازمت کیے بغیر اپنا کام کرنا۔ ہمارے معاشرے میں سیلف ایمپلائمنٹ کی مثالیں بہت پہلے سے موجود ہیں۔ ٹھیلے والے اس چلن کا معروف ترین نمونہ ہیں۔ سیلف ایمپلائمنٹ کا کلچر پروان چڑھانے میں آجروں کی سوچ میں پیدا ہونے والی تبدیلی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اب لوگ اپنا چھوٹا موٹا کام کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کراچی کی وسعت کے حوالے سے بات کیجیے تو اب نوکری کچھ زیادہ فائدہ مند چیز نہیں رہی کیونکہ لوگوں کو روزانہ طویل فاصلے طے کرکے کام پر جانا پڑا ہے۔ ایک طرف تو آنے جانے کا خرچہ اور دوسری طرف تھکن‘ پھر وقت کا بھی ضیاع۔ اتنے جھنجھٹ سے نمٹنے کے بعد کام بھی تو کرنا ہوتا ہے، نتائج دینا پڑتے ہیں۔ بعض شعبوں میں دن بھر اِدھر سے اُدھر بھٹکنا پڑتا ہے اور یافت کچھ خاص نہیں ہوتی۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ روزانہ پندرہ بیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کام پر جانے، زبردستی کی تھکن اور سفر کا خرچہ جھیلنے اور آجر کی جھڑکیاں سُننے سے کہیں اچھا ہے کہ اپنا کوئی کام کرلیا جائے۔ جو ہنر مند ہیں وہ ہنر کے ذریعے کمارہے ہیں اور جنہیں کوئی باضابطہ ہنر نہیں آتا وہ کیبن وغیرہ کھول کر یا پھر ٹھیہ لگاکر دیہاڑی بنالیتے ہیں۔ سودا بُرا نہیں۔ گھر کے نزدیک ہی کوئی کیبن لگاکر یومیہ بارہ پندرہ سو روپے کمانے میں دانش مندی ہے۔ سفر کا خرچ بھی بچتا ہے، تھکن بھی سوار نہیں ہوتی اور وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔
سیلف ایمپلائمنٹ کا طریقہ اچھا تو ہے مگر اِسے بھی لوگوں نے خراب کر ڈالا ہے۔ معاشرے میں فکر و نظر کے حوالے سے جو کجی پائی جاتی ہے وہ ہر شعبے میں در آئی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی شعبے میں کام کرنے والے بھی اِسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا معاشرہ ہے‘ ویسے وہ ہیں۔ ملک بھر میں سیلف ایمپلائمنٹ کی ڈگر پر چلنے والوں نے اپنے کرم فرماؤں کو لُوٹنا شروع کردیا ہے۔ کسی کی نوکری کرتے وقت جتنی مجبوری ہوا کرتی تھی اب اُس کے برعکس اُتنی آزادی اور سرکشی ہے۔ مختلف شعبوں کے ہنر مند افراد نے اپنے چارجز بڑھا دیے ہیں۔ رکشہ ٹیکسی چلانے والوں کی ذہنیت ہر دھندے میں در آئی ہے۔ بعض علاقوں میں الیکٹریشن، پلمبر، مستری، رنگ ساز، وال پیپرز لگانے والے، ریفریجریٹر، جنریٹر، موٹر سائیکل اور ایئر کنڈیشنر کے مکینک حضرات مل کر طے کرلیتے ہیں کہ اس حد سے کم اجرت لینی ہی نہیں۔ اگر دن بھر مرضی کا کام نہ مل پارہا ہو تو یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں مگر اجرت گھٹانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ جو لوگ کسی کی نوکری نہیں کرتے وہ یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ اللہ انہیں رزق گھر تک پہنچاتا ہے یعنی لوگ اُن سے کام کے سلسلے میں رابطہ کرتے ہیں۔ کہیں کام پر جانا پڑتا ہے نہ یومیہ بنیاد پر تھکن ہی سوار ہوتی ہے اور اچھا خاصا وقت بھی بچ رہتا ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے تھوڑی سی کم اجرت بھی قبول کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ تھوڑا بہت کام صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے تھوڑے کم پیسوں میں بھی کردینا چاہیے۔ اگر کوئی شخص مطلوب اجرت دینے کی سکت نہ رکھتا ہو تو اُس سے رعایت برتنا چاہیے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدۂ رزق پر اعتبار کی علامت ہے۔
بڑے شہروں میں حال یہ ہے کہ جو لوگ کسی کا کام کرنے گھر تک آتے ہیں‘ وہ گھر پر آنے کے چارجز کے نام پر متعلقہ فرد کی جیب خالی کرنے کی ذہنیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ ریفریجریٹر، جنریٹر، ایئر کنڈیشنرز، ٹی وی سیٹ اور دوسری بہت سی اشیا کی مرمت کرنے والوں کو گھر آنا پڑتا ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ اگر کسی کو ریفریجریٹر کی مرمت کے لیے بلوائیے تو جواب ملتا ہے کہ مرمت کروائیے یا نہ کروائیے، گھر آکر صرف چیک کرنے 500 روپے ہوں گے! مکینک محض پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر بھی دکان کھولے بیٹھا ہو تو گھر پر چیکنگ کے چارجز میں ایک پیسہ کم نہیں کرتا۔ الیکٹریشینز نے طے کرلیا ہے کہ ایک سوئچ لگانے کے کچھ خاص پیسے لینے ہیں۔ اب اگر آپ دس سوئچز یا دس پوائنٹس کا کام بھی کروائیں تو بھی کوئی رعایت نہیں ملتی۔ یہی حال پلمبرز کا ہے۔ سڑک پر آپ رنگ کرنے والوں کو کلر شیٹس اور برش وغیرہ کے ساتھ بیٹھا ہوا پائیں گے۔ یہ دن بھر گاہک تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں شاید یہ بات آئے کہ اِنہیں کام نہیں ملتا۔ جی نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔ کام تو ملتا ہے مگر یہ کرتے نہیں۔ یہ دن بھر میں کوئی ایک ''بڑا، تگڑا مرغا‘‘ ذبح کرنے پر یقین رکھتے ہیں! رزق کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سب کی خالق ہے اس لیے سب کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ ہمارے لیے اچھی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار ہوکر اُس سے رزق پائیں اور پھر شکر گزار بھی رہیں۔ ہم اِتنا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہم پر مہربان بھی رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved