کہنا تو یہ چاہئے کہ جہاز‘ جس پر ہم ملک کے طول و عرض کے سب شہری سوار ہیں‘ کالے سمندر کی بے رحم موجوں کی زد میں ہے اور اس کے سوار موج میلے کر رہے ہیں۔ انہیں کیا فکر کہ سب کچھ ان کا ہے‘ جو چاہیں کریں‘ جو من میں آئے کہہ دیں اور ان کی سیاست بازی میں ہم سب ڈوبتے ہیں تو انہیں کیا۔ ان کے پاس حفاظتی کشتیاں ہروقت تیار ہیں‘ ملاح ان کے ایک اشارے کے منتظر۔ خطرات بڑھے تو ان کے آقا انہیں نکال کر محفوظ ٹھکانوں میں بٹھا دیں گے۔ قزاقوں والی بات کرنے کی ہمیں جرأت نہیںاور نہ ہی ہماری طبیعت کا ایسا کوئی میلان ہے۔ یہ ہم نے اپنے سب سیاسی رہنمائوں پہ چھوڑ رکھا ہے۔ جس طرح دل کرے‘ ایک دوسرے کو پسندیدہ نام دیں‘ دشنام طرازی کریں‘ الزام دھریں اور دنگا فساد کرتے رہیں۔ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے‘ اور جو ہم کانوں سے سن رہے ہیں‘ اسے بحران‘ المیہ‘ بدقسمتی کہنا کمزوراور فرسودہ سی بات لگتی ہے۔ شاید میں غلط سوچ رہا ہوں اور وقت مجھے ایسا ثابت ہی کر دے‘ ہم ایسی کالی آندھی کے درمیان میں ہیں کہ ہر طرف ریت اور مٹی اڑ رہی ہو اور ہمیں کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ ہمارے آبائی علاقوں میں ایسی آندھیاں اس موسم میں معمول ہیں‘ مگر وہ آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں‘ کچھ دیر ہم پناہ لیتے ہیں اور موسم صاف اور خوش گوار ہو جاتا ہے‘ اور کبھی کبھار ہمارے ویرانے موسمی اور بے موسمی بارش سے کھل بھی اٹھتے ہیں‘ مگر یہ جو آندھی گزشتہ تریسٹھ سالوں سے ہمارے سیاسی آسمان پر چھائی‘ کوڑا کرکٹ‘ کنکریاں اور پتھر برسا رہی ہے‘ ہماری کئی نسلیں اس سے برباد ہو چکی ہیں۔ کچھ وقفے آتے ہیں‘ ایسے ہی کہ جنگ کے دوران کوئی سیزفائر ہو جائے‘ ہمیں موقع مل جائے کہ کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لیں‘ اور پھر وہی صورتحال۔ اب تو کئی عشروں سے مسلسل ہم آندھیوں‘ طوفانوں‘ جنگوں اور ہر نوع کے سیاسی اور غیرسیاسی جنگجوئوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔
اب کوئی ایسا نہیں رہاجو امن کا سفید جھنڈا تھام کر جنگ بندی کرائے‘ مستقل امن بحال کرائے اور پھر کوئی ایسا پہنچا ہوا بابا جو آسمان کی طرف دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ہم آندھیوں اور طوفانوں کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ کبھی جو تھے‘ وہ تھک ہار کر زمین کے نیچے چلے گئے کہ وہاں وہ آسودہ رہیں گے۔ ہم سب دیگرشہری بے بس ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بلکہ بدمست حکمران طبقات نے زر و دولت کی ایسی زرہ بکتریں پہن رکھی ہیں اور ان کے رہائشی قلعے اتنے مضبوط اور بلندوبالا ہیں کہ آندھیاں ان پر اثر نہیں کرتیں۔ معلوم ایسے ہی ہوتا ہے کہ ان کے آسمان بھی ہمارے آسمانوں سے یکسر مختلف ہیں۔ ان کی دنیائیں بھی ہمارے اجڑے دیاروں سے علیحدہ ہیں اور موسم بھی ان کی مرضی کے تابع ہیں‘ چاہیں تو گرم رکھیں‘یا باہر تمازت ہو تو ٹھنڈا۔ ہمارے حکمران پروازیں کرتے کرتے اتنی بلندیوں پر چلے گئے ہیں کہ آپ انہیں آسمانی کہیں تو شاید بے جا نہ ہو گا۔ اب زمین اور ہم جیسی زمینی مخلوق سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا اور ایسی باتیں ہم خاک نشینوں کو کیسے سمجھ آئیںگی۔ عمران خان صاحب نے محترمہ مریم نواز کے بارے میں بھرے جلسے میں‘ لائیو نشری ذرائع پر قابض ساری قوم کے سامنے کیا کہہ دیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انہیں اپنے بارے میں بہت خوش فہمیاں ہیں‘ جو کسی زمانے میں‘ عمر کے کسی حصے میں‘ ہم جیسے کمزور لوگوں کو مغلوب رکھتی ہیں‘ مگر بے احتیاطی‘ غرور اور ذاتی مخاصمت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں‘ اور دوبارہ اس منصب کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس عہدے کا ہی خیال رکھ لیا ہوتا۔ اگر غلطی ہو جائے‘ زبان پھسل جائے یا جذبات کی رو میں کوئی بہہ جائے تو معافی مانگ لینے سے بوجھ ہلکا بلکہ بعض صورتوں میں اتر جاتا ہے۔ ہمارے یا کسی اور کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ اور ہماری جائز اور ناجائز تنقید بھی‘ جو ہم کرتے رہتے ہیں‘ اپنی جگہ‘ مگر اس نوع کی ہرزہ سرائی کہیں یا ''بد زبانی‘‘، پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ بہت مایوسی ہوئی‘ بلکہ اعتباراور اعتماد کی کچھ تہیں اپنی جگہ سے سرک گئی ہیں۔
جونہی یہ چلتی آندھی طوفانی صورت اختیارکرتی ہے‘ ہم جنگلوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ سب کچھ شہر میں چھوڑکر‘ کچھ سانس تازہ کرنے نکل پڑتے ہیں۔ مگر جہاں بھی جائیں اس سے پناہ کی کوئی صورت نہیں نکل پاتی۔ پرسوں اچانک خبر آئی کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو ان کے گھر کے باہر سے لاہور کی ''اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے گرفتار کر لیا ہے‘ اور زدوکوب بھی کیا ہے۔ دل ہی بیٹھ گیا‘ اور مزید محترمہ مریم نواز صاحبہ کا یہ بیان پڑھ کر کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری جائز اور قانونی اقدام تھا کہ کوئی قانون کی گرفت سے بالا نہیں ہو سکتا۔ سب قانون کے سامنے برابر ہیں۔ انتقام نہیں لینا چاہتے‘ مگر قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہئے‘ اور اس کی عمل داری قائم ہونی چاہئے۔ ہم دیکھتے آئے ہیں کہ آندھیوں میں اندھیر نگریاں ہی قائم ہوتی ہیں۔ جب طاقت میں ہوں تو سیاسی مخالفین کو اکھاڑیں پچھاڑیں اور قانون کی باتیں کریں اور جب آپ پر سنگین الزامات ہوں‘ مقدمات چل رہے ہوںتو قانون اور عدالتوں کے خلاف انتقام اور جانب داری کے الزام لگائیںاور احتساب سے بچنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کریں کہ جس کے بارے میں پڑھ کر دنیا‘ ہماری بات چھوڑیں‘ کہتی ہے کہ سب کچھ یہاں ناکام ہو چکا ہے۔ اگر کامیاب ہیں اور سرخرو بھی‘ تو وہ جنہوں نے اپنے ہاتھ غریبوں کے خون پسینے کی کمائی سے رنگے ہوئے ہیں۔ آپ کو بھی معلوم ہو گا‘ یہ کون سی باری ہے۔ چوتھی غالباً اوراس دفعہ تو باریاں لینے والے سابق سب اکٹھے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد اس تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کو ''کرپشن‘‘ کا پچاس سال پُرانا کوئی حوالہ کہیں سے ملا ہے‘ جب ڈاکٹر مزاری کسی سکول یا کالج میں طالبہ تھیں۔ اس کا تعلق زرعی اصلاحات اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے ہے۔ شور اتنا اٹھا کہ فوراً رہائی کا حکم جاری ہوا۔ اپنی کابینہ کے اراکین اور اتحادیوں کے خلاف آپ کی گزشتہ باریوں کے دوران بنائے ہوئے مقدمات سب کے سامنے ہیں۔ قانون کی طاقت کے لوہے کو چوہے کھا گئے ہیں بلکہ کھا کر ہضم بھی کر چکے ہیں۔
قومی جہاز آئین اور قانون کی بالا دستی کے ایندھن سے رواں دواں رہتے ہیں اور کوئی طوفان‘ سونامی اور بحری مدوجزر ان کی رفتار کو کم نہیں کر سکتا۔ جب حکمران طبقات طاقتور اور بالا دست ہو جائیں اور قانون ان کی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھل جائیں‘ نوکر شاہی غیر جانبداری کے بجائے تابعداری اور غلامی کی زنجیریں پہن لے کہ دوسروں کو کہنی مار کر آگے نکلنے کا راستہ بنانا ہے اور عدل و انصاف کو کمزور کر دیا جائے تو سیاست باز جہاز کا رخ اپنی منزلوں کی طرف سے موڑ ک اسے طوفانوں کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ اپنی تاریخ پر طائرانہ سی نظر دوڑا لیں‘ بات سمجھ میں آ جائے گی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کیسے کیسے مہرباں آتے رہے ‘ اپنی اور اپنی آنے والی اولادوں کی تقدیریں بدلتے رہے مگر وہ سب کچھ ہمارے ذرائع‘ ہماری دولت اور ہماری قسمتوں کو برباد کرکے کیا۔ ہم تو اس قابل بھی نہیں ہو سکے کہ اپنے ہاتھ کے لکھے کو تبدیل کر سکیں۔ اگرکر سکتے ہوتے تو یہ ''مخلص‘‘ ''مہربان‘‘ اور قوم کے ''خدمت گار‘‘ آندھیاں اور طوفان پیدا کرکے ہمیں اور ملک کو یرغمال نہ رکھتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر کرسٹینا لیمب نے ہمارے بارے میں لکھا تھا کہ ''اللہ کے انتظار میں ہیں‘‘۔ پوری کتاب ہے۔ کئی مبصرین نے اس میں فوج اور امریکہ کا اضافہ بھی کر دیا ہے۔ شاید یہ ہمارے طوفان میں گھرے جہاز کو کنارے لگا سکتے ہیں‘ ہم نے کچھ نہیں کرنا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved