بحث یہ تھی کہ اس برس یوم آزادی کی خوشیاں منانے کے لئے ہمارے پاس کیا ہے؟ مختلف لوگ طرح طرح کے دلائل دے رہے تھے۔ ان دلائل کی روشنی میں ‘جس شعبے ‘ ادارے اور معاشرے کے حصے پر نگاہ جاتی ہے‘ سوائے زوال‘ بحران اور خرابی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ لیکن میرا خیال یہ تھا کہ مایوسی کے سارے اجزا اور عوامل‘ حکمران طبقوں کے مسائل ہیں۔ یقینا ان کے لئے یوم آزادی میں خوشیاں منانے اور خواب دیکھنے کے لئے کچھ نہیں۔ مایوسی کی یہ کیفیت اور بحران پیدا کرنے والے بھی‘ حکمران طبقے خود ہیں۔ انہوں نے ہی ملکی نظام کو اس طرح چلایا۔ اندھادھند لوٹ مار کی۔ ایک دوسرے کے مفادات پر ہاتھ مارتے ہوئے‘ قومی وسائل کو بے تحاشا ضائع کیا۔ کرپشن کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ جس شاخ پر وہ بیٹھے ہیں‘ خود اسی کی جڑیں بھی کاٹ رہے ہیں۔ جو دولت لوٹی‘ اسے ملکی معیشت سے باہر کر کے‘ دوسرے ملکوں کو منتقل کر دیا۔ یہاں سے لامحدود دولت کمائی مگر اسے یہاں پیداوار بڑھانے کے لئے صرف کرنے سے گریز کیا۔ اس دولت کو برطانیہ‘ امریکہ‘ دوبئی‘ کینیڈا‘ ملائشیا‘ بنگلہ دیش‘ چین‘ غرض دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملکوں کے صنعتی اور کاروباری مراکز میں لگایا اور اب تو سنا ہے کہ بعض عرب کفیلوں کے نام پر بھارت میں بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت کی رگوں میں سے زندگی دوڑانے والے خون کو مسلسل نچوڑا جاتا رہے‘ تو ظاہر ہے اس میں اضمحلال بھی آنا ہوتا ہے اور جانکنی کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران طبقوں کے لئے مایوسی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت نااندیشی‘ کندذہنی‘ دورحاضر کے سیاسی اور معاشی تقاضوں سے لاعلمی اور تیسرے درجے کی ہنرمندی سے‘ پاکستان میں نشوونما کی قوتوں کو نحیف کر کے رکھ دیا۔ اپنے ملک کے عالمی کردارکو ‘ دنیا کی نظروں میں مشکوک بنا دیا۔ اپنی اخلاقی پستی سے قومی وقار کو مجروح کیااور دنیا میں کہیں بھی ’’پاکستانیوں‘‘ کی عزت نہیں رہ گئی۔ جب میں بیرونی دنیا میں پاکستانیوں کی بے عزتی کی بات کرتا ہوں‘ تو یہ نام نہاد پاکستانی‘ ہمارے ’’چوراچکے‘‘ ہوتے ہیں۔ دولت کی اندھی ہوس نے انہیں معمول کے کاروبار اور جرائم میں تمیز کرنے کی اہلیت سے محروم کر دیا ہے۔ یہ برآمدی مال میں ڈرگ بھیجتے ہیں۔ جس مال کا سودا کرتے ہیں‘ اسے بھیجتے وقت معیار گھٹیا کر دیتے ہیں۔ ہر سودے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ ہر لین دین میں فریب کاری کرتے ہیں۔ دولت کمانے کی دوڑ میں بردہ فروشی سے بھی باز نہیں آتے۔ دوسرے ملکوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے نام پر ‘ اپنے ہی ملک کے محنت کشوں اور ہنرمندوں سے دغابازی کرتے ہیں اور ہر فرد سے کم از کم پانچ دس لاکھ روپیہ نفع کماتے ہیں۔ زراندوزی کی ہوس میں وہ بردہ فروش ہی نہیں بلکہ قصائی بھی بن جاتے ہیں۔ بیروزگاروں کی جائیدادیں اور زیور بکوا کر‘ انہیں نوکریاں دلانے کے بہانے پاکستان سے نکالتے ہیں اور پھر کنٹینرز میں بھر کر سمندروں اور صحرائوں میں جا پھینکتے ہیں۔ یہ سارے کے سارے لوگ‘ کسی نہ کسی انداز میں ہمارے حکمران طبقوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کا انجام یقینی طور پر قریب آ رہا ہے۔ ملک میں اداروں‘ کاروباری نظام‘ بیرونی ملکوں سے تجارت اور تعلقات‘ نظم و نسق‘ ہر چیز میں اتنا بگاڑ آ چکا ہے کہ ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں۔ دہشت گرد ان کے بس میں نہیں آ رہے۔ جرائم پیشہ لوگوں نے ان کی گردن پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ دہشت گردوں نے ان کی طاقت کو ناکارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ عوام نے ان کی عزت کرنا چھوڑ دی ہے۔ وہ ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ واقعی ان کے لئے بہت برا وقت ہے۔ یوم آزادی میں ان کے لئے کوئی خوشی نہیں۔ ان کے پاس کمانے کو بہت کچھ ہے۔ بچانے کی طاقت نہیں رہ گئی۔ ان کی دولت نے‘ انہیں بزدل اور خوفزدہ کر دیا ہے۔ لیکن ان کا عوام سے کیا واسطہ؟ جہاں تک عوام کا تعلق ہے‘ ان کے لئے یوم آزادی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ عوام کسی احساس جرم میں مبتلا نہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ لوٹ مار کے کھیل سے وہ ہمیشہ دور رہے یا ان کی خوش قسمتی سے حکمران طبقوں نے انہیں دور رکھا۔ ان کی دنیا محدود کی محدود ہی رہی۔ ان کی خوشیاں بہت چھوٹی ہیں۔ روپے پیسے سے‘ ان کا صرف اتنا ہی واسطہ ہے کہ گھر میں روٹی پک جائے۔ بیماری میں علاج ہوجائے اور بچوں کی تعلیم کا بندوبست ہوتا رہے۔ وہ اپنی اس زندگی کے لئے جانفشانی سے محنت کرتے ہیں۔ کسان گندم اگاتا ہے۔ چاول اگاتا ہے۔ گنا پیدا کرتا ہے۔ سبزیاں اور دالیں پیدا کرتا ہے۔ زمین کے اندر اور اوپر سے جو کچھ وہ حاصل کر سکتا ہے‘ اہل وطن کو پیش کر دیتا ہے۔ مزدور جہاں بھی کام کرتا ہے‘ کچھ نہ کچھ بناتا رہتا ہے۔ ملک کے پیداواری عمل کو جاری رکھتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے دکاندار‘ لوگوں کو ان کے گلی محلوں تک ضروریات زندگی کی اشیا مہیا کرتے ہیں۔ ڈرائیور ٹرانسپورٹ کو متحرک رکھتے ہیں۔ لائن مین اور چھوٹے افسر بجلی کے نظام کو چلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ محنت کش شہروں میں سیوریج سسٹم کو رواں دواں رکھنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ غرض عام زندگی کو رواں دواں رکھنے والے تمام محنت کش اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ میں نے ہر شعبے کا ذکر نہیں کیا۔ چرواہوں کا نام نہیں لیا۔ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو شمار میں نہیں لایا۔ ان گوالوں کا ذکر نہیں کیا‘ جو ہمارے اور بچوں کے لئے دودھ دہی مہیا کرتے ہیں۔ پاکستان محلات اور پرتعیش آبادیوں میں رہنے والے‘ حکومتی اختیارات اور ملکی دولت پر قابض طاقتوروں کا ملک نہیں۔ یہ 18کروڑ عوام کا ملک ہے اور میں نے ملکی معیشت کی رگوں میں ہر لمحے تازہ خون داخل کرنے والے جن محنت کشوں اور عام لوگوں کا ذکر کیا ہے‘ وہ انہی18کروڑ عوام میں سے ہیں‘ جن کے ہاتھ کبھی نہیں رکتے۔ جن کے ذہن ہر وقت اپنے کام کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جو کسی کو دھوکا نہیں دیتے۔ جو کسی کی محنت اور پونجی پر ڈاکا نہیں ڈالتے۔ جو بجلی نہیں چراتے۔ گیس نہیں چراتے۔ ٹیکس نہیں چراتے۔ کیونکہ وہ اپنے سارے ٹیکس روز کے روز ادا کر دیتے ہیں۔ وہ دال خریدتے وقت ‘ اپنا ٹیکس ادا کر دیتے ہیں۔ بجلی کا بل دیتے وقت ‘ ٹیکس چکا دیتے ہیں۔ جوتے‘ کپڑے‘ دوائیں ‘ غرضیکہ زندگی گزارنے کے لئے جس چیز کی بھی انہیں ضرورت ہوتی ہے‘ اسے گھر لے جانے سے پہلے‘ وہ ٹیکس ادا کر دیتے ہیں۔یہ ہے میرے 18کروڑ عوام کا پاکستان۔ ان کے دل صاف ہیں۔ ان کے ضمیر پرکوئی بوجھ نہیں۔ ان کے دل میں کسی کے خلاف نفرت نہیں۔ انہوں نے کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ ملکی خزانے سے کبھی ایک پیسہ نہیں چرایا۔ انہیں اپنے مستقبل پر یقین ہے۔ کیونکہ یہ اپنے محنتی ہاتھوں سے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔ ان کے لئے یوم آزادی حقیقی خوشیوں کا دن ہوتا ہے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ کل 14 اگست کا دن منانے کے لئے‘ عوام دیہات‘ قصبوں اور شہروں میں کیسے جھومتے گاتے اور خوشیاں مناتے گھروں سے باہر نکلے؟ اپنے ملک کا پرچم لہراتے ہوئے‘ قومی ترانے گاتے ہوئے‘ اپنے اپنے انداز میں‘ اپنی اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے۔ پارکوں میں‘ بازاروں میں‘ تفریح گاہوں میں اور کھلے میدانوں میں‘ اپنے بچوں کے ساتھ ناچتے گاتے ہوئے۔ انہیں کسی سے خوف نہیں۔ کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی چیز ہی نہیں‘ جس کے چھن جانے کا خوف انہیں مستقبل سے ڈراتا ہو۔ انہوں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا‘ جس کی وجہ سے یہ اپنے انجام سے خوفزدہ ہوں۔ یہ دلیر‘ نڈر‘ بہادر اور ایماندار پاکستانی ہی ہمارے ملک کی اصل طاقت ہیں۔ اس طاقت کو نہ کبھی کوئی ختم کر سکا ہے اور نہ کر سکے گا۔ یہی عوام ہیں جو تاریخ بناتے ہیں اور انہی کے پاس وہ اعتماد ہے‘ جو تاریخ ساز قوتوں کی اصل طاقت ہوتا ہے۔ پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں۔ بقول جالب ’’خطرہ ہے زرداروں کو‘‘ اور آج کے حالات میں خطرہ ہے خونخواروں کو۔ خطرہ رشوت خوروں کو۔ قومی زر کے چوروں کو۔ان کی قسمت میں ڈرنا لکھا ہے۔ ڈرے ہوئے لوگ‘ اپنے معاشرے کا بوجھ ہوتے ہیں۔ لیکن محنت کش جو اپنے اہل وطن کا پیٹ پالتے ہیں‘ وہ بہادر اور عظیم ہوتے ہیں۔ان کے لئے ہر یوم آزادی‘ نئی خوشیوں اور نئی امیدوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ ہمارے عوام ہمیشہ ناچتے گاتے رہیں گے۔ حکمران آتے رہیں گے۔ حکمران جاتے رہیں گے۔ عوام کا پاکستان قائم و دائم رہے گا۔ ہمیں کیا خوف؟ ہمیںکس کا خوف؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved